حاجی صاحب! پچھلے ہفتے بڑا دلچسپ اور عجیب واقعہ دیکھنے اور سننے میں آیا‘ وہ کیا؟ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پروزیراعظم کی تقریب حلف برداری دکھائی جا رہی تھی‘ مہمان ایوان صدر میں داخل ہو رہے‘ صحافی آئے‘ عسکری قیادت‘ غیر ملکی سفیر‘ خواتین حضرات‘ وزیراعظم کا خاندان‘ دوست احباب‘ چاروں صوبوں کے گورنر‘ سابق وزیراعظم شہبازشریف اور بعض سابق وزرا ‘ سینٹ کے چیئرمین‘ اسمبلیوں کے سپیکر‘ مرکزی وزارتوں کے سیکرٹری‘ سب لوگوں کی تشریف آوری‘ درجہ بدرجہ اپنی نشستوں کو سنبھالتے ہوئے بالتفصیل دکھایا گیا لیکن اس عرصے میں صدر پاکستان کی کوئی جھلک نظر آئی نہ وزیراعظم دکھائی دیئے اور نہ ہی صدر کو حلف لیتے اور وزیراعظم کو حلف پڑھتے دکھایا گیا‘ بس مہمانوں کی آمد اور اپنی نشستوں کو سنبھالنے کی جھلکیاں بالتفصیل دکھائی دیتی رہیں پھر اس کے ساتھ کہ حلف برداری کی پروقار تقریب اختتام پذیر ہوئی‘ اب مہمانوں کو ایوان صدر سے رخصت ہوتے دکھانے کے ساتھ ہی دیگر خبریں نشر ہونا شروع ہوگئیں‘ کیا یہ باعث تعجب نہیں کہ جس شخص کے منصب سنبھالنے کے لیے یہ تقریب منعقد ہوئی پوری خبر میں اس کی تصویر نظر آئی نہ ہی اس کا ذکر آیا نہ ہی صدر مملکت دکھائی دیئے‘ یہ سب کچھ سرکاری نشریاتی ادارے یعنی پی ٹی وی پر دیکھنے کو ملا‘ حاجی اسلم صاحب! چیخ اٹھے‘ ناممکن ناممکن ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ آخر نشریاتی ادارے نے اس کی کوئی تو وضاحت پیش کی ہوگی‘ ان سب کی نوکریاں خطرے میں ہیں بلکہ اب تک سارے برطرف کئے جا چکے ہوں گے‘ نہیں نہیں ادارے کے سربراہ نے وضاحت کی ہے کہ خبرنامہ میں اس خبر کے لیے پانچ منٹ رکھے گئے تھے وہ سارا وقت مہمانوں کی آمد اور نشست اور رخصتی کے مناظر میں ختم ہوگیا‘ یوں صدر اور وزیراعظم کے لیے وقت اور فلم کم پڑ گئی‘ چوہدری صاحب‘ ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں ایسا ہوا بھی نہیں لیکن اتنا ہی اہم اور اس سے ملتا جلتا واقع ہو چکا ہے‘ یہ سچ بھی ہے اور کئی دن تک پاکستان کے اندر اور دنیا بھر میں یہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ حاجی صاحب نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا‘ وہ کیا؟ یہ کارنامہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکاء اشرف نے انجام دیا۔ 14 اگست یوم آزادی کے موقع پر کرکٹ ورلڈ کپ کی نسبت سے پاکستان کرکٹ کی تاریخ پر مشتمل فلم دکھائی جا رہی تھی‘ اس میں قیام پاکستان سے بابراعظم کی قیادت تک ہر واقعہ پوری وضاحت سے دکھایا گیا‘ لیکن پاکستانی کرکٹ ہسٹری کا سنگ میل اور قابل فخر 1992ء کا ورلڈ کپ غائب کردیا گیا‘ ورلڈ کپ دکھایا گیا نہ ہی دنیائے کرکٹ کی سو برس کی تاریخ میں سب سے حیرت انگیز اور پرکشش کپتان عمران خان کی کوئی جھلک نظر آئی۔ دنیائے کرکٹ کے مورخ‘ تجزیہ کار اورکھلاڑی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ کھیلوں کی تاریخ میں کپتان عمران خان کا وہی مقام اور مرتبہ ہے جو باکسنگ کے اساطیری کردار محمد علی کلے کا ہے‘ جب دنیا بھر میں تو تکار ہوئی‘ پاکستان میں کرکٹ کے شیدائی اور نئے پرانے کھلاڑیوں نے تنقید کی‘ نوجوانوں نے طنز کے نشتر چلائے‘ عالمی میڈیا نے مذاق اڑایا‘ ذکاء اشرف اس مقام تک پہنچ گئے جہاں آجکل ہمارے محبوب قائد نوازشریف اور ہر دلعزیزی سابق سپہ سالار باجوہ فائر ہیں تو وضاحت دی کہ دراصل ہماری کوئی بدنیتی نہیں تھی‘ فلم کم پڑ گئی‘ فلم کا دورانیہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ورلڈ کپ 92ء نہیں دکھایا جا سکا تھا‘ اب وہ حصہ جاری ہو گیا ہے۔ حاجی صاحب! خدا لگتی کہیے اب آپ اس کو کیا کہیں گے‘ کیا یہ واقعہ اس سے کم اہمیت کیساتھ حماقت کو ظاہر نہیں کرتا ؟ ہاں مگر پاکستان کرکٹ بورڈ نے وضاحت تو کی ہے‘ وضاحت کیا ہے؟ ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ واقعی انہوں نے ایسا عذر تراشا جو یقینا گناہ سے بھی کچھ بڑھ کر ہی ہے‘ ہمارے بڑے بھائی چوہدری محمد امین صاحب عذر گناہ بدتراز گناہ‘ پر ایک بادشاہ اور وزیر کی کہانی سنایا کرتے تھے‘ آپ جانتے ہی ہیں کہ دور وسطیٰ کے بادشاہ بس بادشاہ لوگ ہی ہوا کرتے تھے‘ بات بات پر بگڑ جانا‘ بے وجہ بے سبب‘ کسی کی گردن مارنا‘ اندھے کنویں میں پھینک دینا‘ ہاتھی کے پائوں نیچے کچل ڈالنا‘ گھوڑے کے پیچھے باندھ کے گھسیٹنا‘ آج کے بادشاہ لوگ بھی کچھ کم نہیں‘ اٹک جیل‘ قلعہ حصار‘ وزیر آباد میں فائرنگ اسکواڈ‘ خیر بات ہورہی تھی بادشاہ‘ وزیر اور عذر گناہ کی۔ بھرے دربار میں کسی بات پر وزیر نے کہا یہ تو وہی بات ہوئی کہ عذر گناہ بدتراز گناہ‘ بادشاہ سلامت اصل موضوع بھول کر وزیر کے بولے جانے والے محاورے کو پکڑ کر بیٹھ گئے‘ ہاں‘ ہاں‘ کوئی عذر اصل گناہ سے بڑھ کر کیسے ہوسکتا ہے؟ بادشاہ سلامت‘ یہ محاورہ ہے محاورے یونہی نہیں بنتے‘ اس کے پیچھے صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہے‘ بادشاہ بگڑ بیٹھا اور درشت لہجے میں غصے سے بولا‘ ثابت کرو کہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہوسکتا ہے ورنہ ابھی گردن مارے دیتا ہوں۔ مارے خوف کے وزیر کی گھگی بندھ گئی‘ اس نے پھر بھی حواس کو برقرار رکھا اور کہا‘ جان کی امان پائوں‘ مجھے کچھ مہلت دیجئے‘ بادشاہ نے ایک ہفتے کی مہلت دی اور کہا‘ اگلے ہفتے کے اسی دن تک ثابت نہ کر سکے توبھرے دربار میں گردن اڑا دی جائے گی۔ وزیر با تدبیر تھا‘ عمر رسیدہ اور تجربہ کار بھی اس نے زیادہ دیر نہیں لگائی فوراً ایک منصوبہ اس کے ذہن میں ترتیب پانے لگا‘ وزیر نے بادشاہ کے محافظوں کے سپہ سالار کو بلا کر کہا‘ کل بادشاہ سلامت غسل کرنے کے لیے حمام میں جائیں تو مجھے اطلاع کردی جائے‘ کمرے کے ساتھ ملحقہ غسل خانے ہوتے نہیں تھے‘ حمام میں جا کر غسل‘ بادشاہ کو کنڈی چڑھانے دروازے بند کرنے کی ضرورت نہیں تھی‘ دور دور محافظ پہرہ دیتے‘ مختصر یہ کہ بادشاہ حمام جانے کی تیاری میں تھے کہ وزیر کو اطلاع کر دی گئی‘ بادشاہ سلامت نے غسل شروع کیا ہی تھا کہ وزیر اعظم صاحب‘ بھاگتے ہوئے تیزی سے حمام میں داخل ہوئے‘ بادشاہ سے نظر ملی تو خوف اور گھبراہٹ کے مارے منہ سے نکلا‘ بادشاہ سلامت آپ؟ میں سمجھا ملکہ‘ ملکہ کے ساتھ ہی گویا ہونٹوں کو سی لیا تھا‘ بادشاہ ملکہ کا لفظ سنتے ہی دھاڑا محافظ دوڑتے چلے آئے‘ انہیں حکم ہوا کہ وزیر کو گرفتار کر کے بندی خانے میں ڈال دیا جائے‘ کل اس کا فیصلہ دربار میں ہو گا‘ اگلے دن گرفتار وزیر کوبادشاہ کی عدالت میں پیش کردیا گیا‘ وزیر نے جان کی امان طلب کی اور عرض کیا، جناب میں تو بس یہ ثابت کر رہا تھا کہ عذر گناہ‘ گناہ سے بدتر ہو سکتا ہے‘ مجھ سے قصور سرزد ہوا گھبراہٹ میں جو عذر پیش کیا، وہ محض عذر ہی تھا مگر اصل گناہ سے کہیں بڑھ‘ بادشاہ کے حمام میں داخل ہونے سے ملکہ کے حمام میں… ایسا ہی کچھ بادشاہ لوگ!