ریڈیو پاکستان بحران کا شکارہے ۔ اسے بحران سے نکالنے کے لیے عمائدین ریاست سر جوڑ کر بیٹھے لیکن ڈور کا کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔ پھر سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک ایسا حل بتایا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اسے فورا قبول فرما لیا ۔کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں جہاں پی ٹی وی کے لیے ہر بل سے 35 روپے ہتھیا لیے جاتے ہیں، ایسے ہی بجلی کے ہر بل میں ریڈیو پاکستان کے لیے بھی 15 روپے کا ٹیکس شامل کیا جائے۔ یعنی بجلی کے بل میں آئندہ پی ٹی وی کے نام پر لیا جانے والا ٹیکس 35 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کر دیا جائے۔اس سے بیٹھے بٹھائے عوام سے چار ارب روپے ہتھیا لیے جائیں گے اور ان سے ریڈیو پاکستان اور وغیرہ وغیرہ کے اللے تللے پورے کر لیے جائیں گے۔ ریاستی اداروں کو مالیاتی بحران سے نکالنے کے لیے اگر ہمارے پارلیمانی رہنمائوں کی فکری صلاحیتوں کا یہ عالم ہے تو یہ ایک تشویش ناک چیز ہے۔کسی ادارے کو درپیش کسی معاشی بحران کے حل کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس شعبے کے ماہرین مل بیٹھ کر سوچیںکہ ایسا کیوں ہوا اور اس سے نجات کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔یہ ماہرین وہ ہوتے ہیں جواس شعبے کے انتظامی اور معاشی پہلوئوں پر دسترس رکھتے ہوں۔ جناب سینیٹر عرفان صدیقی کے پروفائل میں ایسی کوئی مہارت شامل نہیں ہے۔وہ ایک استاد تھے۔ کالم نگاری شروع کی اور ایک سیاسی جماعت کی قربت میں مناصب حاصل کرتے کرتے سینیٹر بن گئے۔ان کی معروف بنیادی مہارت کا میدان صرف کالم نگاری ہے۔وہ قابل احترام ہیں مگر وہ اس شعبے کے آدمی ہی نہیں ہیں۔ وہ نہ انتظامی امور کے ماہر ہیں نہ معاشی امور کے۔لازم تھا کہ مانڈوی والا صاحب ان کی تجویز قبول کرنے سے پہلے اس کے مضمرات پر غور کرتے اور متبادل کی تلاش کی کوشش بھی کرتے۔ اس تجویز کے ہمراہ جو دلائل ہیں وہ بھی نا معتبر ہیں ۔ کہا گیا کہ دنیا بھر میں ریڈیو کا لائسنس ہوتا ہے۔ درست، ہوتا ہو گا ۔سوال مگر یہ ہے کہ اس کا بجلی کے بل سے کیا تعلق ہے؟ فاضل سینیٹر کو کس نے بتایا ہے کہ ریڈیو بجلی سے چلتا ہے۔ دنیا میں ریڈیو کا لائسنس ہوتا ہے تو آپ بھی ریڈیو کا لائسنس جاری کر دیجیے۔ یہ ممکن نہیں تو ریڈیو کی فروخت پر اس لائسنس فیس کو بطور ٹیکس شامل کر لیجیے۔ کوئی سا بھی طریقہ اختیار کر لیجیے لیکن بجلی کے بلوں میں یہ جگا ٹیکس شامل کرنے کی کوئی ایک اخلاقی یا قانونی دلیل ہے تو بتا دیجیے۔ خبر کے مطابق محترم سینیٹر صاحب کی جانب سے دوسری دلیل یہ دی گئی کہ ہر گاڑی میں ریڈیو استعمال ہوتا ہے۔اس لیے بجلی کے بلوں میں یہ ٹیکس شامل کیا جانا چاہیے۔ سوال پھر وہی ہے۔ کیا گاڑیاں بجلی سے چلتی ہیں؟ اگر تو پی ڈی ایم کے بابرکت عہد مبارکہ میں گاڑیاں پٹرول کی بجائے بجلی پر چل رہی ہیں تو بتا دیجیے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہر اس آدمی کے پاس گاڑی ہے جس کے گھر میں بجلی کا میٹر لگا ہوا ہے؟ جس آدمی کے پاس کوئی گاڑی نہیں اس سے گاڑی کے ریڈیو کے نام پر بجلی کے بل میں ماہانہ ٹیکس کاٹ لینا کہاں کا انصاف ہے؟گاڑی کے ریڈیو کا ٹیکس لینا ہے تو اسے گاڑی کے ٹوکن ٹیکس میں شامل ہونا چاہیے نہ کہ بجلی کے بل میں۔اس سے پھر یہ سوال اٹھے گا کہ کیا گاڑی کے ٹوکن ٹیکس میں گاڑی کے استعمال سے جڑی ہر چیز کا ٹیکس پہلے ہی سے شامل ہے یا نہیں۔ کوئی بھی ادارہ ہو،پاکستان سٹیل مل یا ریڈیو پاکستان ، یہ اپنے نامہ اعمال سے برباد ہوتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں،سیاسی بھرتیاں ہوتی ہیں۔گماشتوں اور کارندوں کونوزا جاتا ہے۔گھوسٹ ملازمین ہوتے ہیں،ندرت خیال یا تنوع نہیں ہوتا،ذمہ داری کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، کام چوری ہوتی ہے،ریاستی وسائل مال غنیمت سمجھ کر کھائے اور ڈکارے جاتے ہیں۔جو بھی وجہ رہی ہو،جب ایک ادارہ بربادی کے قریب پہنچتا ہے تو اس کا بوجھ غریب عوام پر کیوں منتقل کیا جائے؟ ریڈیو پاکستان جیسے اداروں کو چاہیے وہ اپنے انتظامی معاملات کی اصلاح کریں اور غیر ضروری معاشی بوجھ ختم کریں تا کہ انہیں چلانے کے لیے عوام کی رگوں سے لہو نہ نچوڑا جائے۔ اگر پی ٹی وی سے ریڈیوپاکستان تک یہ ادارے ایسی پالیسی لانے کے قابل نہیں کہ اپنا بوجھ اٹھا سکیں تو ان کی افادیت کیا ہے اور عوام ان سفید ہاتھیوں کو کیوں پالیں؟ کیا کبھی آپ نے ریڈیو پاکستان کی عمارت کو دیکھا ہے۔ اتنی بڑی عمارت اور اتنے زیادہ سٹاف کے ساتھ براعظم ایشیاء کے تمام ریڈیوز چلائے جا سکتے ہیں۔ یہی حال پی ٹی وی کا ہے۔ یہ دفاتر نہیں ، یہ پورا شہر آباد ہے۔ اس شہر میں اگر آدھا شہر کرائے پر دے دیا جائے تو ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے تمام سنٹرز کے اخراجات نکل سکتے ہیں۔پی ٹی وی کا مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ اگر ریونیو نہیں تلاش کر سکتا تو اسے فارغ کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ ریڈیو پاکستان کی خدمات سے انکار نہیںلیکن وقت بدل چکا ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ اب اگر یہ ادارہ خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کر سکتا تو اس بے مقصد سرگرمی کے لیے عوام کی کمر پر بجلی کے بلوں میں یہ بوجھ کیوں لادا جائے؟یہ معاملہ اگر سینیٹ کی کسی قائمہ کمیٹی کے سامنے آ ہی گیا تھا تو ضروری تھا کہ وہ اس پر وسیع تناظر میں غور کرتی کہ یہ بحران کیوں پیدا ہوا، اس زمانے کے بدلتے تقاضوں میں ریڈیو پاکستان کی اہمیت کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سٹیل مل سے لے کر ریڈیو پاکستان تک اور پی ٹی وی سے لے کر پی آئی اے تک ہر سرکاری محکمہ بحران کا شکار کیوں ہے؟ حکومتوں نے ان اداروں کو چراگاہ بنا کر رکھا ہے اور اپنے اپنے حصے کے کارندوں اور مجاوروں کو یہاں بھاری معاوضوں پر رکھا جاتا ہے۔ جب اس بندر بانٹ سے اداروں کا ستیا ناس ہو جاتا ہے تو پھولن دیوی ڈاکٹرین آف اکانومی کے تحت اپنی نا اہلی،بد دیانتی اور بد انتظامی کا بوجھ عوام پر منتقل کر دیا جاتا ہے کہ لو جی عوام پر بجلی کے بلوں میں مزید پندرہ رووپے کا ٹیکس شامل کر دیجیے۔ مسئلہ حل ہو گیا۔ آج اس بحران نے ریڈیو پاکستان کا گھر دیکھا ہے۔ بہت جلد پی ٹی وی بھی اسی انجام سے دوچار ہونے والا ہے۔پی ٹی وی میں بد انتظامی عروج پر ہے۔ٹی وی کے اپنے ملازمین کے ہوتے ہوئے سیاسی طفیلیے گماشتے اور کارندے باہر سے لا کر کبھی ڈائریکٹر نیوز بنا دیے جاتے ہیں ، کبھی ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز بنا دیے جاتے ہیں ، کبھی ایم ڈی لگا دیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹی وی کے اپنے ملازمین کم ہیں کہ سیاسی مجاور انتظامی امور پر لا بٹھائے جاتے ہیں۔ یہ قومی ادارہ ہے یا آپ کا مال غنیمت ہے۔ تاہم اگر مقصد مجاوروں اور طفیلیوں کو نوازنا ہے تو پھر پندرہ روپے ٹیکس بہت کم ہے، ازارہ کرم اسے پندرہ سو کر دیا جائے، عین نوازش ہو گی۔