ریاست جموں وکشمیرکی جبری تقسیم کی علامت اوراہل کشمیرکے دلوںپرکھینچی گئی خونی لکیرجسے ظالموں نے لائن آف کنٹرول کانام دے رکھاہے کے دونوں جانب آزادکشمیراورمقبوضہ کشمیرپاکستان اور پوری دنیا میں بسنے والے کشمیری ہرسال19جولائی کو ’’یوم الحاق پاکستان‘‘ کے طورپرمنا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آزاد کشمیر پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں تقاریب، سیمینارز اور ریلیاں منعقد ہوتی ہیںجن کا مقصد اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرائے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلایا جائے تاکہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں۔ اس امرکوسمجھنانہایت ضروری ہے کہ پاکستان نے اپنے تئیں کسی توسیع پسندانہ (Expansionist) ایجنڈے کے تحت کشمیر کے الحاق کا مطالبہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ کشمیری تھے،کہ جنھوں نے ازخودپاکستان کے وجود میں آنے سے بھی پہلے اپنی تقدیر کو پاکستان سے وابستہ کیا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیری پاکستانیوں سے بھی پہلے کے پاکستانی ہیں توہمارے پاس اس کے انبار دلائل موجودہیں ۔ گزشتہ کالم میں ہم نے واضح کیا کہ 1931ء سے ہی کشمیری اپنی تحریک بپاکئے ہوئے ہیں اس پس منظراوراس سیاق وسباق کے ساتھ یہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ کشمیریوں کی تحریک حریت بہت پرانی ہے لیکن انکی تحریک آزادی میں اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ آیاکہ جب19 جولائی 1947ء کو ملت اسلامیہ کشمیرنے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش کا دستاویزی اظہار کیا۔ بلاشبہ یہ تاریخ کشمیرکاایک سنہری باب ہے کہ 19جولائی 1947ء کوکشمیری مسلمانوں کی اس وقت کی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے سری نگرکے مقام مجاہدمنزل میں ایک عظیم الشان کنونشن منعقد کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد پاس کی، جس میں کہا گیا کہ مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ دینی رشتہ ،جغرافیائی حالات، ریاست جموں وکشمیرکی اس وقت کی مجموعی آبادی کی 80فیصد مسلم اکثریت، کشمیرکے دریائوں کاپاکستان کی طرف رخ ،زبان، ثقافتی، نسلی اور معاشی تعلقات اور ریاست کی سرحدوں کا پاکستان سے ملحق ہونا ایسے حقائق ہیں جو اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔ 14اگست 1947ء کو جب پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا تو پوری ریاست جموں وکشمیر’’پاکستان زندہ باد ‘‘کے نعروں سے گونج اٹھی۔ لیکن اس قرارداداورپاکستان کے ساتھ رہنے کی عملی خواہش کے باوجودبرطانوی سامراج اورہندورام راج نے مل کراورایک ہوکرکشمیریوں کے ارمان قتل کرڈالے اورریاست کے غالب حصے پربھارت نے جبری قبضہ کردیا۔ کشمیریوں کے اس اعلان کیساتھ ہی گانگریس کی قیادت نہرواورپٹیل اوربرطانوی وائس رائے لارڈ ماونٹ بیٹن کی مشترکہ سازش سے جموں میںبھارتی فوج اورآر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے جتھوں کو بلوا لیا گیاجنہوں نے جموں کوعملی طورپراپنے قبضے میں لے لیااورجموں خطے کے مسلمانوں کاقتل عام شروع کردیاتویہ خبرایک برطانوی اخبارمیں شائع ہوئی توردعمل میںکشمیریوں کی مدد کے لیے پاکستان کے قبائلی مسلمان رضاکار کشمیر میں داخل ہوئے تو جموں کے ڈوگرہ حکمران نے بھارت سے کھل کرمددمانگی ۔بھارت نے سری نگرکے ہوائی اڈے پرفوج اتاری اوراسکے ساتھ ہی بھارت نے اقوام متحدہ کادروازہ یہ کہتے ہوئے کھٹکھٹایاکہ قبائلی واپس چلے جائیں تووہ بھی اپنی فوجیں جموں اورکشمیرسے واپس بلوائے گا۔اقوام متحدہ نے دونوں سے کہاکہ وہ کشمیرمیں کوئی مداخلت نہ کریں۔ قبائلی توواپس آگئے لیکن بھارتی فوج کشمیرمیں ہی موجودرہی ۔جس پرسلامتی کونسل میں کشمیری عوام کو یہ حق تفویض کیا گیا کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں۔ لیکن یہ فریب ثابت ہوا،اورکشمیرایک بڑے تنازعے کے ساتھ کھڑاہوا۔بھارت کہتاہے کہ کشمیرکے ڈوگرہ حکمران نے بھارت کے ساتھ الحاق کردیالہذااب کشمیربھارت کاحصہ ہے ۔لیکن کشمیری عوام ہندوڈوگرہ کے کسی بھی دستاویزالحاق کوفراڈ کہہ کراسے سختی کے ساتھ مستردکرتے چلے آئے ہیں اوروہ 19جولائی 1947ء کی وہ دستاویزالحاق تسلیم کرتے ہیں اوراسے مانتے ہیں جس میں کشمیریوں کی اس وقت کی مقبول قیادت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیاہے ۔یہ وہ بنیادی بات ہے جس کو سمجھے بغیر ہم کشمیریوں کے پاکستان سے رشتے کی گہرائی کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھارتی فوج کی سفاکیت انتہا پر ہے، اور ارض کشمیر میں بسنے والے نہتے کشمیری بھارتی فوج کے خطرناک اسلحہ کا مقابلہ محض پتھروں سے کر رہے ہیںاوروہ میدان میں خیمہ زن ہوکربھارتی ناجائز تسلط سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے وعدہ بندہیں۔ کشمیرکے گبروجوان ،مرد عورتیں اور بچے بھارتی سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لئے بے پناہ قربانیاں دے رہے ہیںاورمقصدکے حصول کے لئے گامزن راہ پرشہادتیں پیش کررہے ہیں، کٹ رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں، ٹاچر سیلوں، جیلوں اورعقوبت خانوںمیں صعوبتیں جھیل رہے ہیں تو صرف اس لئے کہ اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ کا ضمیر جاگ اٹھے ،ان کی آواز پر توجہ دیکرانہیں بھی دارفر اور مشرقی تیمور کی طرح رائے شماری کا حق دلایاجائے جس کا اقوام متحدہ وعدہ کر چکا ہے۔ مگر اتنی قربانیان دینے ، جانی ومالی نقصان برداشت کرنے اوربھارتی بربریت پرچیخ وپکارکے باوجوداقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیر کے مسئلے سے مسلسل آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔اقوام عالم کے سب سے بڑے ادارے اوربین الاقوامی رائے عامہ کی کشمیرکے حوالے سے اس طرزکے مجرمانہ کردار و عمل کے باعث کشمیریوں میں غصہ ،نفرت اور اشتعال مزید بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف جدیداسلحے سے لیس درندہ صفت بھارتی افواج تودوسری طرف نہتے کشمیری اپنے عزائم کو جلا بخشتے ہوئے جس طرح ٹینکوں اوربکتربند گاڑیوں کا مقابلہ پتھروں سے کررہے ہیں وہ بہادری اوردلیری ،جرات اورشجاعت کی اعلیٰ مشال ہے ۔ارض فلسطین پراہل فلسطین کے بعد اگربے سروسامانی کی حالت میںکہیںناجائزقبضے اورجبری تسلط کے خلاف تاریخ رقم ہورہی ہے تووہ ارض کشمیرپراسلامیان کشمیرکررہے ہیںہے ۔ آزادی ایک ایسی نعمت ہے جو ایک مسلمان کو اپنی دینی روایات ،ثقافت وتہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے اور مسلم قو م اپنے بنیادی حق کے حصول کے علیٰ الرغم اپنی ثقافتی روایات اور دینی شعار کے تحت اپنی زندگی بطور آزاد شہری ہرگزنہیںگزار سکتی ہے، اس پرمستزادیہ کہ آزاد قومیں ہی دنیا میں اپنی نسل در نسل شناخت کا باعث بنتی ہیں۔ اور جب کسی قوم کو زبر دستی زیر کرنے یا پھران کاحق آزادی سلب کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے بنیادی حق ’’آزادی‘‘کے حصول کے لئے میدان میں اترتی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قوم سے آزادی جیسی نعمت چھینی گئی اوراسے غلامی کی جکڑبندیوں میں ڈالاگیاتووہ اسے قبول کرنے سے انکاری رہی۔ملت اسلامیہ کشمیرکی صورتحال عین غین یہی ہے کہ وہ بھارتی غلامی سے منکرہوکر اپنی آزادی کے لئے سربہ کفن بنی ہوئی ہے۔ کشمیریوں اور پاکستان نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں کئی بار پہنچایا کہ تمہاری پاس کردہ قرار دادیں ریاست جموں وکشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے چکی ہیں اس پس منظرمیں تم اگلے اقدام یعنی کشمیریوں کوحق استصواب دلانے سے آج تک مجرمانہ کردارکیوں نبھارہے ہو لیکن یہ امرسمجھ سے بالاترہے کہ کیا وجوہات ہیں کہ اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں پر عملدر آمد کروانے میں بے بس ہے ۔1947ء سے لاکھوں کشمیری مسلمان حق خود ارادیت کے حصول کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں اورپاکستان ریاست جموں وکشمیرپربھارتی جارحانہ قبضے کے 70 سال کی طویل مدت سے کشمیریوں کی آزادی کی دہائیاں دے رہاہے لیکن اقوام عالم کے منافقانہ طرزعمل کے باعث بھارت مسلسل کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کر رہاہے۔ بھارت کاٹریک ریکارڈ ہے کہ اس نے نہ صرف ہر بار پاک بھارت مذاکرات کو محض مذاق سے زیادہ اہمیت نہ دی ، بلکہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور طرح طرح کے الزامات اور دھمکیوں سے مسلسل مسئلہ کشمیر سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ جبکہ اسکی دس لاکھ فوجی وحشیانہ کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں،اور بھارتی میڈیا کشمیرمیں اپنی فوج کے یہ کہتے ہوئے حوصلہ بڑھارہا ہے اوریہ مذموم منفی پراپیگنڈہ کررہاہے کہ پتھرمارنے والوں کاجواب پتھرسے نہیں بلکہ گولی مارکرانکی جان لی جائے۔ المیہ یہ ہے کہ کشمیرکے حوالے سے پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے زوال پذیرطرزعمل اختیار کیا ہوا تھا۔ حکومتی سطح پراس زوال پذیرطرزعمل کا آغاز مشرف نے کیاتھاجبکہ زرداری اورپھرنوازشریف کی حکومتوں نے اسی طرزعمل کوبدستورجاری رکھا۔دوسری طرف پاکستان کامیڈیا پس قدمی اختیارکئے ہوئے ہے ۔ایسامحسوس ہورہاہے کہ وہ کشمیرکی تحریک آزادی کے حوالے سے کسی تشکیک کاشکارہے۔بھارتی میڈیاکے پروپیگنڈے کے مقابلے میں پاکستانی میڈیاکی صدق بیانی عشرعشیربھی نہیں۔