چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے فیصلہ تونے کیا ہے سو اسے مانتے ہیں ورنہ حقدار تو ہم بھی کسی انعام کے تھے اور ایک سیاس گزاری کہ’’ دور ہیں حرص و ہوس سے تو کرم ہے اس کا دانہ رکھتے جو نظر میں تو کسی دام کے تھے‘‘ اور آخری بات یہ کہ سعد پڑھنا پڑی ہم کو یہ کتاب ہستی۔ باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یادیں بکھری پڑی ہیں سوچا کہ آپ کو شریک کروں آپ کی صبح گل رنگ ہو جائے نوید قتیل نے یاد دلایا کہ بابا جی یعنی قتیل شفائی کی برسی ہے اس کے اردگرد احمد ندیم قاسمی کی برسی، مجھے وہ منظر یاد آ گیا کہ احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا دونوں قتیل شفائی کے جنازے پر اکٹھے تھے۔ان بزگان سے وابستہ کئی مناظر آنکھوں میں گھوم گئے کہ قدم قدم پرہم ان کے پاس رہے اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہوئے کئی دلچسپ اور دلگداز لمحات بھی آئے۔ ایک دن احمد ندیم قاسمی کے ساتھ بیٹھے ہم چائے پی رہے تھے قاسمی صاحب کا گردے کا آپریشن ہوا تھا وہ بڑے ہی خوشگوار موڈ میں تھے کہنے لگے ڈاکٹروں نے ایک گردہ نکال دیا ہے اور اب اردو محاورہ مجھ پر فٹ آتا ہے کہ یہ بندہ بڑے دل گردے والا ہے کیسی زعفرانی مجلسیں ہوا کرتی تھیں یہ مجلس اردو ادب کی بات ہے جہاں اب ہمارے دوست عباس تابش جلوہ افروز ہیں ظاہر ہے وہ اس منصب کے مستحق بھی ہیں۔ وہ دور تھا کہ قاسمی صاحب کی منہ بولی بیٹی منصورہ احمد بھی وہاں ہوتی ۔بڑے برگزیدہ ادیب بھی یہاں حاضری دیتے۔فراز صاحب بھی آتے ، ان سے ملاقات ہو جاتی رونق لگ جاتی ادبی گفتگو بھی ہوتی مجھے یاد ہے کہ احمد فراز صاحب نے لفظ مصاف کی بات کی تھی کہ مصاف کا معنی دو بدویعنی آمنے سامنے ہوتا ہے۔فراز صاحب بہت خوش ہوئے اور مطمئن بھری نظروں سے دیکھا۔قاسمی کی شاعری بھی تو یاد آنے لگی: انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی میں شعر لکھتا جائوں کالم تمام ہو جائے اب قتیل شفائی کا تذکرہ بھی تو واجب ہے وہ بھی اسی محلے میں تھے کہ جس گلی کا نام حکومت نے قتیل شفائی سٹریٹ رکھ دیا وہ احمد ندیم قاسمی کے شاگرد ہی نہیں معتقد بھی تھے۔ سمن آباد میں رہتے تھے ہم نے بے شمار محفلوں میں قتیل شفائی کے ہاں شرکت کی وہ دوستوں کی خدمت کرکے بہت خوش ہوتے پرتکلف اہتمام ہوتا۔ ایک روز قتیل شفائی نے بلایا تو میں ان کے ہاں پہنچا وہ بھارت سے واپس آئے تھے اپنی کارگزاری سنانے لگے کہ اس زمانے میں انہیں ایک گانے کے دس ہزار ملتے تھے باتوں باتوں میں بتانے لگے کہ اب کے ان کے ساتھ یہاں سے کچھ اور شاعر بھی تھے وہ بتانے لگے ہم جہاں بھی جاتے تو میری وہاں ایسے عزت ہوتی جیسے میرے دوستوں کی عزت ہو رہی ہوتی۔ قہقہہ بار ہو گئے یہ دلچسپ جملہ مجھے کبھی نہیں بھولا۔ جب وہ بہت بیمار ہو گئے تو انہوں نے اپنے شعری مجموعہ کا دیباچہ بھی مجھے ڈکٹیٹ کروایا۔ان کے ادبی حوالہ سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ فلم پر تو وہ چھائے ہوئے تھے۔دیکھیے ان کا انقلابی انداز بھی کیسا ہے: دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا ایک دن میں نے قتیل شفائی صاحب کو انہی کا دلچسپ واقعہ سنایا تو وہ بہت محظوظ ہوئے ایک زمانے میں جب قتیل شفائی ایک چنگی پر محرر تھے تو ہمارے دور پار کے انکل میجر منظور ان کے مداح اور معتقد تھے انہیں ملنے کے لئے وہ چنگی پر آ جاتے میجر منظور صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک روز جب وہ قتیل صاحب سے ملنے گئے تو وہ مشق سخن میں یوں مصروف تھے کہ ایک طرف کاغذ پر غازل جاری تھی اور دوسری طرف کاغذ پر لکھا جا رہا کہ اتنے گدھے گزر گئے وغیرہ وغیرہ غزل کا ایک مصرع انہوں نے پڑھا کوئی بدلی تری پائل سے بھی ٹکرائی ہو گی۔یعنی کیا متضاد انجام تھا مجھے حسرت موہانی یاد آ گئے: ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی تو میرے معزز قارئین میرے دل میں یہی سمائی کہ میں اپنے بزرگوں کا تذکرہ آپ کے سامنے کروں کہ ان کے شب و روز آپ کے سامنے آ جائیں وہ تو کھانے کے بارے میں بھی باتیں کرتے کہتے کہ قتیل شفائی کو چکن اتنا پسند ہے کہ ہر سبزی میں چکن پسند کرتے ہیں سب سے زیادہ اچھا اس وقت محسوس ہوتا جب احمد ندیم قاسمی بعض اوقات خود اٹھ کر کپ میں چائے ڈال کر دیتے اور بسکٹ کی پلیٹ آگے بڑھاتے شاہ صاحب لیں کیا پیارے لوگ تھے۔ ہمیں منٹو کے دلچسپ واقعات سناتے ۔ایک دن کہنے لگے دیکھو فخر زماں اے سی لگوا گیا ہے۔اچھا خاصہ جی رہے تھے تب وہ 91یا 92کے تھے قاسمی صاحب ایک ادارہ تھے کہ ان سے محبت کرنے والوں میں حفیظ تائب، اختر حسین جعفری، خالد احمد اور نجیب احمد جیسے محبت کرنے والے تھے۔خواتین بھی ایسے آتیں جیسے میکے میں آتی ہیں ایک خاندان تھا بس عمران منظور اور نعمان منظور بھی ان کے خاندان کے اہم لوگ تھے معروف عربی دان حمد کاظم بھی۔ میرے پاس لکھنے کو بہت ہے مگر کالم تو کالم ہے آخر میں قاسمی صاحب کی نعت کے اشعار: پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیراؐ ہے کرم مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا