سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا امریکہ سے دشمنی خطرناک ہو سکتی ہے مگر امریکہ سے دوستی مہلک ہوتی ہے۔ کسنجر کا قول پاکستان کے حوالے سے1971ء میں پہلی بار اس وقت سچ ثابت ہوا تھا جب پاکستانی امریکی بحری بیڑے کے انتظار میں اپنا مشرقی بازو کٹوا بیٹھے اور 90ہزار فوجی بھارت نے قیدی بنا لئے۔پاکستان کے دوست امریکہ نے یحییٰ خان کو مشرقی پاکستان کو 23مارچ 1972ء کو خود مختاری دینے کا اعلان کرنے کی بھی مہلت نہ دی۔ مشرقی بازو کٹوانے کے بعد پاکستانی مضطر خیر آبادی کی طرح دھائی دیتے رہے: اک ہم ہیں کہ ہم نے تمہیں معشوق بنایا اک تم ہو کہ تم نے ہمیں رکھا نہ کہیں کا مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی دوستی سے توبہ کرنے کا مشورہ دیا مگر میرؔنے تو عاشقوں کی صفت ہے کہ ’’بیمار ہوئے جس کے سبب ،اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں‘‘ بتائی تھی ’’عاشقان امریکہ ‘‘ بھٹو کے فلسفے کو سولی پر چڑھا کر ایک بار پھر اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے افغان جہاد میں کود پڑے۔ مگر دنیا کی واحد سپر بننے کے بعد معشوق کی پابندیاں حصہ میں آئیں۔ جسے ایک سوراخ سے دو بار ڈسے جانے کے بعد سمجھ آ جائے وہ ’’عاشق‘‘ ہی کیا! امریکہ نے وسائل پر قبضے کے لئے افغانستان پر چڑھائی کی تو مشرف نے تیسری بار پاکستانیوں کا پائوں ڈسوانے کے لئے اسی سوراخ میں ٹھونس دیا۔70ہزار جانوں کا نذرانہ ایک سو ارب ڈالر کی سچا وفادار عاشق ثابت کرنے کے لئے قربانی پیش کی مگر قبول نہ ہوئی اور بائیڈن نے ڈیمو کریٹس کانگریس کی فنڈز ریزنگ تقریب میں پاکستانیوں کو دنیا کی خطرناک ترین قوم اور پاکستان کے جوہری پروگرام کو بے قاعدہ قرار دیتے ہوئے ’’عاشقوں‘‘ کے خلوص کو ایک بار پھر دھتکار دیا۔ امریکی صدر کے پاکستان کے بارے میں خیالات اس بے زاری کی عکاسی کرتے ہیں جو امریکہ نے پاکستانی وزیر خارجہ کے امریکی در پر ہفتوں کی حاضری سے محسوس کی۔ بلاول امریکہ سے نکلے ہی تھے کہ آرمی چیف کی امریکی حکام سے ملاقاتیں شروع ہو گئی تھیں امریکہ کی طرف سے اس غیر متوقع ستائش کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے پھر مضطر کی طرح گونگلوئوں سے مٹی جھاڑی ہے: برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں نہیں بھلے ہو تم جو کسی کا بھلا نہیں کرتے جب ہنری کسنجر نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ امریکہ کی دشمنی صرف خطرناک ہو سکتی ہے مگر دوستی مہلک ہو گی تو پھر گلہ کیسا! مگر اس بار امریکہ کسی کا بھی بھلا کرنے پر آمادہ نہیں۔ تبھی تو جس سعودی پٹرول پرامریکی معیشت کھڑی ہے۔سعودی عرب کی اوپیک پلس میں پٹرول کی قیمتو ںمیں استحکام کے لئے 20 ملین بیرل روزانہ پیداوار کم کرنے کی حمایت کی پاداش میں امریکی ڈیمو کریٹس سینیٹر کرس مرفی نے کانگریس میں امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب کو امریکی حکم کی نافرمانی کی سزا دی جائے۔مرفی نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگانے کی تجویز ہی پیش نہیں کی بلکہ یہاں تک مطالبہ کر دیا ہے کہ امریکہ نے سعودی تیل کے ذخائر کی حفاظت کے لئے سعودی عرب میں جو ایئر ڈیفنس سسٹم نصب کر رکھا ہے اسے بھی سعودی عرب سے اٹھا کر یوکرائن میں نصب کر دیا جائے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے بارے میں امریکی سوچ عالمی میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔امریکی منصف بریڈ بلنکن شپ نے آر ٹی نیوز میں اپنی تحریر میں امریکی دبائو قبول نہ کرنے کو سعودی عرب کے شاعرانہ جواب سے تشبیہ دی ہے۔ سعودی عرب امریکہ کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نا صرف برکس اور شنگھائی تنظیموں میں باضابطہ شمولیت پر آمادگی ظاہر کر رہا ہے بلکہ سعودی ولی عہد کے فرسٹ کزن نے امریکہ کو دو ٹوک الفاظ میں للکارتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ امریکہ طاقت کے زعم میں سعودی سلطنت کو کمزور کرنے کی جسارت کرتا ہے تو پھر سعودی عوام بھی امریکہ کے خلاف جہاد اور شہادت کے لئے تیار ہیں۔پاکستان سے شہہ پا کر امریکہ صرف سعودی عرب کو ہی دھمکیاں نہیں دے رہا بلکہ چین کی ترقی کا راستہ روکنے کے لئے تائیوان کو تھپکی بھی دے رہا ۔ امریکہ کی من مانیوں سے عالمی برادری اس حد تک عاجز آچکی ہے کہ امریکہ کا نیٹو اتحادی ترکی بھی امریکہ سے بلیک میل ہونے کے بجائے روس کے گیس حب پلان کا حصہ بننیپر آمادگی ظاہر کر چکا ہے۔ سعودی عرب سے امریکہ ایئر ڈیفنس سسٹم نکالتا ہے تو سعودی عرب روس سے ایس فور سسٹم خریدنے میں لمحہ بھر تاخیر نہیں کرے گا۔ روس سعودی عرب کے علاوہ خلیج ممالک بالخصوص امارات سے تعلقات کو بہتر کر رہا ہے روس کی ،مشرق وسطیٰ میں دلچسپی دھونس کی امریکی پالیسی کے تنگ مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے لئے ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہو رہی ہے۔ امریکی دھمکیوں کے بعد سعودی عرب اور پاکستان میں اتنا فرق ضرور واضح ہوگیا ہے کہ امریکی صدر کی ہرزہ سرائی کے بعد بلاول بھٹو نے قوم کو خوشخبری سنائی ہے کہ بائیڈن کے بیان سے پاک امریکہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے پاکستان اور سعودی عرب کے رویوں میں فرق کو سمجھنا ہو تو ہمیں علامہ مشرقی کی یکم جون کی کراچی میں تقریر پر غور کرنا ہو گا۔ سرور باری نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط اور سیاستدانوں کے کمزور ہونے کا ذکر انہی سطور میں کیا۔سرور باری کی بات کی گونج اب پارلیمنٹ میں ریاض حسین پیرزادہ ‘ خواجہ آصف اور شیریں رحمان کے بیانات کی صورت میں سنی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ ایسی باتیں کرنے والے یا تو ملک چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں یا وہ کہہ سکتے ہیں جن کے پارلیمنٹ میں بات کرنے پر کارروائی ہی ممکن نہ ہو۔ جو بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ پاکستانی امریکہ کے عشق کے جنون سے آزاد ہوتے محسوس ہو رہے ہیں جلد یا بدیر ’’عاشقان‘‘ کو بھی امام بخش نا سخ کا یہ شعر سمجھ آ جائے گا: معشوقوں سے امید وفا رکھتے ہو ناسخ ناداں کوئی دنیا میں نہیں تم سے زیادہ