میں نے سیل فون تو اٹھا لیا لیکن میری انگلیاں بے جان سی ہوچکی تھیں مجھ میں سکت نہ تھی کہ میں سیل فون کے آٹھ دس بٹن دبا کر اس پاکستان سے وہاں کال کرتا جو کبھی ہمارا نصف تھا جو کبھی مشرقی پاکستان تھا اور ہمت کر بھی لیتا تو غلیظ گندے مہاجر کیمپ کی جھگی میں وطن واپسی کی امید پر اڑتالیس برسوں سے زندہ کسی ’’اٹکے بوڑا پاکستانی‘‘ سے کیسے بات کرتااور کیا بات کرتا ؟ وہ یہ نہ کہتے کہ ہمارے زخموں پر زخم چھڑکنے کے لئے کیوں رابطہ کرتے ہو؟ پوری قوم ہمیں بھلا چکی ہے پاکستان ہمیں ’’عاق‘‘ کرچکا ہے بس اک آس ہے اک خوش فہمی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑتی جاتی ہے اورتمہاری یہ کال وینٹی لیٹر پر پڑی اس آس کے وجود میں لمحہ بھر کے لئے زندگی کی رمق دوڑا جاتی ہے۔ عبدالجبار خاں بنگلہ دیش میں محصور تین سے چار لاکھ پاکستانیوں کے نمائندے ہیں ،یہ وہ بہاری پاکستانی ہیں جن کے والدین نے قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی کال پر ہندوستان سے مشرقی پاکستان ہجرت کی ان مہاجرین کی بڑی تعداد بہار سے تھی یہ اپنا گھر بار دولت کاروبار،ملازمت ،روزی روزگار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مشرقی پاکستان پہنچے تھے یہاں انہوں نے پاک سرزمین میں نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا ان مہاجرین نے مشرقی پاکستان میں حکومتی نظم و نسق سنبھالا،ریل کا پہیہ چلنے میں مدد دی اوروہاں پٹ سن اور کاغذ کے کارخانے لگائے یہ غیر بنگالی پکے نظریاتی پاکستانی تھے ساٹھ کی دہائی کے وسط میں جب مجیب الرحمان نے بنگلہ قومیت کی تحریک چلائی تو یہ اس سے الگ تھلگ رہے انہوں نے اپنی شناخت پاکستانی ہی کی حیثیت سے بنائے رکھی ،ہماری غلط پالیسیاں ، نالائقیاں اوراقتدار کی بھوک میں دیگ میں ہاتھ ڈالے رکھنے کی ہوس نے مجیب الرحمان کی ’’جوئے بنگلہ تحریک‘‘ ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک پھیلا دی ،بنگالیوں کی اکثریت لسانیت کے سیلاب میں بہنے لگی ہم ہوش کے ناخن لینے کے بجائے مغربی پاکستان میں کرسی کرسی کھیلتے رہے اس میں بالکل بھی دو رائے نہیں کہ ہماری افسر شاہی نے بنگالیوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جس کا سامنا آج بنگلہ دیش میں محب وطن محصورین پاکستان کر رہے ہیں،ہم ان کی رنگت اور قد پر ہنستے تھے انکے ساتھ مچھلی چاول کھانے سے کتراتے تھے کہ کراہت آتی ہے،انکی تہبند پر لطیفے گھڑتے تھے یہ اس وقت کی ’’اشرافیہ ‘‘ کے نزدیک کمی کمین جیسے تھے ،قدر ت اللہ شہاب اس وقت کے بیوروکریٹ رہے ہیں اپنی یاداشتیں شہاب نامہ میں محفوظ کرکے دراصل ہمیں اک آئینہ دے گئے ہیں جس میں ہم اپنا مکروہ چہرہ دیکھ سکتے ہیں،قدرت اللہ مرحوم ایک جگہ بیوروکریسی کے کسی اجلاس کی روداد قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان ابھی قدم جما جما کر چلنے کی کوشش کرر ہا تھا مالی حالات بہت اچھے نہ تھے وسائل ناکافی تھے اس اجلاس میں کہیں سے انگریزی بیت الخلاء کے لئے آنے والے سامان کی تقسیم ہورہی تھی تعداد محدود تھی جو مختلف محکموںمیں تقسیم کردی گئی اس تقسیم میں مشرقی پاکستان کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا میں نے کہا کہ علامتی طور پر ہی سہی کچھ تو مشرقی پاکستان بھجوا دیں جس پر قہقہ مار کر کہا گیا’’کیلے کی چھال میں ہگنے موتنے والے بنگالی ان کا کیا کریں گے‘‘۔ بیوروکریسی کے اس رویئے اور سیاستدانوں کی اقتدارکے لئے دوڑوں نے مشرقی پاکستان میں وہ محرومیاں پھیلائیں کہ جن پر مجیب الرحمان کی تحریک نے باآسانی پر پھیلا لئے پھر سرحد پار سے بھارت نے سازشیں شروع کردیں ،مجیب الرحمان کے نئی دہلی سے رابطے استوار ہو گئے مجیب الرحمان کی تحریک آگے بڑھتی رہی بلکہ ہماری نالائقیاں حماقتیں خودغرضی اس تحریک کو آگے بڑھاتی رہی اگلے مرحلے میں جن بنگالیوں کو ہم چار فٹا کہہ کر ایک طرف کر دیا کرتے تھے انہیں بھارت نے مکتی باہنی کا گوریلا بنا دیا ، ایسی عسکری تربیت دی گئی وہ باآسانی رائفلز اور اسٹین گن چلالیتے ہدف پر دستی بم پھینک لیتے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندرا مودی نے 2015ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک گھنٹہ سے زائد طویل خطاب میں اعتراف کیا کہ بھارت بنگلہ دیش کے قیام کا خواہشمند تھا،ہماری فوج مکتی باہنی کے شانہ بشانہ لڑی اس تحریک میں ہمارا خون بھی شامل ہے اور میں نے بھی مکتی باہنی کے حمائتی رضاکار رہا،سقوط ڈھاکہ کے بعد لوک سبھا کے پہلے اجلاس میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کامیابی کے غرور سے سرشار لہجے میں کہا تھا کہ آج ہم نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ایک طرف بھارت پوری منصوبہ بندی سے پاکستان کا مشرقی باز و کاٹ رہا تھا اور دوسری جانب ہم’’ مست ‘‘ماحول میں جی رہے تھے ،بزرگ صحافی اور کالم نگار الطاف حسین قریشی نے حالیہ دنوں میں اپنی اک تحریر میں لکھا ہے کہ تیرہ دسمبر1971ء کو ایسٹ پاکستان ہاؤس میں مقیم نامزد وزیر اعظم نورالامین نے نہائت پریشان کن لہجے میں بتایا کہ مشرقی پاکستان سے تشویش ناک خبریں آرہی ہیںبھارتی گوریلے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے میمن سنگھ کے عقب میں اتر چکے ہیںاور ڈھاکہ کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں،وہ یہ خطرناک صورتحال فوری طور پر یحیٰی خان کے علم میں لانا چاہتے تھے ملٹری سیکرٹری سے ملاقات کا وقت لے کر ہم جنرل یحیٰی خان کے پاس ایوان صدر پہنچے اور انہیں یہ پریشان کن اطلاع دی تو انہوں نے سرشاری کے لہجے میں کہا گھبرانے کی کوئی بات نہیں وہ بھارتی نہیں چینی گوریلے ہیں جو ہماری مدد کو پہنچے ہیں۔ جو ہونا تھا وہ ہوگیا ہماری خرمستیوں اور عیار پڑوسی کی محنت رنگ لائی مشرقی پاکستان کٹ کر بنگلہ دیش بن گیا وہاں رہنے والے پاکستانیوں کوایک بار پھر ہجرت کا فیصلہ کرنا تھا بڑی تعداد میں پاکستانی کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکلے جو رہ گئے انہیں کاٹ کاٹ کر پھینک دیا گیا،گھر لوٹ لئے گئے جلا ڈالے گئے خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں اور وہاں وہی ہوا جو ایک بدمست فاتح سے توقع تھی اس قتل عام سے بچ رہنے والے خوش قسمت بڑے بدقسمت رہے کہ وہ پاکستان کے لئے پروا ز نہ کرسکے انہیں ریڈ کراس نے سڑسٹھ مہاجر کیمپوں میں دھکیل دیا کہ جو گیا سو گیا جان تو بچی اسے ہی غنیمت جانواور پاکستان جانے کا انتظار کرو،تب سے یہ تین سے ساڑھے تین لاکھ پاکستانی پی آئی اے کی اس پرواز کے انتظار میں ہیں جو انہیں ان کے وطن لے کر پہنچے قابل شرم افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم اڑتالیس برسوں میں ایسی کوئی پرواز نہ بھیج سکے،ہم نے افغان جنگ سے متاثر تیس لاکھ سے افغانیوں کو بسا لیالیکن تین لاکھ پاکستانیوں کے لئے ہمارے پاس زمین تنگ پڑ گئی ،وہ محبان وطن اڑتالیس برسوں سے ان کیمپوں کی کھولیوں میں وطن سے وفا کی سزا کاٹ رہے ہیں ان کیمپوںمیںانکی چا ر نسلیں جوان ہوچکی ہیں۔