وزیراعظم عمران خان کو مبارک ہو! انھوں نے واقعی بہت بڑا معرکہ مارا ہے۔چند ہفتے قبل سعودی عرب سے خالی ہاتھ واپس آنے کے بعد انھوں نے حالیہ دورے میں پاکستان کی اقتصادی بد حالی کے بیابان میں امید کی کرن دکھائی ہے۔سعودی فرمانروا کی طرف سے تین سال کے لیے تین ارب ڈالر سالانہ ادھار ادائیگی پر تیل اور تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھنے سے پاکستانی معیشت کو سہارا دیا جا رہا ہے۔سٹاک مارکیٹ جو بالکل بیٹھ چکی تھی اوپر جانا شروع ہو گئی بلکہ اگلے ہی روزچالیس ہزار پوائنٹ تک پہنچ گئی،یہ گزشتہ برسوں میں ریکارڈ اضافہ ہے ۔عمران خان آئندہ ماہ کے شروع میں چین کی یاترا کرینگے، اس کے بعد وہ نومبر کے دوسر ے ہفتے میں ملائیشیا جائیں گئے وہاں سے بھی حوصلہ افزا امداد ملنے کی توقع کی جا رہی ہے جس کے باعث ممکن ہے کہ آئی ایم ایف سے نسبتاً کم قرضہ لینا پڑے اور اس کی شرائط شاید اتنی زیادہ سخت نہ ہوں۔ واضح رہے کہ یہ سعودی قرضہ پاکستان کے اٹھارہ ارب ڈالر کے بہت بڑے تجارتی خسارے کو جو رواں سال میں 25ارب ڈالر تک جائے گا، صرف ایک تہائی سے کم حد تک پورا کرسکے گا۔ اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 8ارب ڈالر تک گر چکے ہیں جو صرف سات سے آٹھ ہفتے کی درآمدات کو بمشکل کور کر سکتے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو واقعی عمران خان نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا ہے۔یہاں یہ سوال پید اہوتا ہے کہ آخر چند ہفتوں میں سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کرنے کے بارے میں اپنی رائے کیونکر بدل لی؟۔ بین الاقوامی حالات کے اتار چڑھاؤ ہمیشہ پاکستان کی مدد کے لیے سازگار ثابت ہوئے ہیں۔ سردجنگ کے دوران 50اور 60کی دہائی میں ایوب خان نے مغربی دفاعی اتحادوں سیٹو اور سینٹومیں شامل ہو کر کمیونزم کے خلاف جنگ لڑنے کے حوالے سے اربوں ڈالر اینٹھے۔ جنرل ضیاء الحق نے1979ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا تو وہ ساری دنیا کے لیے اچھوت بن گئے لیکن اسی سال دسمبر میں سوویت یونین کی فوجوں کی افغانستان پر یلغار نے آمر مطلق کو امریکہ اور مغرب کی آنکھ کا تارا بنا دیا۔ جنرل پرویز مشرف بھی اس نعرے کے ساتھ آئے تھے کہ لوٹی ہوئی دولت برآمد ہونے سے وارے نیارے ہو جائیں گے لیکن لوٹی دولت تو واپس نہ آئی البتہ معیشت کا کباڑا ہو گیا۔ نائن الیون کے بعد مشرف طوہاً وکر ہاً امریکہ کے غیرعلانیہ اتحادی بن گئے اور ان پر ڈالروں کی بارش ہونے لگی۔ اب معاملات مختلف ہیں، امریکہ کسی صورت بھی پاکستان کو شک کافائدہ دینے یامعاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ابھی گزشتہ روز ہی امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکا یہ دو ٹوک بیان آیا ہے کہ ہم پاکستان کو دوطرفہ ملاقاتوں میں اور برملا بھی وارننگ دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبان کی پشت پناہی چھوڑ دے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان استنبول میں سعودی قونصل خانے میں امریکہ میں مقیم ایک منحرف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں نکو بن گئے ہیں۔ عمران خان جس بین الاقوامی انویسٹمنٹ کانفرنس Davos in the desertمیں شرکت کرنے ریاض گئے تھے اس کا مغربی ممالک نے مجموعی طور پر بائیکاٹ ہی کیا۔ سعودی عرب کی موجودہ تنہائی میں عمران خان نے بطور پاکستانی وزیر اعظم وہاں جا کر پاکستان کا یہ وعدہ نبھایا کہ ہمیشہ سعودی عرب کی مشکلات میں اس کے ساتھ کھڑے ہونگے، گویا کہ سعودی عرب کے اس ’نائن الیون‘ میں پاکستان اس کے ساتھ کھڑا ہے۔وطن عزیز واپس لوٹتے ہی وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک اور انکشاف بھی کیا کہ پاکستان سعودی عرب اور یمن کے درمیان ثالثی کرائے گا۔ یقینا یہ نیک مشن ہے جس کی کوشش ان کے پیشرو میاں نواز شریف نے بھی کی تھی لیکن اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف مبینہ طور پر ایران کے بارے میں کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے تھے اور انھیں انہی خدمات کی بناپر یمن میں یلغار کے لیے بنائی گئی اسلامی فوج کا سربراہ بنادیا گیا۔جنرل قمر جاوید باجوہ اس بارے میں بجا طور پرزیادہ متوازن پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے نومبر 2017ء میں ایران کا تین روزہ دورہ بھی کیا جس کے دوران انہوں نے تمام ایرانی حکومتی زعما اورعمائدین سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ جنرل باجوہ کے سعودی عرب سے بھی اچھے تعلقات ہیں اور یمن کی یلغار میں سعودی عرب کے ساتھ متحدہ عرب امارات جو میاں نواز شریف سے سخت ناراض ہیں کومنانے میں بھی جنرل باجوہ کا کلیدی رول تھا۔ میاں نواز شریف کے دور میں پارلیمنٹ نے مشتر کہ طور پر قرارداد پاس کی جسے منظور کرانے میں اپوزیشن میں تحریک انصاف پیش پیش تھی کہ ہمیں اس پرائی جنگ میں خود کو نہیں جھونکنا چاہیے۔ عمران خان بطور وزیر اعظم 6ستمبر کو جی ایچ کیو میں یوم شہدا کی تقریب میں بھی آرمی چیف کی موجودگی میں یہ اعادہ کر چکے ہیں کہ پاکستان دوسروں کی جنگوں میں فریق نہیں بنے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب کا خیال تھا حوثی قبائل اس کی فوجی یلغار کے سامنے تر نوالہ ثابت ہونگے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ایران اور حزب اللہ جو حوثی قبائل کی تھوڑی بہت مدد کر رہے تھے، اب پوری طرح اس لڑائی میں ملوث ہیں۔ سعودی عرب یمن کی لڑائی کے گرداب میں بری طرح پھنس گیا ہے۔ اس پس منظر میں کیا وہ اپنے اس ’’ویتنام‘‘ سے نکل جائے گا؟۔ یقینا پاکستان ثالثی کے لیے کردار ادا کر سکتا ہے لیکن اس میں یہ رکاوٹ ہے کہ آیا سعودی عرب سے مدد لینے کے بعد ایران پاکستان کو غیر جانبدار ثالث کے طورپرتسلیم کرے گایا نہیں؟۔ عمران خان نے قوم سے خطاب میں بر ملا طور پر کہہ دیا ہے کہ قوم کی دولت لوٹنے والوں کو کوئی این آر او نہیں ملے گا اب ان کی جگہ جیل ہے۔ اپوزیشن نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے سوال کیا کہ این آر او مانگ کون رہا ہے کیونکہ پرویز مشرف آمر مطلق کے طور پر این آر اوکر سکتے تھے۔ اگرچہ آصف زرداری کا موقف ہے کہ وہ کسی این آر او سے مستفید نہیں ہوئے اور ان کے خلاف اسی طرح کیسز چلتے رہے لیکن اس وقت کے این آراو سے ایم کیو ایم نے خوب ہاتھ رنگے۔ اب ایک منتخب وزیر اعظم کیسے این آر او دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ توملک نہیں چلا رہے اور عملی طور پر سیاست سے باہر ہیں وہ کیونکر این آر او دیں گے لیکن دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ نواز شریف اپنی اہلیہ مرحومہ کے چالیسویں کے بعد بھی مہر بلب ہیں، ان سے جب بھی پوچھا گیاکہ این آر او پر کیا تبصرہ ہے توانھوں نے کہا کہ میں نے ٹی وی دیکھا ہی نہیں آپ مریم اورنگزیب سے بات کریں۔ صاحبزادی مریم نواز جن کے ٹویٹس ہر وقت زیر بحث رہتے تھے نے لگتا ہے کہ اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہی بند کر دیا ہے۔ نواز شریف جو آصف زرداری کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے تھے ،اب ان کے ساتھ گرینڈ الائنس بنانے کے معاملے میں کچھ تامل سے کام لے رہے ہیں گویا کہ جی ٹی روڈ والا نواز شریف اب موٹروے والا نوازشریف نظر آرہا ہے ۔آخر یہ سب کچھ کیوں؟، کہیں ایسا تو نہیں کچھ بیرونی طاقتیں عمران خان پر دباؤ ڈال رہی ہوں کہ نواز شریف کی گلوخلاصی کر دیں لیکن وہ اپنی ہٹ کے پکے ہیں مانتے ہی نہیں۔