اٹھارہ اگست 2018 کو عمران خان نے پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم کے طور پر حلف لیا تھا۔ اس دن سے آجتک ڈھائی سال میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب مخالف جماعتوںنے انکی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پہلے دن سے انکے ہر اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا پر صبح سے شام تک اس پر سیاسی بیان بازی‘ الزام تراشی‘ بدزبانی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ گزشتہ سال حزب اختلاف نے حکومت کیخلاف ملک بھر میں جلسے جلوس بھی منعقد کیے لیکن عوام رضا کارانہ طور پر سڑکوں پر نہیں نکلے۔ کارکنوں کو دُور دراز علاقوں سے بسوں‘ ویگنوں میں لاد کر لایا گیا ۔ پھر بھی جلسوں کا کوئی سیاسی اثر نہیں ہوا بلکہ اپوزیشن کی ہوا اُکھڑ گئی کہ یہ عوام کو متحرک نہیں کرسکی۔ یہ تاثر قائم ہوا کہ لوگ ابھی حکومت سے اتنے تنگ نہیں آئے کہ ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کریں۔معاشی مندی اور مہنگائی کے باعث عوام کو مشکلات درپیش ہیں۔ وہ ان مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن حزب ِاختلاف کو اقتدار میں لانے کی خاطرسڑکوں پر احتجاج نہیں کرنا چاہتے۔ پیپلز پارٹی نے اِن ہاؤس تبدیلی کا شوشہ چھوڑا ۔ وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیکر اسکے غبارے سے بھی ہَوا نکال دی۔ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ(ن) کی یہ خواہش بھی ناکام ہوگئی کہ سینٹ کے الیکشن نہ ہوسکیں اور اس سے پہلے وفاقی حکومت کو کسی طرح گھر بھیج دیا جائے۔ سینٹ الیکشن ہوگئے جسکے بعد تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارلیمان کے ایوان بالا میں سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے گو اسکے پاس سادہ اکثریت نہیں ہے۔ تاہم اب کم سے کم تین سال تک سینٹ میں پی ٹی آئی کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوگا۔وفاق میں کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت بنائے اُسے قانون سازی کیلیے پی ٹی آئی کے سنیٹرز کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ بالفرض مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی حکومت بنا لیں تب بھی وہ تحریک انصاف کی منشا کے بغیر آئین میں کوئی ترمیم نہیںلاسکیںگی۔ فی الحال سینٹ میں حکومتی اتحاد کو اکثریت حاصل ہے جسکا مظاہرہ ڈپٹی چئیرمین سینٹ کے الیکشن کے وقت دیکھنے میں آیا۔ اسکے اُمیدوارمرزا محمد آفریدی واضح اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ یہ بہترین وقت ہے کہ وفاقی حکومت سینٹ میںاکثریت نہ ہونے کی بنا پر عرصہ ٔدراز سے رُکی ہوئی قانون سازی کروائے ۔ اگر حکومت عملی دانش سے کام لے تو وہ چھوٹے چھوٹے سیاسی گروہ جو اپوزیشن سے جا ملے تھے انہیں بھی اپنے ساتھ ملا سکتی ہے تاکہ اسکی اکثریت اور زیادہ مستحکم ہوجائے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں میں عملی سیاست کی سُوجھ بُوجھ ذرا کم ہے۔جہانگیر ترین میںپریکٹیکل پالیٹکس کو نبھانے کی خوبی تھی لیکن انہیں سرکاری افسروں کی لگائی بجھائی پر کھڈے لائن لگادیا گیا۔یا تو عمران خان اس پارلیمانی نظام کو خیرباد کہہ دیں اور ایک انقلابی سیاست شروع کردیں۔ لیکن اگر انہیںموجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کھیلنا ہے تو اسکے تقاضوں کو پُورا کریں۔ وہ فٹ بال کے میدان میں کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔ پارلیمانی نظام میںوزیراعظم کی اصل طاقت ارکان اسمبلی ہوتے ہیں۔ انکو نظر انداز کرکے وہ افسر شاہی پر مکمل انحصار کریں گے تو حکومت کیلیے بحران تو پیدا ہونگے۔ ایک طرف تو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط کے باعث موجودہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے پڑے جن سے مہنگائی بڑھ گئی اور ترقیاتی کاموں کی رفتارسست ہوگئی۔ دوسری طرف‘ وزیراعظم نے اپنے پرنسپل سیکرٹری سمیت کچھ سرکاری افسروں اور غیر مننتخب ٹیکنو کریٹس پر ضرورت سے زیادہ تکیہ کرلیا ۔ ارکان ِاسمبلی اور پارٹی کے سرگرم کارکنوں سے مشاورت کرنا چھوڑ دیا۔ اسی لیے پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود یوسف رضا گیلانی کو اپنا سنیٹر بنوانے میں کامیاب ہوگئی۔ ٹھیک ہے کہ لین دین بھی ہُوا لیکن ان ارکانِ قومی اسمبلی کو حکومت سے شکوے شکایات نہ ہوتیں تو وہ لین دین کے چکر میں نہ پڑتے۔ اب اپوزیشن حکومت کے خلاف اپنا آخری پتّہ کھیلنے جارہی ہے ‘ نام نہاد لانگ مارچ۔ لانگ مارچ کی اصطلاح چین کے انقلابی کمیونسٹ لیڈر ماؤزے تنگ سے مستعار لی گئی ہے لیکن ہمارے ملک میں سیاسی رہنما جس قسم کا لُولا لنگڑاجلوس نکال کر اسلام آباد پہنچتے ہیں وہ اس اصطلاح کے نام پر ایک دھبہ ہے۔خیر‘ لانگ مارچ میں سارے ملک سے حکومت مخالف جماعتیں اپنے سیاسی کارکنوں اور کرائے کے مزدوروں کو گاڑیوں میں بھر کر اسلام آباد لے جائیں گی۔ کورونا وبا کی خطرناک لہر پھیلی ہوئی ہے۔ ملک کے اکثر علاقوںمیں لاک ڈاؤن لگ چکا ہے لیکن حزبِ اختلاف کے قائد مولانا فضل الرحمن بضد ہیں کہ وہ یہ لانگ مارچ ضرور کریں گے۔ سب سے زیادہ امیدیں فضل الرحمن کی جماعت سے وابستہ ہیں کہ وہ مدرسے کے طالبعلموں کو بڑی تعداد میں ساتھ لائیں گے۔ تیس چالیس ہزار لوگ بھی جمع ہوجائیںتو اچھا خاصا ماحول بن جاتا ہے ۔ یہ مجمع دس بارہ روز ایک جگہ بیٹھا رہے گا۔ پُرجوش تقریریں ہونگی۔ حکومت پر دُشنام طرازی کی حد تک ملامت کی جائے گی۔ جواب میںحکومتی وزرا ء ٹیلی ویژن پر آکر جوابی تقریریں کریں گے۔ تماش بینی کا اچھا خاصا مواد میسر ہوگا۔اگر حکومت ڈھنگ سے‘ ہوشیاری سے اِس اجتماع کو ہینڈل کرلے گی ‘ کوئی تشدد نہیں ہوگا‘ تو یہ سیاسی میلہ خیر خیریت سے اختتام پذیر ہوجائے گا ۔ رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوجائے گا۔ حکومت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔عمران خان نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف چار ماہ سے زیادہ دھرنا دیا تھا تو کون سی حکومت گِر گئی تھی؟ نواز شریف تو سپریم کورٹ کے حکم سے ہی وزارت عظمی سے محروم ہوئے تھے۔اپوزیشن کی ان سرگرمیوں کا مقصد اپنے حامیوں کا حوصلہ بلند رکھنا‘ حکومت کی عملداری کمزور کرنا اورحکومت کو ایسے معاملات میں اُلجھائے رکھنا ہے کہ وہ اپنی دیگر پالیسیوں پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔بہتر ہوگا کہ عمران خان یہ معاملات اپنے تجربہ کار وزراء کی ٹیم کے سپرد کرکے اپنی توجہ قومی معاملات اور عوامی فلاح کے منصوبوں پر مرکوز رکھیں۔ اپوزیشن کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ لوگ تیس پینتیس سال سے وقفے وقفے سے حکومت کرتے آئے ہیں۔عوام انہیں کئی بار آزما چکے ہیں۔ یہ نئے لوگ نہیں ہیں جن سے توقعات ‘ اُمیدیں وابستہ کی جائیں۔ انکا ریکارڈ عوام کے سامنے ہے۔ انیس سو اٹھاسی سے سنہ دو ہزار تیرہ تک پیپلزپارٹی کی تین مختلف مواقع پر دس سال وفاقی حکومت رہی۔انیس سو نوّے سے سنہ دو ہزار اٹھارہ تک مسلم لیگ(ن) کی بھی تین مواقع پر دس سال فیڈرل حکومت رہی۔ ان دونوں پارٹیوں نے عوام کی فلاح اور نظام کو بدلنے کیلیے کوئی قابل ِذکر کام نہیںکیا ۔ان دونوں کے لیڈروں پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی ہیں۔ بیشک ‘عدالتوں سے انہیں سزا نہ ملے لیکن انکی دولت اقتدارکے دوران میں جس طرح بے تحاشا بڑھی عوام اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ عوام ان پارٹیوں کی خاطر حکومت یا ریاست سے ٹکرانے کے لیے آمادہ نہیں۔ کوئی نیا متبادل لیڈر یا پارٹی میدان میں نہیں ہے۔ ان حالات میں ایجی ٹیشن کی سیاست تو کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔البتہ سیاسی تفریح کا ماحول رہے گا۔پی ایس ایل نہ سہی‘ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ سہی!