میں نے رومی کو دیکھاجب وہ جمعہ کے ہفتہ وار خطبے کے لئے مسجد تشریف لائے۔انہوں نے قیمتی لباس پہن رکھا تھا۔ ان کے بادل جیسے سفید گھوڑے کی ایال میں سونے کے نازک موتی پروئے ہوئے تھے۔اس کی زین پہ باریک زری کا کام تھا اور قونیہ کی دھوپ میں اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کئے دیتی تھی۔ عشاق و طلاب کے پر مشتاق ہجوم میں وہ جہاں سے گزرتے مشک و عنبر کی خوشبو پھیل جاتی۔علم و حکمت کی پراسرار مہک اس کے علاوہ تھی۔تقرب الہیہ اور حکمت الوہی کی رازداری کی مہک جس سے مشام جان معطر کرنے چہار سمت سے دیوانے امڈ آئے تھے۔مسجد کا صحن ان کی آمد سے قبل ہی بھر چکا تھا۔ ایسا ہر بار ہوتا تھا۔ کوئی محروم نہیں رہنا چاہتا تھا۔میں بھی ان میں سے ایک تھا۔جب مولانا رومی نے خطبہ شروع کیا تو سناٹا چھا گیا۔ گویا ایک ایک لفظ بیش قیمت موتی ہے جو سماعت کی گرفت میں آنے سے رہ گیا تو بڑے نقصان کا اندیشہ ہے ۔ سناٹے کا ایک آب رواں تھا جس میں رومی کی اسرار بھری آواز کوئی خراش ڈالے بغیر تیر رہی تھی۔وہ خدائے واحد کے شہہ رگ سے قریب ہونے اور تکلیف و مصائب کو اس کی قربت کا سبب بننے کی حکمت بیان کررہے تھے۔ سب کچھ اچھا اور شاندار لگ رہا تھا۔ اچانک مجھے احساس ہواکہ رومی کو کیا معلوم کہ غم کیا ہے۔اذیت کیا ہے اور الم و مصیبت کسے کہتے ہیں۔میں نے اپنے ہاتھوں پہ نظر ڈالی جس کی چھ انگلیاں کوڑھ کے باعث جھڑ چکی تھیں اور ساتویں جھڑنے والی تھی۔روز میرا کوئی نہ کوئی عضو ساتھ چھوڑ جاتا تھا۔ لوگ مجھے بھیک اس لئے دیتے تھے کہ کسی نامعلوم سبب کے باعث وہ سمجھتے تھے کہ میں مستجاب الدعوات ہوں اور خیرات میں ڈالے چند سکے ان کے حق میں میری دعا سیدھی عرش پہ لے جائیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ وہ سکے اتنی دور سے پھینکتے کہ میرے جسم سے اٹھتا تعفن اور چھوت کے جراثیم انہیں چمٹ نہ جائیں۔میں روز مر رہا تھا اور اس روز کے مرنے میں میرا کوئی قصور نہ تھا جیسا کہ خیال کیا جاتا تھا کہ کوڑھ کسی گناہ کی سزا ہے۔ میں نے وجیہہ اور بارعب چہرے اور قیمتی لباس میں ملبوس رومی کو دیکھا جو شکر پہ خطبہ دے رہے تھے۔ آخر ایک ایسے شخص کو مصائب و آلام پہ تبلیغ کا حق کس نے دیا جو کبھی ان سے نہ گزرا تھا اور قیمتی لباس ، عمدہ گھر اور بے حد وحساب جاہ و وقاراور حب عوام سے لطف اندوز ہوتا ایک شخص مجھ جیسے دھتکارے ہوئے مردودِ خلائق شخص کو شکرگزاری پہ کیسے قائل کرسکتا تھا۔ میں نے بیزاری سے سوچا اور وحشت سے بھاگ کھڑا ہوا۔ خلق خدا میری بدنصیبی اور جہالت پہ تاسف بھری نظروں سے مجھے دیکھتی رہی،میں جسے رومی کا خطبہ سننے کا موقع نصیب ہوا لیکن میں بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ میں روز مر رہا تھا۔ یہ حکایت فرضی بھی ہوسکتی ہے جو میں نے ترک مصنفہ ایلف شفق کے ناول ’چالیس چراغ عشق کے ‘میں پڑھی اور اپنے الفاظ میں بیان کی۔ میں نے بارہا سوچا کہ انسان کو خود کشی پہ کیا شے مائل کرتی ہے۔زندگی جو امکانات اور اسباب سے بھری ہوئی ہے کیوں اتنی بوجھل اور ناقابل برداشت ہوجاتی ہے کہ انسان اس سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے جبکہ اسے یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ آگے کیا شے اس کی منتظر ہے۔ مایوسی کو کفر کہا گیا ہے اور اسی لئے خودکشی حرام قرار دی گئی لیکن کیا خودکشی بس اسی لئے حرام ہے۔میں نے غور کیا تو مجھے ادراک ہوا کہ خودکشی مایوسی سے زیادہ ناشکری کا نتیجہ ہے۔ جب آپ کو یہ لگتا ہے کہ آپکوجو کچھ حاصل ہے وہ اس سے کم ہے جو آپ کو حاصل ہونا چاہئے تو آپ ناشکرے ہوجاتے ہیں اور اپنی من چاہی موت کا انتخاب کرکے ایک طرح سے قادر مطلق کی تقسیم پہ احتجاج کرتے ہیں۔یہ کتنی بڑی غداری ہے کہ جس پروردگار نے آپ کو وہ سب کچھ دیا جس کی آپ نے آرزو بھی نہیںکی،آپ کسی معاملے یا کسی شخص سے مایوس ہوکر سرے سے ان تمام نعمتوں کا انکار کردیں اور زندگی سے ہی منہ موڑ لیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے میں ایک کتا پالوں، اسے کھلائوں پلائوں،موسم کی سختیوں سے بچائوں اور وہ صرف اس لئے مجھے چھوڑ کر بھاگ جائے کہ پڑوسی اس سے پیار نہیں کرتا۔ وہ پڑوسی جس نے کبھی اسے روٹی کا ٹکڑا بھی نہیں ڈالا۔ میرا ممنون احسان، میرا پالا پوسا، میرا محتاج جانور ایسا نامعقول رویہ اپنائے تو اسے سادہ لفظوں میں غداری کہیں گے۔خودکشی کسی معاملے میں مایوسی کی ایسی ہی نامعقول غدارانہ حرکت ہے جو مالک الملک کو اس لئے پسند نہیں آتی کہ آپ جو اس کے ٹکڑوں پہ پل رہے تھے ۔مایوس کسی اور سے ہوئے اور ناشکری اس کی نعمتوں کی کر ڈالی۔ ناشکری بھی ایسی کہ اس کے بعد رجوع کی کوئی گنجائش ہی نہیں کیونکہ ہر تلافی بس اس زندگی تک تو ہے۔یہ قہار وجبار کے غیظ و غضب کو آواز دینے کی بات ہے۔منطق سمجھ میں آنے والی ہے لیکن کوڑھی نے رومی کو لاجواب کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے پاس کون سی نعمت ہے جس کی وہ ناشکرگزاری کرے؟جب وہ صحتمند تھا تو فاقے کرتا تھا۔ نان شبینہ کو محتاج تھا۔نہ سر پہ چھت تھی نہ پیٹ میں روٹی۔ جب کوڑھ کا پہلا دھبہ اس کی جلد پہ نمودار ہوا تو اسے علم ہوا کہ گزشتہ آلام تو بہت کم تھے۔ آج اس کا ایک ایک عضو گلتا اور جھڑتا جارہا ہے، وہ دھیرے دھیرے معدوم ہوتا جارہا ہے۔ پہلے بھی کوئی منہ نہ لگاتا تھا اب تو اسے ویرانے میں دھکیل دیا گیا ہے۔ہاں پہلے وہ اکثر بھوکا سوتا تھا اب کوئی نہ کوئی روٹی ڈال جاتا ہے۔ اسے بھوکا نہیں سونا پڑتا تو کیا وہ اس کا شکر کرے کہ خلق خدا کے تنفر اور ترحم آمیز نفرت کے ساتھ ہی سہی اسے روٹی تو میسر ہے؟آخر اس کے پاس زندہ رہنے کے لئے کونسی نعمت ہے جس کی وہ شکرگزاری کرے؟ اور اس زندگی کا خاتمہ کرکے وہ کس غداری کا مرتکب ہوگا؟آخر قہار و جبار خدا س سے کس نعمت کا حساب لے گا؟رومی خاموش ہیں۔ میں بھی خاموش ہوں۔اپنے ائیرکنڈیشنڈ کمرے میں لیپ ٹاپ پہ حکیمانہ دانش کے موتی رولنا کتنا آسان ہے جبکہ پاس منرل واٹر کی بوتل بھی رکھی ہو اور ابھی ابھی آپ نے بھاپ اڑاتی چائے کا ایک فرحت بخش گھونٹ بھرا ہولیکن ایک سوال ہے جس نے یہیں اسی مقام سے جنم لیا ہے۔ کیا حکمت و دانش فراغت و فارغ البالی کی دین ہے؟بھرا ہوا پیٹ فارسی بولتا ہے اور خالی پیٹ ہر زبان میں روٹی پکارتا ہے۔ کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں ہے کہ دانش کبھی خالی پیٹ پہ نہیں اترتی۔ اس کے لئے تو سچ بس دو ہی ہیں۔ ایک وہ روٹی جو پیٹ میں ہے دوسری وہ جو پلیٹ میں ہے۔ جس کی کل فکر نان جویں کے گرد گھومتی ہو وہ خلق خدا کے آلام جان تو سکتا ہے ان کا علاج نہیں کرسکتا۔علاج وہ بھی نہیں کرسکتا جس کا پیٹ بھی بھرا ہو اور پلیٹ بھی۔ ہاں وہ ضرور کرسکتا ہے جو اپنی پلیٹ میں رکھی روٹی کسی کی خالی پلیٹ میں ڈال دے ۔ اسے خود اختیاری فقر کہتے ہیں۔ فقر وہ نہیں ہے جو حالات کے جبر نے طاری کردیا ہو فقر وہ ہے جو بھری ہوئی پلیٹ کی سہار رکھتے ہوئے بھی اپنے لئے بس ایک روٹی کافی سمجھے۔فقر وہ ہے جب احد کے پہاڑ سونے کے بنائے جاسکتے ہوں لیکن گھر میں تین تین دن چولھا نہ جلے۔ یہ تو خیر پیغمبرانہ تخصص ہے جو ہر ایک کو حاصل نہیں ہوسکتا لیکن جب اپنی اشتہا کو کسی مستحق کے لئے بقدر استطاعت روک لیا جائے تو حکمت الہیہ اپنے اسرار منکشف کرنے لگتی ہے۔ اسی رک جانے اور روک لینے کو تقویٰ کہا گیا ہے۔ جو جتنا زیادہ متقی ہوگا دانش اس پہ اتنی ہی منکشف ہوگی۔تقویٰ دانش کی معراج ہے۔یہ بھرے ہوئے نفس پہ نہیں اترے گی۔دانش و حکمت، مصائب و آلام اور فاقے سے نہیں فقر خود اختیاری سے خود کو متقی پہ کھول دیتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو رنج و الم سے بھری اس دنیا میں سارے فاقہ کش رومی ہوتے لیکن وہ نہیں ہوتے۔گاہے کوئی دکھ آپ پہ کوئی راز منکشف کردیتا ہے۔ آپ حکمت الہیہ کے تھوڑا قریب ہوجاتے ہیں لیکن ایسا کسی حکمت عملی کے تحت ہوتا ہے۔ ہر بھوک فاقہ نہیں ہوتی اور ہر فاقہ روزہ نہیں ہوتا۔ روزہ تو اختیاری ہوتا ہے ۔اضافی روٹی کسی کو دے دینے کے شعوری اختیارسے آپ ایک شخص سے اس کی بھوک کے نتیجے میں حاصل ہونے والی حکمت خرید لیتے ہیں۔پھر کیا فرق پڑتا ہے اگر آپ رومی ہیں، آپ کا لباس قیمتی ہے یا آپ کے بادل جیسے سفید گھوڑے کی ایال میں سونے کے موتی پروئے گئے ہیں۔آپ رومی ہیں اگر آپ کا فقر اختیاری ہے، ورنہ آپ کسی بھاگ کھڑے ہونے والے کوڑھی سے زیادہ متامل، رنجیدہ اور شکوہ کناں ہیں۔