پاکستان کے توشہ خانے کی فہرست کی ایک قسط منظر عام پرآنے سے ملکی نظام پر سے اعتماد متزلزل ہوا ہے اور اس سے دیکھ کراس امرپریقین راسخ ہوا ہے کہ یہ ملک اشرافیہ کی ذاتی ملکیت بن چکی ہے۔ اشرافیہ کے لیے ہی اشرافیہ قانون سازی کرتی ہے۔پارٹی اختلافات کے باوجود یہ سب اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ریاست پاکستان کو ملنے والے بیش قیمت تحائف کو اشرافیہ کے مفاد میں بنائے گئے قوانین کے ذریعے کوڑیوں کے مول ہتھیا لیا جاتا رہا ہے۔پاکستان کی ایک تازہ حکومتی فہرست سے پتا چلا ہے کہ پچھلے اکیس سالوں میں توشہ خانہ سے سرکاری تحائف وصول کرنے والی بااثر شخصیات میں کئی سابق صدور، وزرائے اعظم، سیاستدان، سابق فوجی جرنیل، جج اور صحافی شامل تھے۔ ریاست پاکستان کو ملنے والے قیمتی تحائف کو اونے پونے قیمتوں پرآپس میں بانٹنے اوراسے صرف اورصرف اشرافیہ کی ملکیت بنانے کے لئے پاکستان کی اشرافیہ نے جان بوجھ کر توشہ خانہ کے ایسے قوانین بنائے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں تمام بڑی جماعتوں اور اداروں کے لوگ موجود ہیں اور کسی نے بھی یہ فائدہ اٹھانے سے انکارنہیں کیا۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے سرکاری سطح پر موصول ہونے والے تحائف یعنی توشہ خانہ کا گذشتہ 21 سال کا ریکارڈ جاری کیا ہے جس میں 2002 سے مارچ 2023 تک وزرائے اعظم، صدور، بیورو کریٹس اور صحافیوں سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو ملنے والے تحفوں کی ایک تفصیلی فہرست دی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے اس ریکارڈ کے مطابق توشہ خانہ میں گاڑیاں، گھڑیاں، لیپ ٹاپ، آئی فون، بیڈ شیٹس اور یہاں تک کہ اشیائے خورد و نوش جیسے پائن ایپل، کافی، سری لنکن چائے اور عرب قہوہ کپ بھی بطور تحفہ وصول کیے گئے۔وزیر اعظم شہباز شریف کو ملنے والی رولیکس گھڑی کو اب تک کا سب سے مہنگا تحفہ بتایا گیا ہے تاہم انھوں نے یہ گھڑی نہیں لی۔توشہ خانے کے 21 سال کے ریکارڈ کے مطابق حکومت پاکستان کے عہدیداروں کو سب سے زیادہ تحائف 2005 میں ملے جن کی مجموعی تعداد 475 تھی۔ جبکہ 2006 اور 2007 کے دوران مجموعی طور پر 381 تحائف وصول کیے گئے۔ اسی طرح 2004 میں پاکستان کے توشہ خانہ میں 350 تحائف آئے۔فہرست کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تحائف سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے حاصل کیے جو کہ اس سے قبل وزیر خزانہ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ شوکت عزیز اور ان کی اہلیہ کو غیر ملکی نمائندوں سے مجموعی طور پر 885 تحائف ملے۔ سال 2006 میں شوکت عزیز کو اپنا سب سے مہنگا تحفہ ایک جیولری سیٹ کی صورت میں ملا جس کی قیمت کا تخمینہ 3,764,555 لگایا گیا مگر اس کے لیے انھوں نے قریب 563,184 روپے (15 فیصد) ادا کیے۔سنہ 2002 کے بعد کے ریکارڈ کے مطابق آصف زرداری نے 181، نواز شریف نے 55، شاہد خاقان عباسی نے 27، عمران خان نے 112 اور پرویز مشرف نے توشہ خانہ سے 126 تحائف حاصل کیے۔عمران خان کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے تحفے میں ملنے والی گراف کی ’مکہ ایڈیشن‘ گھڑی کا سیٹ سب سے مہنگے تحفے کس کو ملے اور کس نے اپنے پاس رکھے؟ 2017 سے 2018 کے دوران وزیر اعظم رہنے والے شاہد خاقان عباسی، ان کی اہلیہ اور بیٹوں نے 23 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے تحائف 20 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کیے جن میں سوئس لگژری برانڈ ہبلوٹ، رولیکس اور ہیری ونسٹن کی گھڑیاں اور جیولری گفٹ سیٹس شامل ہیں۔ 2018 میں وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو گراف (18 قیراط سونے اور ہیرے کی گھڑی) سمیت متعدد تحائف ملے جن کی قیمت کا تخمینہ 14 کروڑ سے زیادہ لگایا گیا جو انھوں نے 20 فیصد ادائیگی کے بعد اپنے پاس رکھے۔ 2009 میں صدر آصف علی زرداری نے 13 کروڑ سے زیادہ مالیت کی تین گاڑیاں حاصل کیں: بی ایم ڈبلیو 760 لی (سکیورٹی ورژن، 2008 ماڈل)، ٹویوٹا لیکسس ایل ایکس 470 (سکیورٹی ورژن) اور بی ایم ڈبلیو 760 لی (سکیورٹی ورژن 2004 ماڈل)۔ ان کے عوض آصف زرداری نے 15 فیصد رقم ادا کی۔ 2016 میں وزیر اعظم نواز شریف اور کلثوم نواز نے لگژری کرسٹوفر کیرٹ گھڑی اور جیولری سیٹ حاصل کیے جن کی اصل قیمت نو کروڑ سے زیادہ بنتی ہے مگر انھوں نے اس کا 20 فیصد ادا کیا۔ بلاول بھٹو نے 2013 میں اس وقت ایک گلدان توشہ خانہ سے مفت حاصل کیا جب ان کے والد صدر مملکت تھے۔سابق نیول چیف ذکا اللہ نے چار مرتبہ سستے داموں میں توشہ خانہ سے آئی فون اور دو بار آئی پیڈ حاصل کیا۔ سابق ایئر چیف طاہر رفیق بٹ کو دو آئی پیڈ، نائیکون اور کینن کے کیمرے ملے۔جبکہ ہواوے کے فون لینے والوں میں سابق نیول چیف ذکا اللہ، خارجہ امور پر وزیر اعظم کے سابق مشیر سرتاج عزیز، سابق صدر ممنون حسین، شوکت عزیز اور شاہد خاقان عباسی کے بیٹے حیدر، نادر اور عبداللہ شامل ہیں۔ریکارڈ میں درج ہے کہ ممنون حسین نے ڈرائی فروٹ کے دو ڈبے مفٹ حاصل کیے۔ رضا ربانی، شاہ محمود قریشی، نواز شریف، شوکت عزیز، پرویز مشرف، حنا ربانی، آصف زرداری اور عارف علوی ان لوگوں میں بھی شامل ہیں جنھوں نے کھجوریں اور ٹی سیٹ حاصل کیے۔ توشہ خانہ میں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انہیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اشرافیہ کے مرتب کردہ قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انہیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سن 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔