قیام پاکستان کے بعد یوں تو بہت سے ’’علما‘‘ نے شہرت پائی مگر بیشتر کی شہرت اور مقبولیت وقت گزرنے کے ساتھ گہنا گئی مگر دو’’مولانا‘‘ ایسے ہیں جن کی شہرت کا ایک بڑا سبب اپنے اپنے میدان میں بلند و بالا مقام تو ہے ہی مگر مولانا کا لاحقہ لگائے بغیر ان کی شخصیت کا مکمل احاطہ ممکن نہیں۔۔۔ صحافت میںمولانا چراغ حسن حسرت اور سیاست میں مولانا فضل الراحمن۔۔۔ ذکر تومیں سیاست کے مولانا فضل الرحمن کا ہی آگے چل کرکروں گا۔۔۔ مگر مولانا چراغ حسن حسرت اس لئے یاد آگئے کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میںمولانا چراغ حسن حسرت کا صحافت میں طوطی بولتاتھا۔۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا چراغ حسن حسرت جن کے نام کے ساتھ مولانا کالاحقہ لگ گیاتھا، ہرگز ہرگز۔۔۔ ’’مولانا‘‘ نہ تھے مولانا حسرت محض رند ہی نہیں۔۔ رند بلانوش تھے۔۔۔ لامذہب تو نہ تھے مگر دین سے بھی واسطہ نہ تھا۔۔ صحافت کاآغاز کلکتہ میں مولانا ابوالکلام کے مکتبے سے کیا۔۔۔ جہاں سے بابائے صحافت مولاناظفرعلی خان انہیں لاہور میں زمیندار اخبار میں لے آئے۔۔ روزنامہ زمیندار پہ زوال آیا تو روزنامہ امروز میں آگئے جس کے مالک مشہور سیاستدان میاں افتخار الدین اور مدیر اعلیٰ فیض احمد فیضؔ تھے۔۔ نثر، نظم، مذہب، تاریخ کونسا ایسا شعبہ تھا جن پر ان کی دسترس نہ ہو۔۔۔ اخبار کے مالک سے لے کر۔۔ دفتر کے چپڑاسی تک انہیں مولانا کہہ کر مخاطب کرتے۔۔۔ ہاتھ کی دو انگلیوں میں دبی سگریٹ جو دو تین کش لینے کے بعد پھینک دی جاتی۔۔ لمبی لمبی مونچھیں۔ پھولا ہوا پررعب چہرہ۔۔ مدیر کی کرسی پر بیٹھے ہیں تو مکمل مدیر۔ کافی ہاؤس کی مجلس میں آئے تو میر مجلس حتیٰ کہ کسی کوٹھے پر بھی چلے جاتے تو گانے والیاں جھک جھک سلام کرتیں۔۔ میاں افتخار الدین جو اس زمانے میں آزاد پاکستان پارٹی کے صدر بھی تھے ،امروز اورپاکستان ٹائمز کے مالک بھی تھے، ایک دن نیوز روم میں آکر مولانا حسرت سے شکوہ کرنے لگے کہ ان کی پارٹی کے جلسے کی خبر سنگل کالم میں لگائی گئی۔۔۔ جو اب میںمولانا حسرت اخبار کے مالک سے فرماتے ہیں۔۔ ’’مولانا‘‘ جلسہ بڑاہوتا صفحہ اول پر ڈبل کالم میں لگاتا۔ وہ تو جلسی تھا۔۔۔ آخری صفحے پر سنگل کالم میں لگ گئی ورنہ تو اندر کے صفحے تین پر لگتی۔۔۔ میاں افتخار الدین کی بد قسمتی دیکھیں کہ ایک اور سوال مولانا حسرت سے کربیٹھے۔۔ مولانا یہ جو چین میں چیانگ کائی شیگ اقتدار سے نکالاگیاہے تو اب کیاکرے گا۔۔۔ مولانا نے پہلے ایک لمبی ہوں لی اور پھر سگریٹ کاکش کھینچ کر فرماتے ہیں۔’’مولانا‘‘ اور کیا کرے گا۔۔اخبار نکالے گا، میاں صاحب پر کیا گزری ہوگی یہ تو ایک الگ بات ہے مگر آج کے مالکان میڈیا کو دیکھتے ہوئے سوچئے کہ یہ میاں افتخار الدین کا ہی حوصلہ اور اعلیٰ ظرفی تھی کہ طرہ دے گئے۔۔۔ مولانا کی اصل شہرت کالم نویسی تھی مگر ان کا ادب میں کیا مقام تھا اس کا اس سے اندازہ لگائیں کہ فیض ؔصاحب کے جیل کے دنوں میں ’’زنداں‘‘ نامہ شائع ہونے جارہاتھا اپنی بیگم ایلس سے کہا ایک نظر مولانا حسرت کو دکھادینا۔۔ زبان اور عروض کی کوئی غلطی نہ رہ جائے۔۔ ابتداء میں لکھاتھا میں یہ کالم مولانا فضل الرحمن پر باندھنے جارہاہوں کہ جو1988ء سے قومی اسمبلی کے ہرانتخاب میں مسلسل کامیابی کے بعد پہلی بار 2018ء کے الیکشن میں دونوں آبائی حلقوں سے شکست کھاگئے۔ مگر مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مولانا چراغ حسن حسرت اس لئے یاد آگئے کہ آج کے خودسر’’سرخیل‘‘ کالم کاروں، اور اینکروں میں سے بیشتر نے شاید ان کا نام بھی نہ سنا ہو۔ جہل خرد نے دن یہ دکھائے گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے مولانا فضل الرحمن کا خاندان گزشتہ تین دہائی سے اقتدار سے فیض یاب ہورہاہے۔۔۔سیاسی گھرانوں میں وراثت توبرصغیر پاک و ہند کی پرانی روایت ہے، دینی و مذہبی حوالے سے بھی پیری مریدی نسل در نسل چلتی ہے۔۔۔اور اس میں زیادہ دخل ان کے پیروں کاروں کا ہوتا ہے۔۔۔جو ایک چوکھٹ اور درگاہ پکڑلیں تو پھر پشت ہا پشت جاری رہتا ہے۔۔۔ مگر سیاست وراثت کی منفرد مثال مولانافضل الرحمن کے ہی دم سے قائم ہے ۔۔ ۔ پاکستان کی سب سے قدیم جماعت کے بانی مولانا مودودی کے بعد ان کے کسی صاحبزادے کے حصے میں جماعت کی امارت نہیں آئی۔۔بلکہ الٹاان کے صاحبزادے فاروق مودودی ہمیشہ جماعت اسلامی مخالف کیمپ میں رہے۔۔۔ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی کے صاحبزادوںمیں سے ایک انس نورانی سیاست میں ہرچند کے ہیںنہیں ہیں۔ اسمبلی تو کیا کبھی کونسل کی نشست بھی نہیں جیتے۔۔۔ مولاناسمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق ضرور ایک ممتاز دینی و سیاسی رہنما تھے۔۔۔ قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔۔۔ جن کے سبب مولانا سمیع الحق کو ورثے میں مدرسہ اکوڑہ خٹک بھی ملا۔۔۔ اور سیاسی حلقہ بھی، مگر ان کے صاحبزادے ایک بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد گمنامی میںچلے گئے۔جہاں تک مولانا فضل الرحمن کے والد محترم مفتی محمود کا تعلق ہے۔۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ حضرت مولانا مفتی محمود کو جائے گا۔۔۔ کہ جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کومدارس کی حد تک ہی نہیں سیاسی طورپر بھی اتنا مضبوط کردیا۔۔70ء کے انتخابات میں وہ دو صوبوں میں ایک بڑی جماعت بن کر ابھری۔۔۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت جمعیت کے بغیر اقتدار میں نہیں آسکتی تھی۔۔اور صوبہ سرحد یعنی آج کے کے پی میں توپہلے منتخب وزیراعلیٰ کا اعزاز ہی مفتی محمود کو حاصل ہوا اور پھر ان کی اصول پسندی دیکھیں بلوچستان میں نیپ کی حکومت برطرف کی گئی۔۔ تو احتجاجی طورپر انہوں نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔۔۔ 70ء میں بھٹو صاحب کے خلاف چلنے والی نظام مصطفی کی تحریک کے قائدین میں محترم مفتی محمود صف اول میں تھے۔۔ محترم مفتی محمود نے بہت طویل عمر نہیں پائی۔۔۔ جمعیت کی صدارت جب مولانا فضل الرحمن کو ملی تب وہ جوان تھے۔۔ بلاشبہ انہوں نے جمعیت کو چند برسوںمیں ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بنادیا۔۔ 88ء کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے، ان میں مولانا نہ صرف خود کامیاب ہوئے بلکہ جمعیت پارلیمنٹ میں کبھی تیسری اور کبھی چوتھی حیثیت سے ابھری، اور2002میں افغان وار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا نے متحدہ مجلس عمل کی بنیاد ڈال کر مذہبی جماعتوں کو ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت کی حیثیت سے لاکھڑا کردیا۔۔ مولانا فضل الرحمن گزشتہ 2دہائی سے دونوں مین اسٹریم جماعتوں یعنی ن لیگ اور پی پی پی کو اقتدار میں لانے میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔۔ مولانا فضل الرحمن کے ناقد اسے ان کی موقع پرستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ خاص طورپر گزشتہ تین حکومتوں میں کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے جو انہوں نے ثمرات سمیٹے اس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتارہا۔۔ اور یہ بہرحال اپنی جگہ حقیقت ہے۔ کے پی میںتحریک انصاف کی مقبولیت اور2013ء میں جو حکومت بنی ۔۔۔ اس نے جمعیت کی اس کے گڑھ میں ہی معذرت کے ساتھ سیاسی زبان میں قبر کھوددی۔۔۔2018ء میں مولانا سمیت ان کا سارا خاندان ہارگیا۔۔ ان کے صاحبزادے ضرور قومی اسمبلی میں کامیاب ہوئے۔۔۔ اور جو اب انکے سیاسی وارث کے طورپر بھی سامنے آرہے ہیں۔۔۔ کیا اس شکست کے بعد یہ سمجھا جائے ان کا سیاسی کیریئر اختتام کو پہنچا۔۔۔ کہ پارلیمنٹ کے سامنے مولانا کی تمام تر کوششوں کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کاشو بری طرح فلاپ ہوگیا۔۔ جس نے مزید مولانا فضل الرحمن کے سیاسی مستقبل کو سوالیہ نشان بنادیاہے۔