ہر طرف ان خبروں کی دھوم ہے کہ زرداری کا گھیرا پھر تنگ ہو رہا ہے۔ معروف کاروباری شخصیت حسین لوائی اور دیگر زرنوازوں کی گرفتاری کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ ایک ٹی وی پر کہا جا رہا تھا ‘ حسین لوائی فر فر بولے گا۔ راز کھولے گا یہ تو پہلے بھی سنا تھا جب ڈاکٹر عاصم کو پکڑا تھا۔ سال بھر ٹی وی والے خوشخبریاں سناتے رہے کہ بڑے بڑے راز کھول دیے ہیں‘ سینکڑوں خزانوں کا پتہ بتا دیا ہے اب کوئی نہیں بچے گا۔ قومی خزانے میں کھربوں آنے والے ہیں۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا طوطے کو پنجرے سے رہائی مل گئی۔ راز راز ہی رہے‘ خزانے میں ایک روپے کا آدھا یعنی آٹھ آنے بھی نہیں آئے۔ الٹا قومی خزانے سے کروڑوں ’’تشہیری‘‘ مہم پر خرچ ہو گئے۔ بالکل یہی رٹا رٹایا فقرہ احد چیمہ کی گرفتاری پر بھی ٹی وی والوں نے چلایا تھا۔ طوطے کی طرح راز کھول دیے۔ فرفر بول دیے، اربوں کی کرپشن کا سراغ مل گیا۔ کئی مہینے کے بعد پتہ چلا کہ طوطا کچھ بولا ہی نہیں ناچار پرانے ریفرنس کو اپنی جگہ رکھ کر نئے کیس میں گرفتاری ڈالنا پڑی۔ اب یہی کہانی فواد احمد فواد کے بارے میں سن رہے ہیں۔کیا پتہ بھئی اب کی بار سچ مچ کے راز کھل جائیں اربوں کھربوں کو ترستے قومی خزانے کے بھاگ جاگ جائیں، نہ ہوا تو خیر نئے کیس بنانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔

٭٭٭٭٭

زرداری کا گھیرا تو تنگ واقعی ہو رہا ہے اور تنگ گھیرے سے تنگ آ کر زرداری صاحب نجی محفلوں میں بہت کچھ سنا رہے ہیں۔ ایسا ایسا کچھ فرما رہے ہیں کہ اخباری اہلکاروں سے کہیں تو کیسی کیسی مزے کی مسالے دار سرخیاں بنیں، لیکن وہ کھلی سماعت سے گریز کرتے ہیں نجی محفلوں ہی میں راز دل بتاتے ہیں، نہیں ڈرتے وہ بالکل نہیں بس جسے وہ پیغام دینا چاہتے ہیں نجی راز دار بات وہاں پہنچا دیتے ہیں۔ یوں اندر کی بات اندر ہی رہتی ہے مکتوب الیہ کو بھی خبر ہو جاتی ہے۔ بلاول بھی تنگ ہیں‘ کہتے ہیں سندھ میں ہمارے راستے روکے جا رہے ہیں راستہ روکنے کا ایک واقعہ دو روز پہلے اُچ شریف (جنوبی پنجاب) میں بھی ہوا۔

گھیرا تنگ کرنا ایک مشروط عمل ہے اور اس کا سندھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلاول اور ان کے پاپا جانی جگ جگ جئیں سندھ میں الیکشن جیتیں‘ حکومت بنائیں کون روکتا ہے۔ گھیرائو پارٹی کی ’’عرجی‘‘ تو بس ذرا کسی فرمائش پوری کرنے کی ہے اور اس کا تعلق سندھ نہیں جنوبی پنجاب سے ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی شاید کوئی سیٹ ہو لیکن ہر سیٹ پر اس کا ووٹ بنک تو ہے چھوٹا ہی سہی! کہیں دس ہزار تو کہیں پانچ ہزار کہیں پر اس سے بھی کچھ زیادہ۔

فرمائش ہے کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے الیکشن نہ لڑے۔ فرمائشیوں کو یقین برحق ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار بیٹھ جائیں تو اس کے ووٹر مسلم لیگ کو نہیں تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے۔

زرداری صاحب یہ عرجی مان لیں تو حسین لوائی بھی چھوٹ جائے گا دوسری آفات بھی ٹل جائیں گی اور فرمائش کاروں کو بھی گرفتار اصحاب کے قبضے سے سینکڑوں کھرب روپے برآمد کرنے کی زحمت سے نجات مل جائے گی۔ اس مصروف زمانے میں اتنی فرصت کہاں کہ کھربوں کے نوٹ گنتے رہیں۔ یقین مانیے اسی بے کار کی مشقت سے پیشگی پریشان ہو کر ڈاکٹر عاصم کو بھی چھوڑنا پڑا تھا۔

٭٭٭٭٭

اصحاب الجیپ فیل بان چودھری نثار نے کہا ہے کہ ان کا خلائی مخلوق سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں تو خدائی مخلوق نے ٹکٹ دیا ہے۔

خدائی مخلوق کا دائرہ تو بہت وسیع ہے فیل بان صاحب اس میں دنیا کی سات آٹھ ارب انسانی آبادی ہی نہیں آتی بلکہ کھرب ہاکھرب کی گنتی والے چرند، پرند، درند، آبی ،بادی، خاکی ہر قسم کی مخلوق آتی ہے     ع

کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

اتنے کھربوں نفر والے کنبے میں سے آپ کو ٹکٹ کس نے دیا ہے؟چودھری صاحب دراصل خود کو ملنے والے اس طعنے کی تردید فرما رہے تھے کہ وہ کسی خلائی مخلوق کے نمائندے ہیں لیکن شاید انہیں خیال رہا کہ خلائی مخلوق جو بھی ہے وہ بھی تو خدائی مخلوق ہے کوئی بھی مخلوق آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی خلائوں میں رہتی ہو یا خلائوں سے اتر کر آئی ہو‘ ہے تو خدا کی بنائی ہوئی۔

ویسے لکھنے میں خدائی اور خلائی کے لفظوں میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں۔ ’’د‘‘کی جگہ ’’ ل‘‘ لگا دو تو خلائی اور’’ ل‘‘ کی جگہ ’’د‘‘ لگا دو تو خدائی۔

سائنس فکشن میں خلائی مخلوق کی پسندیدہ سواری اڑن طشتری یا پھر بہت پھیلا ہوا خلائی جہاز بتایا جاتا ہے لیکن اب سنتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں خلائی مخلوق کی پسندیدہ سواری تو جیپ نکلی۔

٭٭٭٭٭

چودھری نثار نواز شریف پر بھی گرجے اور ان پر الزام لگایا کہ وہ نواز شریف ان (نثار) کی مسلسل توہین کر رہے ہیں اور وہ نثار بوجہ شرافت چپ ہیں۔

جہاں تک لوگوں کو یاد ہے سال بھر سے بلکہ ڈیڑھ سال سے نواز شریف نے نثار کا کبھی ذکر تک نہیں کیا۔ نہ ہی کبھی ان کا نام لیا نہ ہی ان کے بارے میں اشارۃً کوئی بات کہی پھر وہ نثار کی توہین مسلسل کیسے کر رہے ہیں؟

جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی کا نام تک بھی نہ لینا توہین ہی کی ایک قسم ہے اور نثار کا شکوہ یہ ہے کہ     ؎

تم میرا نام کیوں نہیں لیتے

تم مرا ذکر کیوں نہیں کرتے

یہی بات لگتی ہے یعنی نظر اندازیٔ مسلسل ہی توہین مسلسل ہے۔ نثار نے فلمیں تو دیکھی ہوں گی ایک ’’مظلوم‘‘ نے اپنے دشمن کو یہ بددعا دی تھی کہ جاتو میری دشمنی کو ترسے۔

٭٭٭٭٭

امریکی محکمہ خارجہ کے شعبہ جنوبی ایشیا کی سربراہ ایلس ویلز نے پاکستان میں صحافت اور سوشل میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے تشویش ظاہر کی ہے۔ واشنگٹن میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی آزادی رائے کو دبائو کا سامنا ہے اور انہیں آزادی حاصل نہیں ہے۔

ایسی بات نہیں ہے محترمہ میڈیا آزاد ہے جو چاہے آ کر ملک دشمن عناصر کے خلاف دل کی بھڑاس کسی بھی طرح کے الفاظ میں نکال سکتا ہے معاملہ صرف اتنا ہے کہ صحافت کو رہنمائی کی ضرورت ہے بہت زیادہ ضرورت۔ ایک کے بعد ایک ادارے کو آگے آنا پڑ رہا ہے حتیٰ کہ کل نیب بھی آ گیا۔ اس نے کیپٹن صفدر کے حوالے سے میڈیا کو ضروری رہنمائی دی۔ یہ رہنمائی نیب کی ذمہ داری میں شامل نہیں لیکن فرض شناسی تو فرض شناسی ہے نا جناب!

٭٭٭٭٭

سید پور (سیالکوٹ) کے دو کم سن بھائی بہن 8سالہ علی اور 12سالہ عائشہ سستا کولڈ ڈرنک پینے سے چل بسے دونوں کئی روز سے ضد کر رہے تھے کہ کولڈ ڈرنک پینا ہے ان کا باپ غریب مزدور تھا سستی بوتل لے آیا اس میں زہر ملا مشروب تھا۔

غربت مہنگی بوتل نہیں خرید سکتی تھی۔ بے ایمانی کا دھندا کرنے والے جعلی مشروب فروشوں نے سستا زہرپلادیاان بچوں نے نہ جانے کتنے عرصے کے بعد یہ فرمائش کی ہو گی۔