افلاطون نے کہا تھا ملک و قوم کی خدمت کے لئے سوچنے کی صلاحیت سے زیادہ جرا ت عمل ہونی چاہیے۔نوم چومسکی ڈپلومیسی کو تھری سیز (3cs)کانفیلکٹ ،کمپیٹیشن اور کوآپریشن کی جنگ قرار دیتا ہے۔ اس جنگ میں ریاستیں عسکری کے بجائے ڈپلومیسی کے ہتھیار برتتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو روس کے تیل کے جہاز کا پاکستانی بندرگاہ پر پہنچنا بلاشبہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ایسا اس لئے کہ پاکستان نے روسی تیل کی ادائیگی امریکی ڈالر کی بجائے چینی یوآن میں کی ہے۔ جو بدلتی کیثر الجہتی دنیا کی صورت میں ایک نوید ہے۔روس کے تیل کا لدا جہاز’پیور پوائنٹ‘ آئی ایم ایف اور امریکی ڈالر کی عالمی تجارت میں اجارہ داری کے سمندر کا سینہ چیر کر ہی نہیں ڈیفالٹ کی دلدل کو روندتا ہوا پاکستان کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا ہے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا اس کو تاریخی کامیابی کہنا بجا ہے۔ پاکستان اور روس کے تعلقات کی اہمیت کا اندازہ تو مفکر پاکستان علامہ اقبال کی دور اندیش شاعری سے بھی ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے چین کی آزادی سے بھی پہلے ہمالہ کے چشمے ابلتے ہوئے محسوس کر لئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کو اس منزل تک پہنچے کے لئے ایک طویل، صبر آزما اعصابی جنگ لڑنا پڑی ہے تاہم اس تبدیلی نے پاکستان کے دروازے پر پہلی بار دستک نہیں دی۔ روس پاکستان تعلقات کے نشیب و فراز کی داستان اس طرح کی کئی ماضی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس سے مفر نہیں کہ سوویت یونین قیام پاکستان کے وقت پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے خوش نہیں تھا مگر 1949ء میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی امریکہ یاترا اور دولت مشترکہ میں بھارتی شمولیت کے بعد سوویت یونین نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ماسکو کے دورہ کی دعوت دی مگر1950ء میں میجر جنرل اکبر خان اور فیض احمد فیض کی لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت نے پاکستان اور روس کے تعلقات کو شدید متاثر کیا۔1954-55ء میں پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا تو دونوں ممالک کے تعلقات میں خلیج مزیدگہری اور روس بھارت کے قریب تر ہو گیا۔لیاقت علی خان کے بعد وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے پاک روس تعلقات بحال کرنے کا آغاز کیا، سوویت فلموں کی پاکستان میں نمائش شروع ہوئی ، سوویت یونین نے ایک بار پھر دست تعاون بڑھایا۔ سوویت وزیر اعظم نیکو لائی بلگائین نے پاکستان کو سائنس اور پرامن ایٹمی تعاون کی پیشکش کی۔ ممکن تھا پاکستان اور سوویت یونین کے تعلقات عملی تعاون کی صورت اختیار کر لیتے مگر 1957ء میں امریکی ڈالر ڈپلومیسی پھر بازی لے گئی اور امریکی صدر آئزن ہاور حسین شہید سہروردی کی حکومت سے پشاور میںسوویت یونین کی جاسوسی کے لئے انٹیلی جنس سینٹر کے قیام کی سہولت حاصل کرنے میںکامیاب ہو گئے۔جواب میں 1965ء کی جنگ میں روس نے بھارت کی بھرپور فوجی مدد کی۔جنگ کے بعد ایک بار پھر جب ایوب خان کو’ فرینڈز ناٹ ماسٹر‘ کا فلسفہ سمجھ آیا تو پاکستان نے ایک بار پھر سوویت یونین کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ روس نے بھی دوستی کا ہاتھ نہ جھٹکا۔ 1968ء میں سوویت وزیراعظم الیکسی کوسچن نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی سٹیل ملز نیو کلیئر پلانٹ اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کا اعلان ہوا۔ ایوب خان کو اس کی قیمت اقتدار اور پاکستان کو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔بھٹو نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ایک بار پھر سوویت یونین کی طرف دیکھنا چاہا تووہ اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ پاکستان جب امریکہ کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو توڑنے کی کوششوں میں مصروف تھا اس وقت بھی1981ء میں گڈو تھرمل پاور اسٹیشن کے قیام کے لئے سوویت یونین نے پاکستان کو مالی و تکنیکی مدد فراہم کی۔1983ء میں سوویت یونین نے ملتان میں بھاری پانی کے ریکٹر کی تنصیب کے لئے سازو سامان مہیا کیا۔1985ء میں سوویت یونین کے تعاون کی وجہ سے ہی کراچی سٹیل ملز کا افتتاح ممکن ہوسکا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو روسی وزیر خارجہ کا یہ کہنا غلط نہیں کہ روس نے ہمیشہ پاکستان سے کیے وعدے نبھائے ہیں۔جبکہ دوسری طرف1992ء میں سوویت یونین کی تحلیل اور امریکہ کے واحد سپر پاور بننے کے بعد امریکی وفادری کی امت مسلمہ نے 25لاکھ مسلمانوں کے خون اور ایک کے بعد اسلامی ملک کی تباہی کی صورت میں ادا کی۔ امریکی قہر کی اس نصف صدی میں چین دنیا کی معاشی طاقت بن کر ابھرا تو روس بھی اپنے پائوں پر کھڑا ہونا شروع ہوا۔ سپر پاور کے امریکی خمار نے چین اور روس کو مل کر امریکی بالادستی کوچیلنج کر نے پر مجبور کر دیا۔ چین اور روس نے امریکہ کی طرح کمزور ممالک اور ان کے وسائل پر قبضہ نہیں بلکہ اشتراک باہمی سے مشترکہ ترقی کے اہداف حاصل کرنے کا اعلان کیا تو اس پیش کش نے امریکی جبر سے عاجز کمزور ریاستوں کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ہمت دی۔ امریکی ڈالر کے عالمی تجارت کی دھونس کے سامنے چین کی معاشی طاقت عالمی دنیا کی ڈھال بنی تو روس بھی امریکی عسکری قوت کے سامنے ڈٹ گیا۔ بے لگام امریکی ہاتھی کو عراق ، شام افغانستان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ یہاں تک کہ اب ایک بار پھر امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یوکرائن جنگ کے ذریعے روس کے مزید حصے بکھرے کرنے پر تلابیٹھا ہے۔چین کی معاشی ناکہ بندی کے لئے’ کوارڈ عسکری تعاون‘ کا جال بناگیا ہے مگر چین اور روس کے امریکی جبر کے سامنے ڈٹ جانے کی وجہ سے کمزور بالخصوص اسلامی ممالک امریکی کی ناراضگی کا خطرہ مول لے کر روس اور چین کی جانب دست تعاون بڑھانے کی ہمت جتا رہے ہیں۔سعودی عرب چین سے معاشی مستقبل جوڑ رہا ہے تو ترکی، عراق، شام اور ایران امریکی تسلط کے خلاف روس کی چھتری تلے پناہ تلاش کر رہے ہیں۔ بدلتے عالمی مناظر نامے میں پاکستان نے بھی نئی منازل کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ عمران خان یوکرائن جنگ سے دو روز قبل روس گئے اس کی قیمت اقتدار سے محرومی کی صورت میں ادا کی مگر ریاست اپنے راستے پر چلتی رہی۔ میاں شہباز شریف آج روس کے جس تیل کو تاریخی کامیابی کہہ رہے ہیں اس کامیابی کے لئے پاکستان نے عالمی تعلقات کے آگ اور بارود کے دریا عبور کیے ہیں پاکستان ہی نہیں پوری دنیا روس کی طرف دیکھ رہی ہے اور اس کا اعتراف خود امریکی یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ امریکی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کی آدھی آبادی روس کی حمایت کر رہی ہے۔ بدلتا عالمی منظر نامہ پاکستان روس چین دوستی کے نئے عہد کی خبر دے رہا ہے۔ یہ خبر اس منظر نامے کی ہے جو علامہ اقبال کی دوراندیش نگاہوں نے ایک صدی قبل دیکھ لیا تھا۔علامہ اقبال نے چینیوں کے سنبھلنے کے ساتھ روس کی گرم رفتار دیکھتے ہوئے ہی کہا تھا: قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار اندیشہ ہوا شوخیٔ افکار پر مجبور فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بے زار