وَمَکَرُوْا وَمَکَرَاللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِِیْنَ ۔اور انہوں نے (کافروں نے) خفیہ منصوبہ بنایا اور اللہ نے (ان کے خلاف) خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ ہی سب سے عمدہ تدبیر فرمانے والا ہے۔ گزشتہ برس انہی صفحات پر ایک کالم لکھا تھا‘ اس کالم کا اختصاریہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں کو بھجوایا اور ہارون الرشید صاحب کو بھی‘ اس پر اوریا مقبول جان سے بھی بات ہوئی‘ دونوں مقبول اور مشہور لکھاریوں نے بھی خاں صاحب کو اس طرف توجہ دلائی لیکن’’آئی کو کون ٹال سکتا ہے‘‘ جو ہونا تھا ہوکے رہا۔عمران خاں کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کا غلغلہ تھا اور وہ جو صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں، وہ جو چلمن سے لگے بیٹھے تھے، اپنے لمبے قد اور حماقت زدہ تدبیروں کی وجہ سے صاف نظر آتے تھے‘ اپنے تئیں انہوں نے خود کو چھپا رکھا تھا‘ تب مذکورہ مضمون میں لکھا تھا کہ مرکزی حکومت کو محفوظ بنانے اور پی ڈی ایم اتحاد کو بکھیرنے کے لئے پنجاب اسمبلی توڑ دیں‘ مرکزی اور خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت برقرار ہے اسمبلی ٹوٹنے سے پنجاب میں 90دن کے اندر انتخاب کروانا ہونگے‘مسلم لیگ نون پنجاب کو اپنی اجارہ داری سمجھتی ہے ‘ اتحادی جماعتیں حصہ طلب کریں گی‘ مسلم لیگ فضل الرحمن سے پیٹو کی سیاسی بھوک کو نہیں جھیل سکتی‘ جوتیوں کا دال بٹے گی‘حماقت زدہ سہولت کاروں نے مجوزہ تدبیر کے متعلق سوچا ہے نہ اس کے لئے منصوبہ بندی کی ہے‘ ٹکٹوں کی تقسیم اور اتحادیوں کا لالچ مشکل میں ڈال دے گا‘پنجاب الیکشن کے دوران تحریک انصاف کو شکست دینا ممکن نہیں ہو گا‘اس کا پتہ عمران خاں کے ان چند جلسوں سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا، جو انہی دنوں چند شہروں میں منعقد کئے گئے تھے‘ پنجاب میں نئی حکومت بنانے کے بعد خیبر پختونخواہ اور کچھ مدت کے بعد مرکیز انتخابات کروائے جائیں تاکہ اگلی مدت میں بھی انتخابات الگ الگ ہوں‘آزاد کشمیر میں‘گلگت بلتستان میں ان کی اپنی حکومتیں ہیں اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت ان کے اثرورسوخ اور ان علاقوں کے کارکنوں کو انتخابات کے لئے پنجاب تحریک انصاف کی مدد کے لئے بلا لیا جائے بعد میں گزشتہ عید کے اگلے دن جب عمران خاں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ بہترین تدبیر ہو سکتی تھی لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔اللہ کی خفیہ تدبیروں کو ہم سے عاجز سمجھے جائیں تو پھر وہ خالق کی تدبیریں تو نہ ہوئیں باجوہ کی ہو گئیں جو چلمن سے لگے بیٹھے تھے انہوں نے آنکھیں جھکا‘ گھٹنے ٹیک کے خود کو چھت کے پردے کے پیچھے خوں کو چھپا رکھا تھا لیکن آس پاس کی چھتوں سے دیکھنے والوں کو وہ صاف نظر بھی آ رہے تھے۔ دوسرا مرحلہ پنجاب میں معرکہ آرائی کے بعد بالآخر چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف کی حمایت سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے تو ان کا خیال تھا اور زیادہ تر منتخب نمائندوں کا بھی کہ دونوں حکومتیں برقرار رکھی جائیں‘ان حکومتوں کی موجودگی میں شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی مرکز میں 27کلو میٹر کی حاکم کو گھیر گھار کے انتخابات کے لئے مجبور کیا جائے اور اپنے کارکنوں کو مرکزی حکومت اور پردہ دار یا نقاب پوشوں کے جبر سے بچایا جائے لیکن عمران خاں پنجاب کے ضمنی انتخابات قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے جلد از جلد سیاسی مقابلے کو اختتام تک لے جانا چاہتے تھے لیکن بے وقعت‘کم کوش سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ کا مضبوط سہارا میسر آیا تو دونوں اپنی اوقات سے باہر نکل گئے اور معرکہ آرائی نے نئی شکل اختیار کر لی‘عمران خاں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوئے‘کم ظرفوں نے نہتے کارکنوں کو نشانے پر رکھ لیا ظل شاہ کی طرح متعدد کارکن شہید ہوئے‘لیڈروں پر رکیک حملے ہوئے‘میڈیا کے لوگوں کو نشانے پر رکھ لیا گیا‘ ارشد شریف سا جانباز لکھاری خون میں نہلا دیا گیا‘بہت سے ملک چھوڑ کر دیار غیر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے لیکن وہی جو ’’پناہ گیر‘‘ بنے ان غریب الوطن صحافیوں نے سہولت کاروں‘ نقاب پوشوں اور سیاسی ڈاکوئوں کا جینا حرام کر کے رکھ دیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اور شہید ملت لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستانیوں پر حکمرانی کو اپنا پیدائشی حق سمجھ کر خوب برتا‘شروع میں اسٹیبلشمنٹ کی قیادت سول ایڈمنسٹریشن کے ہاتھ میں رہی، چند برس کے بعد ایوب خاں نے اقتدار براہ راست اپنے ہاتھ میں لیا‘ سول ایڈمنسٹریشن ان کی آلہ کار بنی اس دن سے آج تک اسٹیبلشمنٹ فوجی قیادت کی سربراہی میں پاکستان کی حکمران چلی آئی ہے‘ ان کی حکمرانی کے تسلسل نے عدالتی نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا اور عدلیہ ان کی آلہ کار بنی یا عضو معطل بنا دی گئی یہ حکمرانی کبھی بلاواسطہ تھی اور کبھی بالواسطہ‘جب فوج براہ راست حکمران نہیں تو انہی کی نرسری میں اگائے سیاست آلہ کار کے طور پر تخت نشین ہوئے لیکن حکم اصل حکمرانوں کا چلتا رہا اور چل رہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند نے 1787ء سے 1974ء تک کم و بیش دو سو برس انگریزوں کی غلامی میں بسر کئے‘ اگلے پچھتر برس بھارت آزاد ہو گیا‘ اس نے نہرو کی قیادت میں اپنی حکومت بنا لی اور جمہوریت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کر لیا اور پاکستان کو آزادی کا ایک عشرہ بھی نصیب نہیں ہوا‘ ایک عشرہ بھی نہیں گزرا تھا کہ پاکستان ’’غلاموں کی غلامی‘‘ میں چلا گیا۔ایک دن اسلام آباد میں محفل جمی تھی مولانا شیرانی ایم این اور سینیٹر حافظ حسین احمد بھی تھے‘ مولانا شیرانی نے پشتو کا ایک محاورہ بولا‘ مفہوم تھا اللہ ہمیں مزارعہ کا مزارعہ ہونے سے بجائے‘ پھر خود ہی وضاحت کرتے ہوئے بولے گائوں میں تھوڑی زمینوں کے مالک جو خود کاشت نہیں کرتے یا وہ جو بڑی بڑی جاگیروں کے مالک ہوتے ہیں وہ اپنی زمینیں مزارعہ کو دے دیتے ہیں جو فصل کاشت کرتے اس کی حفاظت کرکے اسے برداشت کر کے آدھی پیداوار زمیندار کو دیتے اور آدھی اپنے پاس رکھتے ہیں آدھی فصل کے علاوہ مزارعہ کو زمیندار کے لئے بطور خدمت گار بھی کام کرنا پڑتا ہے‘ مزارعہ کے مزارعہ کی طرح عربوں میں غلامی کا رواج تھا‘ ہنر مند غلام اپنے آقا سے کچھ معاہدہ کر لیتے تھے کہ ہم روزانہ ایک خاص رقم آقا کو ادا کریں‘ اس رقم کے عوض آقا انہیں اپنی مرضی سے کام کرنے دیں گے‘ ہنر مند غلام یعنی بڑھئی‘ لوہار‘ کمہار‘ گھوڑوں کے لئے سازو سامان‘ تلواریں اور دیگر ہتھیار بنانے والے غلام جو اس طرح کے معاہدے میں ہوتے تو دوچار غلام اپنی سہولت اور ورکشاپ سے باہر کے کاموں کے لئے اپنی فالتو آمدنی سے کوئی غلام خرید لیتے تھے‘ اس غلام کی بے چارگی اور مشکل کا اندازہ کریں جو غلاموں کا غلام ہو اور وہ بھی ایک سے زیادہ مالکوں کی ملکیت میں ہو۔ انگریزوں کے جانے کے بعد‘ ان کے ہنر مند غلاموں نے بعض سیاستدانوں کو گود لیا یا ان ہنر مند غلاموں نے اپنے لئے غیر ہنر مند غلام اضافی خدمت کے لئے خرید لئے۔ اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یورپ اور امریکہ کے غلاموں نے اپنے غلام سیاستدانوں کی غلامی پر قوم کو رضا مند رکھنے کی روش برقرار رکھی‘ درمیان میں عمران خاں نے رنگ میں بھنگ ڈال دی‘ اس نے امریکیوں سے کہا ’’ہرگز نہیں‘ ہم کوئی غلام ہیں‘ ہم حقیقی آزادی کے لئے ادھوری جنگ کو اختتام تک لے جائیں گے‘ حقیقی آزادی کا نعرہ نوجوانوں نے اچک لیا وہ جوق در جوق‘ آزادی کا نعرہ لے کر عمران خاں کے گرد اکٹھا ہونے لگے‘ حقیقی آزادی کے پرکشش خیال نے بطور خاص خواتین کو متاثر کیا‘ کہتے ہیں دو مردوں کی دوستی بس دو لوگوں کا تعلق ہے لیکن دو خواتین دوست تین نسلوں کا بندھن ہے‘ خواتین کے ساتھ ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لئے ماں باپ آئے‘ شوہر اور بچے بھی‘ صبح رمضان المبارک کی سحری اور شام افطاری کا منظر ’’زمان پارک‘‘ میں عمران خاں کے گھر کے باہر جا کر دیکھئے‘ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے‘ مائیں اور دادیاں ایک ہی وقت جمع ہیں۔ میلے کا سماں‘ روحانیت کا احساس بھی‘ امراء ان کی بیویاں اور جوان بیٹے اور بیٹیاں طرح طرح کے کھانے تیار کر رہی ہیں جو مفت میں بٹتے ہیں‘ فائیو سٹار ہوٹل کی طرح مہمانوں کو احترام اور سلیقے سے پیش کئے جاتے ہیں احساس تشکر کے ساتھ بس ایک بے ساختہ مسکراہٹ اور اپنائیت ہی اس کا بدل ہے۔عمران خاں آزادی کی سپاہ کو دیکھ کر نہال ہے‘ تازہ دم‘ پرعزم اور اس کی سپاہ صف در صف ہر مشکل جھیلنے اور ہر منزل سے گزر جانے کو بے قرار ہیں‘ ان کے اندر خوف ہے نہ بے چینی‘ ان نہتے جوانوں نے تربیت یافتہ آہن پوش مسلح اسٹیبلشمنٹ کے چھکے چھڑا دیے ہیں‘ نام نہاد حکمران طاقت ور سہولت کار اور نقاب پوش ہتھیار بندوں کی مکمل شکست کی بات نہ بھی کریں تو تو صفوں میں انتشار‘ چہروں پہ تھکن‘ قدموں کی لڑکھڑاہٹ ‘ انتھک بہادر جنگ جو اعلیٰ نصب العین کے ساتھ کھڑا ہے: تیری صبح کہہ رہی ہے‘ تیری رات کا فسانہ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا مجروح سلطان پوری کارواں نہیں صف شکن مجاہد ہیں‘ مزخ کی بات یہ کہ غینم کی صفوں میں صف شکن مجاہدوں کے ساتھ ہمدردی اب ان کی عملی حمایت میں بدلتی جا رہی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کے موجود کرتا دھرتائوں کے بزرگوں کی زمان پارک میں آمد ‘ کھل کر حمایت کرنے‘ ساتھ نبھانے کے وعدے اور بے خوق پریس کے سامنے کھلا اعلان‘صبح نور کی نوید ہے۔ جلد ہی قوم آزادی حاصل ہو جانے پر مبارک سلامت کی صدائیں سنے گی۔ خفیہ تدبیر کرنے والے ‘ چھوٹی چھوٹی سیاسی چالوں سے عمران کی حکومت بچا لینے کی بجائے ‘ اسے حکمران کی بجائے ایسا رہنا بنا دیا۔جو پوری قوم کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کرے۔قائد اعظم کے بعد ایک اور قائد قدرت کا تحفہ ہے‘ سنبھال رکھیے۔