ترکی کے معروف دانشور اور ناول نگار مہمت مرات الڈان نے شاید پاکستان کی سیاست دیکھ کر ہی کہا تھا’’ سیاست دانوں کے بجائے بندروں کو ملکوں پر حکومت کرنے دیں۔ کم از کم وہ صرف کیلے ہی چرائیں گے! مہمت مرات الڈان کی مایوسی اور ناامیدی کے باوجود ولیم جے فیڈرر کا ماننا ہے کہ ملک کو قانون کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ قوانین کو سیاستدان کنٹرول کرتے ہیں۔سیاستدانوں کو ووٹر کنٹرول کرتے ہیں۔ ووٹروں کو رائے عامہ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ رائے عامہ کو میڈیا ، تعلیم اور انٹرنیٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ میڈیا ، تعلیم اور انٹرنیٹ کو کون کنٹرول کرتا ہے۔ اسے پاکستانی سیاست کا کمال کہیئے یا پاکستانیوں کی بدقسمتی کیا ملک کو کبھی قانون کے ذریعے کنٹرول کیا گیا نا ہی قانون سیاستدانوں کے بس میں رہا۔ سیاستدانوں کو ووٹر کیا کنٹرول کرتے ان کی تو اپنی اہمیت ووٹ دینے کی حد تک رہی ۔ صرف رائے عامہ ہی ہے جس کے ذریعے ووٹر کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔رائے عامہ کو میڈیا اور تعلیم کے ذریعے ضرور کنٹرول کیا جاتا رہا البتہ ولیم جے فیڈرر کے برعکس پاکستان میں اکثر یہ دعویٰ ہوتا رہا ہے کہ میڈیا کوکون کنٹرول کرتا ہے۔ اس لئے سیاستدانوں نے بھی قانون ووٹر اور رائے عامہ کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے اس’’ جادوئی طاقت ‘‘کو اقتدار تک پہنچنے کے لئے وسیلہ بنانے کے لئے ہی محنت کی ہے۔ ہر پارٹی کی کوشش رہی کہ غیبی طاقت کا وزن اس کے پلڑے میں رہے۔ چھ دھائیوں تک اسی سیاسی دائرے میں سفر کرنے کے بعد میثاق جمہوریت کے ذریعے دائرے کے سفر سے نکلنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تو میثاق کرنے والے ہی دائرے سے باہر نکال دیئے گئے تیسری متبادل قیادت عمران خان کے من میں بھی تین سال کرسی اقتدار میں بیٹھنے کے بعد جب اقتدار کے ساتھ اختیار کی خواہش مچلنے لگی اور انہوں نے خود کو بااختیارکرنے کی ٹھانی۔ مگرپنجاب میں حکومت ہوتے ہوئے بھی خود پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ دائر نا ہونے پر ان کو اصل بااختیار کی سمجھ آگئی۔ اب تو بس لہو گرم رکھنے کے لئے قانون اور انتخابات کی سیاست کر رہے ہیں۔ بات اس لئے نہیں بن رہی کہ اقتدار کا ہما جس کے سر پر بیٹھا ہے وہ بظاہر اختیار کے بغیر اقتدار پرا راضی ہے۔ البتہ مسلم لیگ ن میں کچھ قائدین اختیار نہ ہونے کا شکوہ ضرور کر تے ہیں مسلم لیگ ن کے جاوید لطیف تو حکومت کے بے بس اور بے اختیار ہونے کا اعتراف میڈیا پر کرنے کے بعد اسمبلی میں بھی پھٹ پڑے کہ ان کی پارٹی کو اپنے قائد کے بغیر بندھے ہاتھ پائوں کے ساتھ انتخابات میں اترنا کسی صورت قبول نہیں۔جاوید لطیف میاں نواز شریف اور مریم نواز کے قریبی ساتھیوں میں تصور کئے جاتے ہیں مریم نواز تو پہلے ہی اعلان کر چکی ہں کہ پہلے پلڑے برابر ہوں گے تب الیکشن ہوں گے۔ مریم نواز کے پلڑے برابر کرنے کے مطالبے کا ہر کوئی اپنے اپنے ذھن کے مطابق معنی نکال رہا ہے کچھ سمجھتے ہیں کہ پلڑے برابر ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ عمران خان بھی میاں نواز شریف کی طرح نااہل ہوں ان کے خیال میں مقدمات بنانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا اب نااہل قرارہونے کا حتمی مرحلہ باقی ہے اور اس مرحلے میں فریقین اپنا زور لگا رہے ہیں۔ عمران خان قانون اور عدالت پر آس لگائے بیٹھے ہیں اور حکمران اتحاد کی نظریں غائب کی مدد پر ٹکی ہیں۔ عدالت سیاست کے کیچڑ سے خود کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے سیاستدانوں سے راستہ تلاش کرنے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ البتہ ان حالات میں ایک درپردہ قوت جماعت اسلامی جس کو تمام حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کے امیر ملک کو بند گلی سے نکالنے کے لئے متحرک ہوئے ہیں۔ مولانا سراج الحق سے عمران خان اور حکمران اتحاد کی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد یہ حقیقت تو آشکار ہو چکی ہے کہ قانون سیاستدان اور عوام سب اس اضطرابی حالت سے ملک کو نکالنے کے خواہشمند ہیں۔حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کوئی امر اس میں مانع بھی نہیں سوائے انا اور تھوڑی سی سیاسی قربانی کے۔ باوثوق ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ عمران خان کو یہ بات مکمل طور پر سمجھ آ گئی ہے کہ اس ملک میں چور ڈاکو کس طرح بنائے جاتے ہیں اور کس طرح نا اہل ہوتے ہیں۔عمران خان کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کی بنیادیں احتساب کے جن ستونوں پر استوار کی تھیں اگر اب وہ یہ تسلیم کر لیں کہ بنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی تھی تو ان کی سیاست ہی ختم ہو جاتی ہے۔ کوے کو سفید کہنے میں ان کی سیاسی بقا ہے۔ دوسری طرف مریم نواز یہاں تک کہ میاں نواز شریف پر بھی یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ عمران خان آج کی سیاست کا جزو لازم بن چکے ان کو سیاست سے نکالا گیا تو ساتھ ہی ملک سے جمہوریت بھی رخصت ہو جائے گی۔ یہ بات میاں نواز شریف مریم نواز اور ان کے معتمد خاص جاوید لطیف کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی قیادت پر عیاں ہو چکی۔یہ سب کچھ جاننے کے بعد مولانا سراج الحق نے سیاسی نیّا کنارے لگانے کی کاوشیں شروع کی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ سیاستدان انا سے نکل کر سیاسی حقیقت کا سامنا کریں ذرائع کے مطابق دونوں طرف سے درمیانی راستہ قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار ہو چکا ہے۔ عدالت کا وسیلہ بھی تسلیم کر لیا جائے گا۔ وزیر اعظم اس بات پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں کہ انہوں نے عمران خان سے مذاکرات کے لئے جو معافی کی شرط رکھی تھی اس سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں مریم نواز بھی پلڑوں کو برابر تسلیم کر لیں گی مگر عمران خان کم از کم یہ تو مان جائیں کہ چور ڈاکوئوں کی رائے عامہ بنا کر انہیںاور قوم کو گمراہ کیا گیا ہے۔ اب مسئلہ تویہ بھی ہے کہ یہ گمراہ کرنے کا ’’ملبہ‘‘ کس کے سر ڈالا جائے! عدالتوں پر ! شاید یہ بھی آسان نہ ہو پھر کس پر! اب جب کہ مسئلہ کو حل کرنے کی ٹھان لی گئی ہے تو اس کاحل بھی تلاش کر لیا جائے گا صرف شرط یہ ہے کہ سراج الحق قانون سیاستدان ووٹر رائے عامہ سب اکٹھے ہوں تو ملک کے خلاف اس گھنائونی سازش میں ’’غیر ملکی ہاتھ‘‘ تلاش کرنا مشکل نہیں ہو گا۔