ان کا یہ کہنا صریح جھوٹ کہ’’ ان کامرنا جینا وطن اوراہل وطن کے ساتھ ہے‘‘ ۔اگریہ سچ ہوتاتوپھر یہ اپنے وطن ،اپنے لوگوں سے دورجا کر زندگی بسر نہ کرتے ۔ یہ کسی المیے سے کم نہیںکہ پاکستان کے سیاست کاراپنے وطن کوچھوڑ کریورپ اورامریکہ سدھارجاتے ہیں۔ان کااپنا وطن چھوڑنا اوراپنے بال بچوں کے ساتھ یورپ میں عیاشیاں منانے پران کی حب الوطنی پرملین سوال اٹھتے ہیں۔ان کا اپنا وطن چھوڑ کر چلے جانے اوران کے عمل وکردارسے ثابت ہوتاہے کہ پاکستان کے ساتھ ان کاکوئی قلبی اوردلی محبت تھی اورنہ ہے ۔ جسے اپنے وطن سے پیار ہوتا ہے وہ یہاں سے بھاگ نہیں جاتابلکہ اس کا مرنا اورجینا اپنے ہی عوام کے ساتھ ہوتا ہے ۔واضح رہے کہ ان کے اس طرزعمل سے ان کی وہ عزت اورتوقیر باقی نہیں رہتی کہ جس کے وہ اہل تھے۔ پاکستان کی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذہنوں میں اسلام آباد کے بجائے اب بھی لندن ہی اچھا لگتا ہے کیونکہ یہ خطہ برطانیہ کی کالونی تھا اس لئے وہ اب بھی ذہنی طوریورپ کے غلام ہیں ۔کہاجاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت لندن بیٹھ کر اہم فیصلے اس لیے کرتی آئی ہے کہ ایک تو وہاں کھل کر بات کرنا اور اسے پوشیدہ رکھنا آسان ہے، دوسرا ملاقاتیں محدود اور پوشید ہ رکھنا ممکن ہے اور میڈیا تک رسائی آسان ترین ہے۔ نہ کوئی سیاسی دباؤ ہوتاہے اور نہ خوف۔ اس لئے سیاسی لیڈروں کا اپنی منصوبہ بندی کی تشکیل کے لئے لندن پسندیدہ ترین مقام ہے۔ پاکستانی سیاست میں لندن کا شروع سے ہی کردار رہا ہے ماضی میں ملک کے بڑے سیاسی فیصلے اسی شہر میں ہوئے۔ بینظیر بھٹو اورنوازشریف سمیت اہم سیاسی لیڈروں نے جلاوطنی بھی یہیں کاٹی اور علاج کی غرض سے بھی یہیں پہنچے۔ اپوزیشن لیڈروں اور حکمرانوں نے حکومت مخالف اتحاد اور مشاورت کے لیے ہمیشہ لندن کو منتخب کیا۔ ولی خان کی لندن سازش ہو یا چارٹر آف ڈیموکریسی ، یا پھر نواز شریف حکومت کے خلاف مبینہ لندن پلان، مشرف مخالف تحریک میں اپوزیشن کی حکمت عملی یا زرداری حکومت کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل کی منصوبہ بندی۔ نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنوں کی منصوبہ بندی بھی برطانیہ میں ہوئی، جس میں چوہدری سرور اور طاہر القادری نے شرکت کی اور ان ملاقاتوں کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں۔ سب کے پلان یہیں چاک آؤٹ ہوئے اس پر عمل درآمد اور اور کس رہنما کو کیا ذمہ داری سونپی جائے گی سب کا تعین اسی شہر میں ہوا۔ جہاں تک پاکستانی سیاست دانوں کابرطانیہ میں مقیم ہوکر یہاں کے قضا و قدر کے فیصلے لینے کی کہانی ہے تو یہ المیہ بھی روزاول سے ہی پاکستان کے شامل حال رہا ہے ۔ گرچہ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ پاکستان کے حکمران اسلام آباد کے بجائے لندن میں بیٹھ کرملک کے فیصلے کرتے ہیں۔ تاہم ۔ برطانوی دارالحکومت شروع سے ہی پاکستانی سیاست میں مختلف وجوہات کی بنا پر جلوہ گر رہا ہے اوریہ کہ پاکستانی سیاست دان مختلف ادوار میں اہم ترین سیاسی فیصلے لندن میں بیٹھ کر کرتے چلے آئے ہیں۔ دراصل انہیں اسلام آباد سے زیادہ پیارا لندن لگتا ہے ۔لندن سے ان کی محبت کی کہانی کا تسلسل جاری ہے اورآج بھی نواز شریف کی اس وقت برطانوی دارلحکومت میں موجودگی نے اسے پھر سیاسی سر گرمیوں کا مرکز بنا دیا ہے۔ویسے بھی عمران خان ،نوازشریف اور زرداری کے بچے پاکستان میں نہیں بلکہ لندن پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کرسی اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک تین مرتبہ لندن کی یاترا کرچکے ہیں اوران کے تازہ ترین دورہ لندن میں نواز شریف سے ملنے والوں میں صرف شہباز شریف ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کئی اہم لیڈر بھی شامل تھے جبکہ نواز شریف کی صاحبزادی اور ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز شریف اس وقت بھی لندن میں اپنے والد کے ساتھ ہیں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور شریف فیملی کے کئی دوسرے ارکان بھی لندن میں ہی موجود ہیں۔ آخر لندن اور پاکستانی سیاست کا کیا رشتہ ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی لندن بیٹھکوں کی تاریخ بتلارہی ہے کہ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگا یا حکومت تبدیل ہوتی تھی، تو وہ مخالفین پر جبر شروع کر دیتی تھی اور اس کی وجہ سے بہت سارے سیاسی لوگ لندن سدھارے۔ 1958ء میں اسکندر مرزا کو جلا وطن کیا گیا، تو انہوں نے لندن میں سکونت اختیار کی اس کے بعد پاکستان کے دیگر سیاسی کارکنان مختلف بہانوں کوتراشتے ہوئے سوئے لندن چلے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مزدور لیڈر مختار رانا لند ن گئے اور جب بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو پیپلز پارٹی کے قائدین نے لندن سدھارے اور وہاں جاکر سیاسی پناہ لی۔ جب بھٹو کے دور میں عراقی سفارت خانے سے کچھ ہتھیار ملے، تو اس کو بھی اسی سازش سے جوڑ دیا گیا۔سابقہ پاکستانی وزیر اعظم اور پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو بھی لندن میں سیاسی پناہ لینے والی پاکستانی سیاستدانوں میں شامل تھیں۔پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاض خان، جو اب لندن میں مقیم ہیں،نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو بھی یہاں پر رہے۔ مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پھر یہاں سے چلے گئے۔ اس کے علاوہ غلام مصطفی کھر، پنڈی سے پیپلز پارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی جاوید حکیم قریشی، لاہور سے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سردار مظہر علی خان اور پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن نیئر حسن ڈار بھی لندن میں مقیم رہے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر صحت امیر حیدر کاظمی،جام صادق علی، رانا شمیم احمد خان، جو پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر تھے، وہ بھی لندن میں مقیم رہے۔