ان دنوں دو بیانئے ایسے سامنے آئے ہیں جو قابل غور ہیں۔ایک تو فواد چوہدری کا بیان جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ریاست اور حکومت شدت پسندی کے خلاف اتنی تیار نہیں ہے جتنا انہیں ہونا چاہیے۔اس بیان کا سنجیدہ تجزیہ ہونا چاہیے۔دوسرا بیان پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد کا ہے جنہوں نے عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ہونے والے سیمینار میں اس بات کا اعلان کیا کہ انہیں کوئی ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔اپنے فیصلے وہ خود لکھتے ہیں۔یہ جو عدلیہ کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے اسے بند ہونا چاہیے۔اس کانفرنس میں اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں۔جسٹس فائز عیسیٰ قاضی سے لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ تک سب نے اپنا اپنا موقف دیا۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی یہاں دو ٹوک انداز میں کہا کہ قومیں لوٹوںسے نہیں بنا کرتیں‘منافق اور بددیانت لوگ قوموں کی تشکیل نہیں کر سکتے۔یہ سب لوگ الگ الگ ذہنی پس منظر رکھتے ہیں۔پھر وہ پبلک مقام پر گفتگو کر رہے تھے۔کاش انہیں کوئی ایسا فورم میسر آئے جہاں یہ دل کی بات کھل کر کر سکیں۔ فواد چوہدری نے جو ریاست کا لفظ استعمال کیا ہے‘وہ ان دنوں ایک طرح کے کیمو فلاج کے لئے استعمال ہوتا آیا ہے۔پہلے اس کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال ہوتا تھا جس کا مطلب فوج ہوا کرتا تھا۔ان دنوں اسٹیبلشمنٹ کو متروک کر کے اس کے لئے ریاست کا لفظ استعمال ہونے لگا۔اب مگر اس میں زیادہ تقدس آ گیا ہے۔فواد چوہدری وہ واحد وزیر ہیں جو تحریک لبیک کے خلاف بہت گرجے برسے تھے۔وہ کہا کرتے ہیں کہ جو وہ کہتے ہیں اسے ان کا کہا نہ سمجھا جائے کابینہ کی ترجمانی سمجھا جائے۔پھر تو خا صی نازک بات ہو جاتی ہے کہ کابینہ نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ تحریک لبیک کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں کی جائے گی اور فواد چودھری نے اس برتے پر یہ اعلان بھی کر دیا تھا۔حکومت نے خندقیں تک کھود دی تھیں۔دریائوں کے پلوں کی ناکہ بندی کر دی تھی گویا ایک ایسی جنگ پر تل گئی تھی جس کا کوئی تصور نہیں کیا جاتا۔یہ سب کچھ ہو رہا تھا کہ خبر آئی مفتی منیب الرحمن نے ثالث کے طور پر مصالحت کرا دی ہے۔اس دن ایک تصویر بھی شائع ہوئی جس میں مفتی صاحب دو دیگر افراد کے ساتھ آرمی چیف جنرل باجوہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔جنرل باجوہ نے سویلین لباس پہن رکھا تھا۔اس میں دوسری دو شخصیات میں سے ایک سیلانی ٹر سٹ والے بشیر احمد فاروقی اور دوسری کراچی کی ایک بڑی کاروباری شخصیت عقیل ڈھیڈی تھے۔اس سے پہلے خبریں آ رہی تھیں کہ مذاکرات کہیں اور بھی ہو رہے ہیں۔ اس نازک نکتے پر اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔اس کی بہت سی نزاکتیں بیان کی جا سکتی ہیں مثلاً ماضی میں ایسے معاہدوں میں آرمی چیف شریک نہ ہوتے بلکہ آئی ایس آئی یہ معاملہ خود طے کر دیتی بلکہ اس پر دستخط بھی ثبت کر دیتی۔اس بار کوئی ایجنسی کا نمائندہ تھا نہ حکومت کا‘آرمی چیف نے ملاقات کی اور بقول تجزیہ نگاروں کے ملک کو خون خرابے سے بچا لیا۔ یہ معاہدہ کیوں خفیہ رکھا گیا‘یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔ہمیں آم کھانے سے غرض ہے‘پیڑ گننے سے نہیں۔بہرحال فواد چوہدری جب یہ کہتے ہیں کہ ریاست اور حکومت اس بارے میں اس حد تک تیار نہیں جتنا(ان کے خیال کے مطابق) ہونا چاہیے وہاں وہ مثال دیتے ہیں کہ بالآخر ریاست کو لبیک کے معاملے میں جھکنا پڑا۔مطلب صاف اس ملاقات کی طرف ہے جس کا اوپر تذکرہ آ گیا۔شاید وہ کہتے ہیں مجبوراً حکومت کو اپنا موقف بدلنا پڑا۔ حکومت نے اس سے پہلے اعتراف کر لیا تھا کہ پولیس کچھ نہیں کر سکتی۔معاملات رینجرز اور فوج کے سپرد کر دیے تھے۔پولیس کیوں ناکام ہوئی یہ الگ بات ہے۔سویلین حکومتیں ایسے مواقع پر فوج اور رینجرز کی آڑ لے لیتی ہیں۔وہ یہ احساس رکھتی ہیں کہ اب فوج جانے اور عوام کا ہجوم۔فوج سویلین اداروں کے بگاڑے ہوئے ان حالات میں گولی چلانے سے اجتناب کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کو قومی سلامتی کا یہ موقف تسلیم کرنا پڑا۔اور چارہ کار بھی نہ تھا۔ایسے میں اعجاز چوہدری نے اچھا کیا کہ پھولوں کا گلدستہ لے کر تحریک لبیک کے قائد سعد رضوی کی رہائی پر ان کو ملنے چلے گئے۔حکومت یہ کام تو ان جماعتوں کے ساتھ نہیں کرتی جو مسلمہ سیاسی جماعتیں ہیں‘جو کبھی کالعدم نہیں مگر حکومت انہیں کرپٹ کرپٹ کہہ کر ان سے دور رہتی ہیں۔ دوسرا بیانیہ بہت دلچسپ ہے۔نواز شریف کی نااہلی کے مقدمے سے لے کر آج تک بہت سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ان دنوں اس سوال نے شدت اختیار کر لی جب گلگت بلتستان کے سابق جج جسٹس شمیم رانا نے انکشاف کیا کہ ان کی موجودگی میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو فون کیا کہ خبردار نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت انتخابات سے پہلے نہیں ہونا چاہیے‘انہیں الیکشن تک جیل میں رہنا چاہیے۔اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فوری نوٹس لیا اور ایسی سخت بات کی جیسی جسٹس گلزار اب پبلک میں کر رہے تھے۔یہ بہت ضروری تھا۔تاہم جسٹس اطہر من اللہ نے اس کانفرنس میں یہ کہا کہ ماضی کے فیصلے ایسے ہیں جن پر سوالیہ نشان ہیں۔مطلب یہ ہے کہ وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایک عدالت کے سربراہ کے طور پر اپنے ساتھی ججوں اور عدلیہ کا دفاع ان کا فرض ہے۔تاہم تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر بہت سے سوالات کے جوابات ہم پر واجب ہیں۔کہتے ہیں یہ سب معاملہ مریم نواز کی اپیل کے حوالے سے اٹھایا گیا۔اس اپیل میں تو جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جج ارشد ملک کے بیانات بھی ہیں۔جانے اور کیا کچھ آنے والا ہے۔جس مقدمے میں وکیل عرفان قادر ہوں‘اس میں عدلیہ کو ہر صورت کے لئے تیار رہنا چاہیے جب کہ معاملہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف اور ان کی بیٹی کا ہو۔میں بار بار کہتا ہوں تاریخ کے فیصلے عدالتوں کے فیصلے کے محتاج نہیں ہوتے۔پھر ان پر گفتگو ہوتی رہتی ہے اور ججوں کا کردار بھی زیر بحث آتا ہے۔سب سے بڑی مثال جسٹس منیر کے فیصلے کی ہے۔تاریخ کو ابھی بہت سے فیصلے کرنا ہیں۔عدلیہ کو بھی بہت سے فیصلے کرنا ہیں۔ کاش ایسا ہوتا کہ پاکستان کے عوام سمجھتے کہ ہمارے سب ادارے اپنی اپنی حدوں میں رہ کر حب الوطنی اور خدا خوفی کے جذبے کے ساتھ اپنے اپنے فرائض انجام دے ر ہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ عوام کا تصور غلط ہو‘مگر اس پر گفتگو تو ہوتی رہے گی۔کھلا کھلا نہ سہی چھپ چھپا کر ہی سہی۔