بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد بالآخر عمران خان کو انتخابی میدان میںکامیابی نصیب ہوئی ، لیکن یہ کامیابی نہیں درحقیقت ایک بڑا امتحان ہے،وہ بائیس کروڑ کی آبادی والے اس اسلامی اور نظریاتی ملک کا سربراہ بننے جا رہے ہیں جہاں ہر ،ہر راہ گزر پر ایک ایک ریحام خان اور ایک ایک نواز شریف ان کا منتظر کھڑا ہوگا، جہاں کا میڈیا لمحہ لمحہ آپ کی کمزوریاں تلاش کرے گا، جہاں کے بزعم خود دانشور حلقوں میں صرف یہ دیکھا جائے گا کہ پہلے کے حکمرانوں کے مقابلے میں اس کی جیب میں ان کے لئے کیا رکھا ہے؟ ایک ہی سیاسی خاندان پر پنتیس برس تک پلنے والی بیورو کریسی آپکو کسی قیمت پر قبول کرنے پر تیار نہ ہوگی، پاکستان شوکت صدیقی کے ناول خدا کی بستی کی مانند ہے اور اس ملک کے عوام اسی خدا کی بستی کے جیتے جاگتے کردار ہیں۔میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ عمران خان کا بنے گا کیا؟ انہیں ان بائیس کروڑ لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا ہے جو پچھلی سات دہائیوں سے ستم کی چکی میں پس رہے ہیں ، جنہیں کئی بار جمہوریت اور انقلاب کے نام پرڈسا گیا ،عمران خان کی خوش قسمتی ہے یا بد نصیبی کہ ان سے توقعات لگائے بیٹھے لوگ انہیں سیاستدان نہیں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کا کردار عمران سمجھ بیٹھے ہیں ، اور ان لوگوں کو امید ہے کہ ایکس ٹو نے عمران کو جو فرائض سونپے ہیں وہ ناول کے سو صفحات مکمل ہونے سے پہلے پہلے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچا دے گا۔ ۔چھ دن بعد عمران خان کو اقتدار کی مسند پر بیٹھنا ہے اور سودن کے اندر اندر بڑے اور بنیادی مسائل حل کرنے کا وعدہ وہ خود کر بیٹھے ہیں، عمران خان اس ملک کے وزیر اعظم بن رہے ہیں جہاں کی پولیس اور جہاں کی عدلیہ کا غریب عوام کے خلاف گٹھ جوڑ ہے، جہاں انصاف دینے والے ادارے وڈیرہ شاہی کے ٹاؤٹ ہیں، حکمران طبقات نے ستر سال میں پاکستان کے جسم اور پاکستان کی روح پر وہ گھاؤ لگائے ہیں جن پر کوئی مرہم آسانی سے کارگر ثابت نہیں ہوگی، اس خدا کی بستی کے مکینوں پر روزانہ کیا کیا بیتتی ہے وہ سب میڈیا میں نہیں آتا، اگر کچھ آتا بھی ہے تو آٹے میں نمک کے برابر، ہمارے ملک کے میڈیا کا حال یہ ہے کہ ستر فیصد صحافی سینکڑوں چھوٹے چھوٹے اور چند بڑے اداروں میں بھی بلا معاوضہ کام کرتے ہیں، ان کے رزق کا دارومدار بھی عوام کے ساتھ لوٹ مار ہے، اس با اثر طبقے کے نشتر کمانوں میں رکھوائے جا چکے ہیں آپ صرف ایک دن میں میڈیا کی زینت بننے والے جرائم کی جھلک دیکھ کر ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا یہاں سو دن میں بنیادی مسائل حل ہو سکتے ہیں؟ عمران خان صاحب! سب سے پہلے قوم سے اس کا ہاتھ مانگئے مدد کیلئے، اعلان کیجئے کہ آپ اپنی پارٹی اور ریاستی اداروں کے ساتھ نہیں قوم کے تعاون سے ہی اس ملک کو اندھیروں سے نکال سکتے ہیں۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ جاننے کیلئے میں آج اپنے قارئین کے سامنے ایک چھوٹا سا سچا واقعہ بیان کر رہا ہوں۔ ٭٭٭٭٭ اس وڈیرے سے میرا تعلق ایک مشترکہ دوست کی وساطت سے ہوا،وہ نیلی بار سے جب بھی لاہور آتا ، مجھے ضرور ملتا، اس کے علاقے کا پٹواری بھی ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ، وڈیرہ اور پٹواری جگری دوستوں کی طرح تھے، پٹواری اس کی نجی زندگی اور دوسرے کرتوتوں میں بھی اس کا رازدان تھا۔ دیپال پور اور پاک پتن کے درمیان اس کی بڑی زمینیں تھیں،جو اسے وراثت میں ملیں ، دور دور تک چاروں اطراف پھیلی ہوئی دوسری وسیع و عریض اراضی بھی اس کے بھائیوں اور کزنوں کی ملکیتی تھی، گاؤں کا نام اس کے دادا پردادا سے منسوب تھا،مین سڑک کے دوسرے پار کاحاکم اس کا چاچا تھا، یہ چاچا میرے والد کا بہت پرستار تھا، اس لئے مجھے ملتا تو بہت خوش ہوتا اور میرے والد سے اپنی ملاقاتوں کا احوال سناتا،میں اس کے بارہا اصرار پر دو چار بار اس کی جاگیروں پر گیا، پہلی بار اس نے مجھے حویلی کی بجائے ڈیرے پر ٹھہرایا ، ،ڈیرے سے پہلے ایک ایک کمرے کے درجنوں کچے مکان تھے جہاں اس کے جدی پشتی مزارعوں کے خاندان رہ رہے تھے، مزارعوں کو فصل پکنے پر ان کا چھوٹا سا مخصوص حصہ دیا جاتا، ہے جسے وہ کھاتے بھی ہیں اور گندم، کپاس یا چاول بازار میں بیچ کر اپنی دوسری ضروریات بھی پوری کرتے ہیں ، یہ مزارعے خاندان سمیت زمینداروں کی رعیت ہوتے ہیں، ان کا جینا مرنا، ان کی خوشیاں ان کے آنسو سب کچھ زمیندار کے قبضے میں ہوتا ہے، ان کی عورتوں پر بھی زمینداروں کا حق ہوتا ہے،، کوئی مزارعہ کبھی بھاگ کر چلا جائے تو اسے اور اس کے خاندان کو سخت سزائیں جھیلنا پڑتی ہیں، زمیندار کی قید سے فرار ہونے والے کسی مزارعے کو زمین بھی کہیں پناہ نہیں دیتی ،اس جاگیردار کو مجھ سے شکایت تھی کہ میں جدوجہد کیوں کرتا ہوں؟ اسے یہ اعتراض بھی ہوا کہ میں جمہوریت اور جمہور کے نام پر جیلوں کے مصائب کیوں جھیلتا ہوں؟ میرے اس وڈیرے دوست کا ایک بھائی اس کے دیگر دوست اور رشتے داربھی اس معاملے میں میرے مخالف تھے کہ میں جمہوریت کے لئے جسمانی اور ذہنی اذیتیں کیوں برداشت کرتا ہوں؟ ،یہ وہ دن تھے جب ملک میں آمریت کے سائے ہر سو پھیلے ہوئے تھے، یہ لوگ پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو کے بھی سخت مخالف تھے، لیکن عجب واقعہ یہ ہوا کہ جب بینظیر صاحبہ پہلی بار حکومت میں آئیں تو اس وڈیرے کا بھائی پارلیمنٹ میں بھی پہنچا اور کابینہ کا بھی حصہ بنا ۔ ایک بار جب میں اس وڈیرے دوست کے گاؤں گیا، ایک ایسا واقعہ رونما ہوگیا جس کے بعد میں نے اس سے ہمیشہ کیلئے تعلق توڑ دیا۔۔ہوا کیا اب یہ بھی سن لیں۔ شدید گرمی کے دن تھے، میں آخری بار اس سے ملنے گیا تھا، حویلی کے باہر بیٹھے اس کے ملازمین نے بتایا کہ چوہدری صاحب زمینوں پر گئے ہوئے ہیں، مجھے ان کے پاس پہنچانے کے لئے ایک گھوڑے پر بٹھایا گیا، دوسرے گھوڑے پر راہنما تھا، ایک فرلانگ آگے گئے تو تھوڑا سا آگے لوگوں کی بھیڑ دکھائی دی، ایسا لگ رہا تھا جیسے تماشہ دیکھنے کے لئے لوگ دائرے میں کھڑے ہوں ، میں تیزی سے گھوڑے سے اترا ،اور تماشہ گاہ میں جا گھسا،، ایک نیم برہنہ نوجوان لڑکی دوزخ کی طرح تپتی زمین پر لیٹی چیخیں مار رہی تھی، زمیندار کے ہاتھ میں پستول تھا، وہ ہجوم کے چاروں اور پستول لہراتے ہوئے کہہ رہا تھا ، یہ بات اگر کسی کی زبان سے بھی گاؤں سے باہر گئی تو اس کی سزا گولی ہوگی، ہوا کیا تھا؟ زمین پر لیٹی، چیختی چلاتی لڑکی ایک مزارعے کی بیٹی تھی، جاگیردار کی زبردستیوں کے باعث وہ حاملہ ہو گئی تو چوہدری نے اپنا گناہ چھپانے کے لئے اپنے چاچے کے گاؤں سے ایک دائی بلوائی، وہ دائی اس لڑکی کو اس مقام پر لائی، ابارشن کے لئے اس نے اپنا کوئی آزمودہ نسخہ استعمال کیا، لڑکی وہ خطرناک حربہ برداشت نہ کر سکی، اس کی چیخوں کی آواز مزارعوں کے کچے مکانوں تک پہنچی تو وہ سب یہاں پہنچ گئے، دائی وہاں سے بھاگ گئی اور چوہدری وہاں پہنچ گیا تھا۔