جو لوگ اپنے فیصلے عقل سے نہیں اپنے معاملات کے تحت جلد بازی میں کرتے ہیں، ان کا پچھتاوا دیکھنا ہو تو وزیر قانون اعظم تارڑ کو دیکھ لیں۔جو سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی میں اپنے کردار پر قوم سے معافی مانگ رہے ہیں۔عمران خاں کی بے بسی کا جائزہ لیں، جو اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے پر اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے صاحب اختیار و اقتدار کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے جس کی قیمت پوری قوم بھگت رہی ہے۔غلط اقتصادی فیصلوں سے ہماری ساری صنعتیں زمین بوس ہو چکی ہیں خزانہ خالی ہو چکا ہے، یہاں تک کہ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے پیسے نہیں رہے۔ ملک کے 90فیصد ترقیاتی کام بند ہو چکے ہیں۔واپڈا سے ٹائم بم کی ٹک ٹک نشر ہو رہی ہے۔ٹی وی کا خسارہ بڑھ رہا ہے، ریلوے سفید ہاتھی کی طرح پوری معیشت کو روند رہا ہے۔گندم کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔ کپاس کی فصل توقع سے کم رہی ہے، اسٹاک ایکسچینج بیٹھ چکی ہے۔ریونیو کا گراف تیزی سے گر رہا ہے، حکومت ٹیکس کے اہداف پورے نہیں کر پا رہی ،گزشتہ پانچ سال سے معیشت کو درست کرنے کے لئے نت نئے تجربات کئے جا رہے ہیں، نئے نئے ارسطو اور بقراط اپنے اپنے تجربات سے قوم کا کچومر نکال چکے ہیں، ہم یہ تجربات بہت عرصے سے کرتے آ رہے ہیں، ہم جب حکومت کے فعال پرزوں سے گفتگو کرتے ہیں تو انہیں مطمئن اور مسرور پاتے ہیں انہیں فائلیں لہراتے بازو تھپتھپاتے اعداد و شمار کے پہاڑ کھڑے کرتے اور دعوئوں کے انبار لگاتے دیکھتے ہیں، تو ان سے عرض کرتے ہیں یارو کچھ خیال کرو، عام آدمی کی حالت بڑی پتی ہے، اتنی مہنگی سبزیاں دال ‘ چینی‘ تیل دودھ دہی کون خریدے گا۔بجلی کے ہوشربا بل کون دیگا، گیس کے بلوں سے جیب کون کٹوائے گا، بچوں کی فیسیں کون دے گا ،بیمار اپنا علاج کیسے کرائے گا؟ مکان کا کرایہ کہاں سے دے گا؟ تو وہ ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہیں، فائل کھولتے ہیں، کاغذ کے ایک پرزے پر انگلی پھیر کر کہتے ہیں، انشاء اللہ اس سال ٹیکسوں کی وصولیابی میں 40سے 50فیصد اضافہ ہو گا۔20سے 50بلین کی ایکسپورٹ بڑھ جائیں گی، ہم 25سے 50بلین کے اجناس بیچنے کے قابل ہو جائیں گے، ہمیں آئی ایم ایف نے 4سے 5ارب ڈالر مل جائیں گے اور ہم دفاعی بجٹ ہی خاطر خواہ کمی کر دیں گے۔بس اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ جب ہم ان صاحبان اختیار سے پوچھتے ہیں کچھ امن و امان پر توجہ دے دو۔مسجدوں میں فرقہ واریت کو کم کرو۔ ٹرینوں اور سڑکوں کا حفاظتی نظام بہتر بنائو، اسٹریٹ کریمنلز کو پکڑو۔بڑھتے ہوئے ناجائز اسلحے کی مقدار پر قابو پاو بموں کا راستہ روکو‘ کلاشنکوفوں کو پکڑو۔ دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑو، کچھ تو اس مظلوم قوم کا خیال کرو، تو یہ صاحبان پھر ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہیں فائل کھولتے ہیں، کاغذوں کے دستے نکالتے ہیں اور پھر پورے یقین سے کہتے ہیں، سمجھ لیجیے مسئلہ ختم ہو گیا نئی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، دہشت گردی اور لاقانونیت کے جن کو بوتل میں بند کرنے کا پورا انتظام کر لیا گیا ہے، پولیس کے لئے نیا وضع کردہ نظام جلد نافذ کیا جا رہا ہے یہ نظام ساری صورتحال درست کر دے گا اور عدالتیں مجرموں کو عبرت کا نشان بنا دیں گی۔جب ان صاحبان اقتدار سے پوچھا جاتا ہے کہ ہمارے بیرونی دشمن بھی ہماری تاک میں ہیں۔دنیا میں طاقتور بلاک بن رہے ہیں امریکہ اپنے مہرے بدل رہا ہے چین اور روس نئی حکمت عملی اختیار کر کے اقتصادی طور پر امریکہ کے مدمقابل کھڑا ہونے کی تیاری کر رہے ہیں افغانستان کی آگ مسلسل دھواں دے رہی ہے سینکڑوں جاسوس اور دہشت گرد ہماری سرزمین میں گھس آئے ہیں دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے وہ پھر اشارے سے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں دوسری فائل نکال کر دکھاتے ہیں مسکراتے ہیں اور دعوے سے کہتے ہیں نہیں جنگ نہیں ہو گی بھارت کبھی رسک نہیں لے گا ہم افغانستان کی ضرورت ہیں امریکہ روس چین کوئی بھی ہماری مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہمیں آنکھیں نہیں دکھا سکتا ،بڑے ممالک کے سرکردہ لوگ یہی کہہ رہے ہیں ہم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی کچھ ہم بھی کیل کانٹے سے لیس ہیں۔ہم نیو کلیئر پاور ہیں ہمارے پاس میزائلوں کی ایک لمبی رینج ہے بس آپ فکر نہ کرو کچھ ہونے والا۔ جب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اس ملک میں صرف حکومت چلانے کے لئے سینکڑوں ارب خرچ ہوتے ہیں مہربانی فرما کر حکومتی اخراجات کم کرو۔ایوان صدر وزیر اعظم ہائوس پرائم منسٹر سیکرٹریٹ گورنر ہائوسزوزیر اعلیٰ ہائوسز ایم این اے اور ایم پی اے ہوسٹلز کی نج کاری کر دو وزیروں مشیروں اور چیئرمینوں کی شاہ خرچیوں کو کم کرو۔سرکاری گاڑیوں کی تعداد گھٹائو۔پٹرول کی حد محدود کرو نوکروں چاکروں کی چھٹی کرو سادگی اختیار کرو وہ ہمیں ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہیں، فائل نکالتے ہیں انگلی پھیرتے ہیں اور اعداد و شمار کی گردان شروع کر دیتے ہیں صدر نے اتنے عرصے میں درجنوں ملازمین فارغ کر دیے ہیں۔پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے سینکڑوں ملازمین کو دوسرے محکموں میں کھپایا گیا ہے ان ان خرچوں کو پابندی لگائی گئی ہے۔یہاں یہاں ضرب لگانے کا منصوبہ ہے ادھر اُدھر سے اخراجات سمیٹے جائیں گے۔ ہم ان سے کہتے ہیں آقائوں !!ان غلاموں کے لئے اس نظام کی چند کھڑکیاں ہی کھول دو‘ ہوا کے چند جھونکے تو اندر آنے دو۔انصاف سستا کرو ظلم روک دو تعلیم عام کرو قانون کو نرم اور سیدھا بنا دو عدالتوں کو دکانیں بننے سے بچا لو تھانوں کو عقوبت خانوں سے دور کر دو۔ پولیس کانسٹیبل کو قصاب نہ بننے دو۔ناپ تول کا نظام ہی ٹھیک کر دو پرائز کنٹرول کا نظام ہی صحیح خطوط پر استوار کر دو۔کمی جاگیردار سے بچا لو اور ملک کو ایسے انویسٹرز کی چنگل سے نجات دلا دو جو انویسٹمنٹ کی آڑ میں عام لوگوں کی جیبیں کاٹ رہے ہیں۔ ان قبضہ گروپوں کو لگام ڈال دو یہ پھر مسکرا کر جواب دیتے ہیں فکر نہ کرو نئے آئینی پیکیج سے لوگوں کو ان کے دروازے پر انصاف ملے گا۔حکومت چند سالوں میں پورے ملک میں تعلیمی انقلاب لے آئے گی لوگوں کو تھانیداروں کا احتساب کرنے کا موقع ملے گا۔عدالتوں میں ہر شخص کو پورا پورا حق دیا جائے گا۔ناپ تول میں بے ایمانی کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے گی خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کرنے والے اب قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ یقین فرمائیے جب بھی حکومت کے ان پرزوں سے بات کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے لوگ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے بھوک کو بہلاوا دے رہے ہیں اور اندر سے کھڑک رہے ہیں ڈوئیاں چل رہی ہیں تڑکے لگ رہے ہیں۔پتیلے پتیلیاں چل رہی ہیں، قورمے مرغ پلائو اور حلیم کی خوشبو اڑ رہی ہے دہی بڑے سیخ کباب اور قیمے کی مہک آ رہی ہے روٹیاں پلٹی جا رہی ہیں نان گرم کئے جا رہے ہیں سلاد بنائی جا رہی ہے لیکن باہر کچھ نہیں آ رہا میز پر ایک خالی جگ اور درجن بھر گلاس دھرے ہیں کچھ مہمان اوندھے ہو چکے ہیں چند اٹھ کر جا چکے ہیں اور باقی پیٹ پر ہاتھ باندھے امید پر بیٹھے ہیں اور میزبان امید دلا رہا ہے کہ کھانا بس آیا ہی چاہتا ہے۔یہ ہے ہمارا کردار اور تاریخ۔