محمد اختر

 

  برطانوی گوریاں مصنوعی غسل آفتابی کے چکر میں جلد کا کینسر لگوابیٹھیں

 

کبھی کبھار انسان زندگی میں ایسا قدم اٹھا لیتاہے جس میں اسے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ایسا ہی کچھ برطانوی گوریوں کے ساتھ ہوا جو اپنے گورے رنگ سے مطمئن نہ تھیں اور اپنے گورے رنگ کو برائون یا سنہرا کرنا چاہتی تھیں۔اس مقصد کے لیے وہ مصنوعی غسل آفتابی کرتی تھیں لیکن ان کی جلد کا رنگ تو تبدیل نہ ہوا ،  الٹا وہ جلد کے کینسر کی مریض بن گئیں ۔ ( یادرہے کہ مصنوعی غسل آفتابی کے لیے ایسے بیڈ کو استعمال کیاجاتا ہے جس میں سورج کی طرح روشنی کی الٹراوائلٹ شعائیں خارج ہوتی ہیں اور اسی لیے ان کو’’سن بیڈ‘‘ کہا جاتا ہے)آئیے آپ کو ان گوریوں کے بارے میں بتاتے ہیں اوران کی عبرت انگیز کہانی سناتے ہیں۔ 

چہرے پر سیاہی مائل خون کے ساتھ بڑے بڑے زخم ، ناک اور رخسار میں ڈرائونے سوراخ اور پورے جسم پر زخموں جیسے سرخ دھبے ،بظاہر یہ کسی ڈرائونی فلم جیسا لگتا ہے تاہم یہ جلد کا کینسر ہے جس نے ان گوریوں کی جلد کو تباہ کردیا ہے۔دراصل یہ خواتین اپنے جسم کی جلد کو سنہر ی مائل برائون کرنا چاہتی تھیں اور اس مقصد کے لیے مصنوعی غسل آفتابی کرتی تھیںتاہم اس کا الٹا اثر ہوا  اور روشنی کی الٹراوائلٹ شعائوں نے ان کی جلد کو تباہ کردیا۔ ایسی ہی ایک خاتون ٹانی ولو بائی نے اپنی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے جس میں اس کی تباہ شدہ جلد کو دیکھا جاسکتا ہے۔

یوکے میں ہرسال سکن کینسر (جلد کے کینسر )کے سولہ ہزار کیس سامنے آتے ہیں جبکہ اس سے ہرروز چھ برطانوی باشندے مرتے ہیں۔ اس طرح انیس سو ستر کی دہائی سے اس سے مرنیوالوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ غیرملکی سیروسیاحت بہت سستی ہوچکی ہے اور برطانیہ بھر میں مصنوعی غسل آفتابی کے سیلون عام ہوچکے ہیں۔   اس ہفتے ’’فیبلس‘‘نامی تنظیم نے ایک مہم شروع کی ہے جس کا نام Dying For A Tan ہے جس کامقصد لوگوں میں اس بات کی  آگاہی پیداکرنا ہے کہ جلد کی رنگت کو تبدیل کرنے کے لیے مصنوعی غسل آفتابی کے صحت پر کس قدر شدید برُے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ 2010سے یوکے میں اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے لیے مصنوعی غسل آفتابی یا سن بیڈ کو غیرقانونی قرار دیا جاچکا ہے یعنی اس سے پہلے اس پر کوئی روک ٹوک نہ تھی چنانچہ بیس ، تیس اور چالیس سال اور اس سے زیادہ عمر کی عورتیں اب اس کی قیمت اداکررہی ہیں کیونکہ وہ مصنوعی غسل آفتابی کے شدید بداثرات سے دوچار ہیں۔دنیا کے متعدد ملکو ں میں بچوں کامصنوعی غسل آفتابی غیرقانونی ہے اور کسی بھی عمر میں مصنوعی غسل آفتابی جلد کا کینسر ہونے کے خدشات کو پچیس فیصد تک بڑھادیتا ہے۔یہاں پر ہم تین عورتوں کی کہانی پیش کررہے ہیں جو اپنی گوری رنگت کو برائون کرنے کے لیے مصنوعی غسل آفتابی کی بھاری قیمت ادا کررہی ہیں۔ٹانی ولو بائی ہفتے میں پانچ بار مصنوعی غسل آفتابی کرتی تھی جس کی وجہ سے اس کے چہرے پر زخم ہوگئے اوروہ جلد کے کینسرسے دوچار ہوگئی ۔اب اسے یہ غم کھائے جارہاہے کہ اس کے مرنے کے بعد اسکے دوسال کے بیٹے کا کیا ہوگا۔

 انتیس سالہ نرس ٹانی ولوبائی نے فیس بک پر اپنی ایک سیلفی شیئر کی جس میں اس نے خودکومصنوعی غسل آفتابی سے ہونے والے نقصان کے بارے میں دکھایا ہے ۔ تصویر کے نیچے اس نے لکھا ہے ،’’جلد کا کینسر کچھ اس طرح کا ہوتا ہے۔‘‘

لوگوں کو مصنوعی غسل آفتابی سے روکنے کے لیے کہتے ہوئے اس نے لکھا ہے،’’سن سکرین کا استعمال کریں ۔دوسروں کی غلطیوں سے سیکھیں۔ایسا نہ ہوکہ مصنوعی غسل آفتابی کے نتیجے میں آپ اپنے بچوں کو بڑا ہوتا ہی نہ دیکھ سکیں۔میرا سب سے بڑا خوف بھی یہی ہے کہ اگر میں مر گئی تو میرے دوسالہ ننھے بچے کاکیا ہوگا۔ ‘‘

نرس جیڈ تھریشر نے تیرہ سال کی عمر میں مصنوعی غسل آفتابی کا آغاز کیاکیونکہ سکول میں بہت زیادہ گوری رنگت کے باعث سب اس کا مذاق اڑاتے تھے۔اس کے والدین نے گھر میں بھی سن بیڈ رکھا ہوا تھا تاہم جیڈ اس کے لیے پارلر جاتی تھی۔بعدمیں اس نے اپنا زاتی سن بیڈ لے لیا تاکہ شادی سے پہلے اپنا رنگ سنہری مائل برائون کرسکے۔لیکن 2014میں اس نے اپنی ناک پر ایک دانہ نما داغ محسوس کیا ۔ یہ دانہ پھٹ رہا تھا اور ٹھیک نہ ہورہا تھا۔بائیوپسی سے پتہ چلا کہ وہ صرف چوبیس سال کی عمر میںکینسر کی مریض بن چکی ہے۔نرس کے طورپر وہ جانتی تھی کہ وہ کس قسم کی بیماری میں مبتلا ہوچکی ہے۔ اس کا خاوند میتھیواور خاندان کے دیگر افراد اس خیال سے ہی خوفزدہ تھے کہ یہ کینسر اس کی موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

سرجنوں نے اس کینسری دانے کو کاٹ کر باہرنکالا جس سے جیڈ کی ناک کے دائیں نتھنے کے اوپر پانچ پینی کے سکے کے برابر سوراخ رہ گیا۔اس کی ناک کے اوپر سوراخ کو بند کرنے کے لیے اس کے سینے پر سے گوشت لیاگیا ، اس طرح اس کی ناک کا سوراخ تو بند ہوگیا تاہم اس سارے معاملے میں ہونے والا نفسیاتی دھچکا اب بھی قائم ہے۔وہ کہتی ہے،’’میں چاہتی ہوں کہ نوعمر افراد میری ناک میں ہونے والے سوراخ کو دیکھیں اور جانیں کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔میرے گھر میں بھی ایک سن بیڈ تھا جسے میں نے کوڑے میں پھینک دیا کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ جو میرے ساتھ ہواہے ، وہ کسی اور کے ساتھ بھی ہو۔‘‘چونکہ جیڈ کے کینسر کی تشخیص جلد ہوگئی ، اس لیے اسے کیمو تھیراپی اور ریڈیو تھیراپی کی ضرورت نہیں تھی تاہم وہ اب بھی باقاعدگی سے اپنا چیک اپ کراتی ہے۔کیلی فورنیا کی کوری فیلٹز کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔اس نے بھی تیر ہ سال کی عمر میں مصنوعی غسل آفتابی یا سن بیڈ کا استعمال شروع کیا کیونکہ اس کی زردی مائل سفید رنگت کے باعث سب اسے تنگ کرتے تھے۔وہ چودہ سال تک سن بیڈ ز کا استعمال کرتی رہی حتیٰ کہ اس میں کینسر کے ابتدائی آثار رونما ہونے لگے۔

کینسر کے باعث اس کے اوپری دھڑ سے گوشت کا ایک ٹکڑا نکالا گیا جبکہ ہونٹ کے اوپر موجود کینسری تل کونکالنے کے لیے اسے ایک اور آپریشن کی ضرورت تھی ۔ اس کی وجہ سے اس کے اوپر ی ہونٹ پر بہت بڑا کٹ بن گیا جسے پرُکرنے کے لیے ری کنسٹرکٹو سرجری درکار تھی۔کوری بتاتی ہے کہ ری کنسٹرکٹو سرجری کے بعداس نے نرس سے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا کہ کیا وہ کائلی جینر لگتی ہے۔وہ کہتی ہیں ،’’اس سوال کے جواب میںنرس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھے پتہ چل گیا کہ سب اچھا نہیں ہے۔‘‘ کوری کو کیمو تھیراپی کی کریم بھی استعمال کرنا پڑی تاکہ کینسر کے نشانوں کو ختم کیاجاسکے۔ؑلیزا پیس پر تو مصنوعی غسل آفتابی کا نشہ سوارہوچکا تھا اور وہ روزانہ سن بیڈ استعمال کرتی تھی۔سن بیڈ استعمال کرنا ایک ایسا عمل تھا جس پر وہ اب پچھتاتی ہے کیونکہ وہ اس سے سکن کینسر میں مبتلا ہوگئی اوراس کے لگ بھگ چھیاسی آپریشن ہوئے۔اس میں میلا نومایعنی جلد کے سرطان کا سن دوہزار میں پتہ چلا جب وہ صرف 23سال کی تھی۔

اس کی ران اور اوپری دھڑ سے بہت ساری جلد اتاری گئی جس کے بعد اسے خوش خبری سنائی گئی کہ اس کا تمام کینسر ختم کردیا گیا ہے۔تاہم وہ بدستور مصنوعی غسل آفتابی لیتی رہی ، اس کا خیال تھا کہ اس سے اس کی جلد کو کچھ نہیں ہوگا۔صرف ایک سال کے اندر اسے اپنے رخسار پر ایک دانہ محسوس ہواجبکہ کچھ دنوں میں اس کے چہرے اور ٹانگوں پراس طرح کے دانے نکل آئے۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ اسے ہر تین ماہ بعد جلد کے کینسر کی سرجری کرانا پڑتی اور یوں اب تک وہ نوے کے قریب سرجریاں کراچکی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔