کورونا وائرس کے خلاف جنگ جاری ہے۔ لاک ڈاؤن اورحفاظتی اقدامات کے ذریعے کورونا وائرس کاپھیلاؤ روکنے کی حکمت عملی بنی۔ وفاقی حکومت نے قومی خزانے سے صوبوں کوادویات اور آلات کی فراہمی کے ذریعے امداد نہ دینے کا فیصلہ کیا جس کی وفاقی کابینہ نے باضابطہ منظوری دی ۔وجہ صاف ظاہر تھی کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کی ذمہ داری ہے اور قومی خزانہ اضافی بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا‘تاہم یہ حقیقت ہے کہ صوبوں کی رہنمائی اور عالمی اداروں کیساتھ کوآرڈینیشن وفاقی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ وفاقی حکومت یہ بنیادی ذمہ داری گزشتہ دو ماہ سے ’’وزارت نیشنل ہیلتھ سروسزریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن‘‘کے ذریعے نبھانے کے کوشش کررہی ہے ۔ یعنی کہ وفاقی وزارت صحت کورونا کے خلا ف جاری جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہی ہے۔ وفاقی وصوبائی حکومتوں اور نجی میڈیکل شعبے کواچانک پھوٹنے والی کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے آلات کی کمی کا سامنا ہوا تو وزارت صحت کے دروازے پر دستک دی گئی تو مشکل کی اس گھڑی میں وارداتیے متحرک اور وزارت صحت کے نام نہاد غیرملکی تجربے کے حامل افسران کا امتحان شروع ہوگیا۔ مفاد پرست لابی نے ایڈہاک ازم میں ڈوبی وزار ت صحت کے ذریعے حسب روایت ’واردات‘ کا عمل شرو ع کردیا۔وزارت صحت کی جانب سے فیصلہ کیا گیا کہ کورونا کے علاج کیلئے درکار طبی آلات اور مشینری کی ڈیوٹی فری اجازت دینا ناگزیرہوگیا ہے۔61 آئٹمز کی لسٹ تیارہوئی جس پرجی ایس ٹی‘کسٹمز ڈیوٹی اور انکم ٹیکس کی چھوٹ کی سفارش کی گئی۔ ان آلات کی ڈیوٹی فری درآمد کیلئے برانڈ کا نام اورمخصوص ممالک کی شرط عائد کی گئی۔چینی اور گندم ایکسپورٹ کی آنکھیں بند کرکے منظوری دینے والے کابینہ ارکان نے اس حساس معاملے پر بھی آنکھیں موندھے رکھیں اور یہ سوال تک کرنا گوارا نہ کیا کہ اس لسٹ میں موجود آئٹمز کا تعلق کورونا وائرس کے علاج سے ہے بھی کہ نہیں؟سمری منظوری ہوئی اورایف بی آر نے 20مارچ کو 61آئٹمز کی ڈیوٹی فری درآمد کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ کورونا وائر س کے علاج کیلئے ڈیوٹی فری آلات کی لسٹ میں ریفریجریٹر اوریوپی ایس سمیت کئی غیر متعلقہ آئٹمز بھی شامل تھیں۔ نوٹیفکیشن جاری ہونے کی دیر تھی کہ تاک میں بیٹھی کمپنیوں نے دھڑادھڑ امپورٹ آرڈر جاری کردئیے کہ مال بنانے کا سنہری موقع پھرجانے کب ملے؟ کورونا کے مریضوں کا علاج ہونہ ہو مگر امپورٹرزنے ایک ہی ہلے میں سال بھر کی کمائی کرلی۔یہ ’واردات‘کیونکر ممکن ہو ئی اس راز سے پردہ آگے چل کر اٹھاتے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے13اپریل کو جب ڈاکٹر ظفرکی کارگردگی پر برہمی کا اظہار کیا تو وزارت صحت اچانک بیدار ہوگئی کیونکہ چیف جسٹس صاحب کو وزارت صحت کی باریک وارداتوں کی رپورٹس موصول ہورہی تھیں۔24روز گزرنے کے بعد جب ’واردات‘ ڈالی جاچکی تھی‘ـ وزارت صحت کے افسران نے 14اپریل کو اچانک وفاقی کابینہ کے سامنے سمری پیش کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر صفی ملک کی سفارش پر 20 اپریل کو برانڈ اورکنٹری کی شرط کیساتھ 61 آئٹمز درآمد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔جن آئٹمز پر ڈیوٹی اورٹیکس چھوٹ دی گئی ان میں سے 12 کا تو کورونا علاج سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔ دیگر 49آئٹمزپربرانڈاورکنٹری کی شرط بھی غلطی سے عائد ہوئی لہٰذااب غلطی کے ازالے کیلئے 20 اپریل کو جاری ہونیوالا نوٹیفکیشن منسوخ کرکے نیا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی منظوری دی جائے۔ کابینہ ارکان نے ایک مرتبہ چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے منظوری دیدی کہ کہیںنیا اسکینڈل ہی نہ بن جائے۔جب دستاویز کا جائزہ لیا تو سوچا وزارت صحت کی’واردات‘ کی کھوج لگانی چاہئے۔تحقیق شروع کی تو چشم کشاانکشافات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ملکی تاریخ کے نازک اورمشکل ترین مرحلے میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والی وزارت صحت ایڈہاک ازم کے جوہڑ میں ڈوبی ملی۔وفاقی وزیر سے محروم وزارت صحت کے 18 ماہ میں چار سیکرٹریز تبدیل ہوچکے۔ایک سیکرٹری کو تو دو دن بعدتبدیل کردیا گیا۔اب بھی سیکرٹری صحت کا چارج ایڈیشنل سیکرٹری انچارج کے پاس ہے۔وزار ت صحت کے اہم ترین گریڈ 20کے عہدے ‘ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پرگریڈ 19 کا جونیئر ڈاکٹر صفی ملک تعینات ہے جو گزشتہ سات سال سے ڈیپوٹیشن پر وزارت صحت میں تعینات ہے۔اور تو اور وفاقی اسپتال بھی ابتری کا شکار ہیں۔چاروں بڑے اسپتالوں پر من پسند‘ جونیئر قائم قام ایگزیکٹو ڈائریکٹرز تعینات ہیں۔پمز اسپتال کوڈینٹل سرجن‘ پولی کلینک کو گائناکالوجسٹ‘ فیڈرل جنرل اسپتال کو میڈیکل آفیسر اور نرم ہسپتال کو ڈپٹی ڈائریکٹر’ہانک‘رہے ہیں۔ قرضوں تلے دبے قومی خزانے اور عوام کیساتھ ایک اور ’واردات‘بھی ملاحظہ کرلیجئے ۔گالا داری سیمنٹ پرائیویٹ لمٹیڈنے 1994ء میںفرانس سے 37.38ملین یوروقرض حاصل کیا جس کا مقصد حب میں سیمنٹ پلانٹ لگانا تھا ۔جس کی بعد ازاںپیرس کلب سیٹلمنٹ کے تحت حکومت پاکستان نے ادائیگی کی ذمہ داری لے لی۔ حکومت پاکستان نے یہ رقم گالاداری سیمنٹ کے مالکان سے وصول کرنا تھی مگر 26سال گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت قرض کی ایک پائی بھی گالاداری سیمنٹ سے وصول نہیں کرسکی جبکہ قومی خزانے سے ساڑھے چار ارب روپے کی رقم اداکی جاچکی ‘4ارب 80کروڑ روپے مزید ادا کرنے ہیں۔قرضہ انکوائری کمیشن نے معاملے کا سراغ لگایا تو ’ذمہ داران‘کی آنکھ کھلی مگر داد دیجئے گالا داری سیمنٹ کمپنی کو جو 2020ء میں بھی رقم اد اکرنے کیلئے تیار نہیں۔ حکومت نے چٹھی لکھی تو کمپنی مالکان نے قرض کی واپسی کیلئے 2044ء تک مزید مہلت مانگ لی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔وزارت صحت میں افسران کی وارداتیں جاری ہیں تو اشرافیہ بھی ’واردات‘کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیںدے رہی۔ دیانتدار اور کرپشن سے پاک وزیراعظم عمران خان کے عہد میں ’واردات‘ ڈالنے والوں کے خلاف شکنجہ کب کسے گا؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔