دشمن کمینہ ہو اور شکست خوردہ بھی تو اس سے کبھی بھلائی کی امید رکھنا پرلے درجے کی سادہ لوحی ہے‘ تاریخ انسانی میں امریکہ سے کمینہ دشمن اور بے اعتبار دوست دیکھنے کو ملا نہ سننے میں آیا۔ یورپ کی جنگوں نے اسے غلامی سے نکل کر بڑا بننے کا موقع فراہم کیا اور افغانوں نے روس جیسی بے رحم سپر پاور کی کمر توڑ کر امریکہ کو دنیا کی واحد عالمی قوت کا اعزاز بخشا۔روس کے خلاف دس سالہ جنگ کی تباہ کاریوں کا ازالہ کرنے اور افغانستان کی تعمیر نو کی بجائے امریکہ الگ ہو کر بیٹھ گیا۔ افغان مجاہدین نے دس برس تک روس کو افغانستان میں مصروف رکھا‘ اس کی فوجی دھاک اور معاشی و اقتصادی حالت کو تباہ کر کے اسے گھٹنوں پر لے آیا‘ روسی قبضے اور غلامی سے درجن بھر مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے ممالک کو آزادی نصیب ہوئی‘ مغربی یورپ کو مستقل خطرے سے نجات ملی اور امریکہ کو یہ اعزاز ملا کہ وہ دنیا کی اکیلی اور سب سے طاقت ور سلطنت بن گیا۔ افغانوں کا احساس ماننے‘ ان کی مدد کرنے کی بجائے امریکہ نے سوچے‘ سمجھے اور غور و فکر کئے بغیر الٹا افغانستان ہی کو زیر کرنے کے لیے اسی پر حملہ کردیا‘بیس سال بارود اور آہن برستا رہا‘ افغانوں کا خون بہتا رہا اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی قوت و شوکت اقتصادیات بیٹھ گئی۔ افغان خون دے کر سرخرو ہوئے امریکیوں کی شان و شوکت مٹی میں مل گئی۔ آج ہماری فکر جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں ہے۔ امریکہ براہ راست جنگ میں فیصلہ کن شکست سے دوچار ہوا ہے‘ فوجی طاقت‘ ٹیکنالوجی‘ دولت و ثروت‘ پوری دنیا کی سفارتی سیاسی فوجی‘ اقتصادی عدد اور تعاون کے باوجود جنگ ہاری جا چکی ہے۔ پہلا رائونڈ ہارنے کے بعد اس نے داعش نامی پراکسی کو بروئے کار لا کر طالبان حکومت کو قدم جمانے سے روکنے کی راہ چنی، اس کام کے لیے بھارت کا تعاون اسے پہلے سے میسر تھا ،وہ اب بھی ہے لیکن خفیہ جنگ کا یہ دوسرا رائونڈ بھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکا۔ تیسرا رائونڈ سفارتکاری کا ہے‘ ان کی فوری مشکلات کا ازالہ کرنے کی بجائے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے‘ ان سے اس طرح کے سیاسی مطالبات کئے جا رہے ہیں، جو خود یہ ملک اپنے ہاں دہرانے کو کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ وطن کے غداروں اور افغان عوام کا خون بہانے والے سفاک قاتلوں‘ لوٹ کھانے والے سیاسی لٹیروں‘ قسم قسم کی پراکسی کو حکومت میں شامل کرنے کے مطالبات کئے جا رہے ہیں لیکن جو جنگ امریکہ پوری دنیا کی مدد اور حمایت کے باوجود ہار گیا ،پہلے پہل اسے دوحہ بچھائی سفارتی بساط پر لے آیا ،یہاں بھی اسے شرمات ہو گئی۔ اب آخری رائونڈ اقتصادی ناکہ بندی کا ہے۔ افغانستان میں کھانے پینے کی اشیا ‘ بیماروں کے لیے ادویات‘ سخت سردی سے بچنے کے لیے چھت اور کپڑوں کی ضرورت ہے‘ سرکاری اہلکاروں کے لیے تنخواہیں دینے کو وسائل نہیں ہیں‘ اس کے اپنے 9ارب ڈالر امریکہ ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں‘ دوست ممالک اور اسلامی ملکوں کی تنظیم اب تک چپ سادھے ہوئے ہیں‘ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے سوا کوئی دوسری توانا آواز کہیں سے سنائی نہیں دتی۔ ہر روز ایک نئے دارالحکومت میں ایک نئی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے ،جس کا کچھ حاصل وصول نہیں ہے۔ پاکستان اور چین کے سوا کسی دوسرے ملک اور ہمسائے نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا‘ بھوک اور بیماری اپنا اثر دکھانے کو دیر نہیں کرتی‘ زندہ رہنے کو روزانہ ہر ایک کو روٹی چاہیے۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے امریکہ تو یہ چاہے گا، سرکاری اہلکاروں کو تنخواہ نہ ملے‘ طالبان رضاکاروں کے گھر میں کھانا نہ ہو‘ افغانستان کے ہر گھر‘ کونے کھدرے میں بھوک اور قحط پھیل جائے ،لوگ بیماری اور بھوک سے مرنے لگیں‘ اس کے نتیجے میں افراتفری پھیل جائے‘ عام بغاوت ہو‘ حکومت بے بس ہو‘ کروڑوں لوگ نقل مکانی کرنے لگیں۔ پاکستان اور ایران سمیت ہمسایہ ملکوں میں مہاجرین آنے لگیں‘ اب یہ ہمسایہ ریاستیں مہاجرین کو روکیں تو مشکل آنے دیں تو مصیبت‘ امریکہ جو مقاصد اپنی فوجی طاقت سے حاصل نہیں کر سکا وہ اقتصادی ناکہ بندی سے حاصل کرنا چاہتا‘ اس کا افغانستان پر حملہ بھی صرف افغانستان کو زیر کر کے فتح کرنے کا نہیں تھا‘ وہ افغانستان کو کیمپ بنا کر یہاں سے پاکستان کی فوجی طاقت‘ ایران کی نظریاتی حکومت‘ روس اور چین کی ناکہ بندی‘ روس کی سابقہ ریاستوں میں افراتفری اور سنکیانگ میں بغاوت برپا کرنے کے درپے تھا‘ افغانوں نے اپنے خون کے عوض نہ صرف اپنی آزادی کو برقرار رکھا بلکہ سارے ہمسایہ ملکوں کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کی حفاظت بھی کی ہے۔ پاکستان میں پھیل جانے والی سیاسی افراتفری کا کچھ تعلق امریکہ کی کوشش اور افغانستان کے حالات سے بھی ہے۔ عمران خان کے اتحادی کڑے وقت جانے ان جانے میں غلط ہاتھوں میں کھیلنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں انگڑائی لینے والی تحریک پچھلے برس کی طرح اب بھی ناکام ہو گی اور افغانستان میں حالات بگاڑنے کی امریکی سازش بھی اپنی موت آپ مر جائے گی۔ کیوں؟ اس لیے کہ افغانستان میں یہ سب کچھ پہلے ہی دہرایا جا چکا ہے‘ روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد امریکہ نے پاکستان پر فوجی اقتصادی پابندیاں عائد کردیں‘ افغانستان میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کئے‘ خانہ جنگی برپا کر کے دور بیٹھ کر تماشہ دیکھنے لگا‘ ایسے میں مدرسوں کے استاد اور طلبہ بروئے کار آئے‘ پہلے پہل پختون آبادی نے ان کی حمایت کی اور یوں طالبان نے دارلحکومت کابل پر قبضہ کر کے اپنی حکومت کا آغاز کیا۔ اس وقت کی طالبان حکومت کو بھی پاکستان‘ سعودی عرب اور عرب امارات کے سوا کسی ملک نے تسلیم نہیں یا تھا‘ روس‘ چین نہ ایران۔ نہ ہی کسی ملک نے انہیں کوئی مدد فراہم کی‘ اس وقت بھی اشیاء صرف کی قلت تھی‘ سنٹرل ایشیا سے افغانوں کو کچھ بھی حاصل نہیں تھا‘ ایران کو بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر شدید اختلافات تھے بلکہ وہ طالبان مخالف باغیوں کی ہر طرح مدد کر رہا تھا‘ بالکل ایسے حالات جیسے اب ہیں ان میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا، بلکہ اب کے بار طالبان کی افغانستان کے اندر گرفت زیادہ مضبوط اور موثر ہے اس لیے کہ اس زمانے میں وادی پنج شیر میں طالبان مخالف قابض تھے‘ ان قابض کو روس‘ یورپ اور ایران کے علاوہ بھارت کی فوجی اور اقتصادی حمایت حاصل تھی‘ سنٹرل ایشیائی ہمسایوں سے انہیں ہر طرح کا تعاون مل رہا تھا،ان حالات میں بھی تین برس تک طالبان نے کامیابی سے حکومت چلائی۔ ایسا امن و سکون افغانستان نے پوری ایک صدی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔اب پورے افغانستان میں طالبان کا قبضہ ہے۔ پاکستان کی سرحدیں ان کے لیے کھلی ہیں‘ وسطی ایشیا سے افغانستان مخالف کارروائیاں نہیں ہورہی ہیں‘ روس طالبان کے ساتھ اظہار ہمدردی کر رہا ہے‘ چین کو کچھ اپنے مستقبل کے ارادوں کی تکمیل‘ کچھ پاکستان کے ایما پر ان کی مدد کرنا ہی ہوگی۔ پاکستان ایران کی ہر طرح مدد کرتا رہا تھا۔ جب ان پر پابندی لگا دی گئی تھی تو وہ افغانستان کی مدد سے کیوں کر ہاتھ کھینچ سکتا تھا جبکہ طالبان کی بدولت ایک مدت کے بعد مغربی سرحدوں کی طرف سے امن نصیب ہوا ہے۔پاکستان نے تب مدد کی تھی اب بھی کرنا ہوگی۔ بھوک اور روٹی بانٹ لینے میں سب کا فائدہ ہے۔ پیغمبر اعظمؐ کا فرمان ہے ’’ایک آدمی کی خوراک دو کو‘ دو کی چار کو اور چار کی آٹھ کو کفالت کرنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ بائیس کروڑ پاکستانیوں کی روٹی چار یا پانچ کروڑ افغان بھائیوں کی کفالت نہ کرے۔