میں جاگنے لگا تو نیا خواب آ گیا پھر میری خواب گاہ میں سیلاب آ گیا پہنچا میں شہرِ علم میں عجز و غنا کے ساتھ جب ہاتھ ابو تراب کا اک باب آگیا کبھی کبھی میں ضرور سوچتا ہوں کہ آقائے نامدار ﷺ کی گفتگو کیسی ہو گی وہ مسکراتے کیسے ہونگے۔لب و لہجہ نرماہٹ‘ ملائمت اور آنکھوں کی روشنی آپؐ کے واقعات روشن منارے ہیں۔ڈاکٹر شاہد صدیقی نے ایک مختصر سی حدیث سنائی المحزن صدیقی یعنی حزن میرا دوست ہے حزن غم و درد و ملال کو کہتے ہیں اس اختصار و اعجاز پر کوئی کیوں نہ سر دھنے۔ دو الفاظ میں معنی کا سمندر بند ہے ادب کے طلبا اسے زیادہ سمجھ سکتے ہیں کہ جانتے ہیں غم و الم کا ٹریجڈی کے ساتھ کیا مرتبہ ہے۔یوں تو شیخ سعدی نے بھی خوب کہا تھا کہ ہنسنا کھیلنا دوستوں کے لئے چھوڑ دو۔آپ ﷺ تو ویسے بھی امت کے غم میں غلطاں رہتے تھے۔ آج میری کیفیت عجیب ہو گئی کہ جب قاری محمد عرفان صاحب نے مسجد نبوی کا واقعہ بیان کیا کہ ایک بدھو یعنی دیہاتی نے مسجد نبوی میں پیشاب کرنا شروع کیا تو صحابہ اس کو مارنے کے لئے دوڑے۔رحمت عالمﷺ نے انہیں روک دیا۔جب وہ شخص فارغ ہو چکا تو اسے سمجھایا کہ یہ سجدہ گاہ ہے۔بعد میں آنے والے اس میں حکمت کی باتیں تلاش کرتے رہے کہ اگر وہ ڈر کر بھاگتا تو زیادہ جگہوں پر قطرے پڑتے یا پیشاب روکنے سے اسے کچھ ہو جاتا۔مگر اصل بات تو کچھ اور تھی وہ آقاؐ کا اخلاق تھا وہ شخص ساری عمر لوگوں کو بتاتا رہا کہ ہائے ہائے اس نے کیا کیا اور پیغمبر ﷺ نے کیا شفقت دکھائی۔آپؐ سے جو ملا وہ آپؐ کا ہو گیا۔آج جمال و جلال کا حسین امتزاج ہے آپؐ کے ساتھیوں کا تعارف بھی تو قرآن نے کروایا۔اقبال نے اسے اپنے الفاظ میں خوب بیان کیا: ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم ازم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن گویا اپنی طاقت کفر کے خلاف دکھائی ہے یہ نہیں کہ مدہوش ہو کر اپنوں پر ہی چڑھ دوڑیں اور آزاد لوگوں کو غلام بنا کر رکھیں۔ایک چیز دیکھنے اور سمجھنے والی ہے کہ آقاؐ اپنے صحابہ کے ساتھ کس قدر شفیق اور خلیق تھے ایک واقعہ نے تو ہمیں اشکبار کر دیا۔ بات تو چلی اقامت صلاۃ سے کہ حضورؐ اس میں بہت سختی کے ساتھ تنبیہ کیا کرتے تھے کہ ان کے قریب ترین اصحاب میں سے معاذ بن جبل تھے کہ جنہیں حضورؐ نے خود کہا کہ آپؐ معاذ بن جبل سے پیار کرتے تھے۔نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ نماز کا اہتمام نہیں چھوڑنا کہ ایسے شخص سے اللہ اپنا ذمہ اٹھا لیتا ہے۔ جب حضور ﷺ نے معاذ بن جبل کو گورنر بنا کر بھیجا تو حضور کے حکم پر معاذ بن جبل گھوڑے پر سوار تھے اور آقاؐ ساتھ پیدل چلتے ہوئے انہیں نصیحت کر رہے تھے ایک بات آخر میں ایسی بھی حضورؐ نے کر دی کہ شاید معاذ کے ساتھ ان کی آخری ملاقات ہو اس پر معاذ بن جبل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے یہاں تک خود حضورؐ بھی رو دیے پھر حضورؐ نے انہیں تسلی دی کہ قیامت کو ان کے ساتھ رہنے والے ان سے پہلے ملیں گے۔میں نے مفہوم بیان کیا ہے مقصد بتانے کا یہ کہ حضورؐ کے ساتھی آپؐ کے دل کے قریب رہتے تھے میں یہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ کبھی تنہائی میں آپؐ کے رویے اور لب و لہجے کو تصور میں لاتا ہوں تو آپؐ خصائل و عادات خدوخال میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ ممبر رسولؐ کا تقدس اور مقام ملحوظ نظر رکھنا ازبس ضروری ہے۔آپؐ کی باتیں تو خوشبو کا کاروبار ہے شہد ٹپکاتی باتیں کانوں میں رس گھولتی باتیں قانون اور اخلاق کے پیکر میں ڈھلتی باتیں۔ سبحان اللہ اس وقت اشد ضرورت ہے کہ کوئی راستہ نکالا جائے کہ بدتمیز ہوتے ہوئے نوجوانوں کو اخلاقیات کی طرف لایا جائے ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں شیخ سعدی کی گلستان ابتدا ہی میں پڑھائی جاتی تھی اب کے تو کوئی ایسی ہوا چلی ہے کہ کسی کا لحاظ تک نہیں ایک مہم سمجھ کر پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں ایسے ہی شعر یاد آ گیا: میری پگڑی نہ اچھالے مرے دشمن سے کہو اپنی دستار سنبھالے میرے دشمن سے کہو برداشت اور حوصلہ ضروری ہے وضعداری اور ایثار کردار کی خوبصورتی ہے۔ نرم اور ملائم رویہ لوگوں کو آپ کے قریب لائے گا۔یہ جو حرص و ہوس کی ہوا ہے اسے اندر نہ اترنے دیں۔حقیقت یہ ہے سب کچھ سیرت سے کشید کیا جا سکتا۔اس کے لئے عملی محنت بھی ضروری ہے۔مثلاً مجھے ایک نوجوان احمد زمان جو کہ ندیم خاں کے فرزند ہیں اور وہ نیکی کی جانب بہت رجحان رکھتے ہیں۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ انہوں نے محلے اور کے قرب و جوار سے نوجوانوں کو گھر چائے کے لئے بلایا۔مقصد اس میں صرف یہ تھا کہ نوجوانوں کے ساتھ رابطہ رکھا جائے۔ اس میں تبلیغ بھی نہیں تھی صرف گپ شپ اور تعارف تھا کہ بچوں سے وقت کی اہمیت اور تعلیم کی وقعت پر بات کی جا سکے۔ابھی کچھ لوگ ہیں جو نئی نسل کو بدلنے کا جذبہ رکھتے ہیں: ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے جینے والوں کے لئے اتنا سہارا ہی سہی گویا اپنے اپنے حلقہ اثر میں اگر چاہیں تو غیر محسوس طریقے سے نئی نسل کو اپنے قریب لا کر قیمتی بنا سکتے ہیں۔ اچھا لگتا ہے کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں فکری نشست ڈاکٹر افتخار منہاس کے ہاں ہوئی تھی۔جس میں کئی فکر رکھنے والے لوگ شریک ہوئے: مالی دا کم پانی لاناں بھر بھر مشکاں پاوے مالک دا کم پھل پُھل لانا لاوے یا نہ لاوے ٭٭٭٭٭