پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود ہیجان کی کیفیت جاری ہے۔پی ٹی آئی کے علاوہ پاکستان کی ساری قابل ذکر سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشتی پر سوار ہیں لیکن تلاطم ہے کہ کم ہوتا نظر نہیں آتا۔بلوچ قوم پرست جماعتوں کے اقتدار میں ہونے کے باوجود بی ایل اے کے حملے جاری ہیں اور کراچی میں ایک فدائی خاتون کے خودکش حملے نے دہشت گردی کی لہر یں ایک اور جہت کا اضافہ کر دیا ہے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قوم پرست جماعتوں کا بھی دہشت گرد حملوں پر کنٹرول نہیں ہے اور یہ ڈوریاں بیرون ملک سے ہلائی جاتی ہیں۔عالمی طاقتوں کو پاکستان میں سکون کی کیفیت قابل قبل نہیں ہے۔ایک اسلامی ملک کا ایٹمی طاقت ہونا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔لیکن پاکستان کی بقاکے لئے نہایت ضروری ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی حفاظت خون کے آخری قطرے تک کی جائے۔یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے اگر یوکرین نے اپنی ایٹمی قوت پہ سمجھوتہ نہ کیا ہوتا تو آج یوکرین کی یہ حالت نہ ہوتی۔یہ الگ بات ہے کہ یوکرین نے ایک عالمی طاقت کے حملے کا جس جوانمردی سے مقابلہ کیا ہے اس نے یوکرینی قوم کو دنیا کی بہادر ترین اقوام کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔روس دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یوکرین کی کسی بھی شہر پہ پوری طرح قبضہ نہیں کر سکا۔روس کی عددی برتری نے شہروں کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے لیکن یوکرینی قوم نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے اور روس کو ایک بار پھر افغانستان کی یاد دلا دی ہے۔ پاکستان کے دستور میں کوئی نہ کوئی ایسی خامی ضرور ہے کہ جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے تو تمام سیاسی جماعتیں ایسی ایسی موشگافیاں نکالتی ہیں کہ مخالف جماعتیں دستور کی آڑ میں اپنے اپنے بیانیے کو سچ ثابت کرتی نظر آتی ہیں۔پاکستان میں ادارے بھی اپنی حد میں رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ صدر اور گورنر کے آئینی عہدوں کو عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل تھا۔اب صوبائی سطح کی عدالتیں بھی صدر اور گورنر کو حدف تنقید بناتی ہیں۔کہیں نہ کہیں خرابی ضرور ہے جو ہمارا حکومتی نظام کسی طرح بھی کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔نئی حکومت نے آتے ہی وزارتوں اور عہدوں کی ایسی لوٹ سیل لگائی ہے کہ بڑے بڑے ملزم اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔موجودہ حکومت بھان متی کا ایک کنبہ ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کا وزارتوں کا کوٹہ ہے اس لئے وہ اپنے کسی بھی رکن کو وزارت کے لئے نامزد کر دیتی ہیں اور وفاقی حکومت یا وزیر اعظم کے پاس میرٹ یا اہلیت پرکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں پچھلے دو ہفتے سے حکومت نہ ہونے کے برابر ہے۔عثمان بزدار بزعم خود اب بھی وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے ہوئے ہیں ۔اعلیٰ عدالتوں کے احکام کے باوجود نئے وزیر اعلیٰ حلف نہیں اٹھا سکے۔اگر اس طرح پنجاب کی حکومت چلے گی تو خدا کی پناہ۔پاکستان کے تمام ادارے تنقید کی زد میں ہیں۔نہ الیکشن کمشن محفوظ ہے اور نہ عدالتیں۔عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔صدر ‘ گورنر پنجاب اور لاہور ہائی کورٹ آپس میں برسر پیکار ہیں۔اس طرح ملک کے نظام میں استحکام کیسے آ سکتا ہے۔جب تک ہم اعلیٰ عدالتوں کو عزت نہیں دیں گے اور ان کا حکم نہیں مانیں گے نظام غیر مستحکم رہے گا۔اس وقت وطیرہ یہ ہے کہ اگر عدالت کا حکم اپنے حق میں ہے تو اس کی تکریم کی جائے ورنہ ماننے سے انکار کر دیا جائے یہاں تک کہ سیاسی جماعتیں اعلیٰ عدالتوں پر باقاعدہ حملہ کرتی ہیں اور ججوں کو بھاگنے پر مجبور کرتی ہیں۔اس وقت پاکستان کا اعلیٰ سطح کا وفد سعودی عرب کے دورے پر ہے جس طرح اس دورے میں طرح طرح کے لوگ شامل کئے گئے وہ تاریخ کا حصہ ہے اور جس طرح میڈیا کی جارحانہ تنقید کی وجہ سے اس وفد کی ہیئت میں تبدیلی کرنی پڑی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔چند باوقار لوگوں نے سرکاری خرچ پر عمرہ کرنے سے انکار کر کے بھی نئی تاریخ رقم کی ہے۔اس کے لئے اے این پی کی قیادت تحسین کی حقدار ہے جو مفت عمرہ کرنے کے شوق میں مدینہ منورہ پہنچے ہیں وہ بھی عوام کا ردعمل دیکھ کر اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہوں گے۔یہ صرف مفت خوروں کے لئے نہیں بلکہ ہمارے لئے بحیثیت قوم بھی باعث شرم ہے۔امید ہے کہ وزیر اعظم اس سے سبق سیکھیں گے اور آئندہ اتنا بڑا وفد لے کر بیرون ملک نہیں جائیں گے۔ماہ رمضان کی ستائیسویں شب پی ٹی آئی نے یوم دعا کے طور پر منائی۔مولانا طارق جمیل نے بڑی پراثر اور رقت آمیز تقریر کی۔مولانا نے وضاحت کی کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے دعا کر رہے ہیں۔مولانا نے جس دلسوزی کے پاکستانی قوم کا نقشہ کھینچا وہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔جب تک قوم اپنے اعمال ٹھیک نہیں کر لے گی وہ ایسے ہی حاکموں کے سامنے یرغمالی بنی رہے گی۔اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول فرمائے اور ہم ایک باعزت اور باغیرت قوم کی حیثیت سے اقوام عالم کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔آج ہماری قوم اپنے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کو شدت پسندی سے گریز کرنا ہو گا اور ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ہر کوئی اپنے مخالف پر آرٹیکل 6کا اطلاق کرنا چاہتا ہے۔اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا ہر جماعت کو احتیاط کا دامن تھامنا ہو گا اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنا ہو گا۔عدالتوں کے فیصلے پسند ہوں یا نہ ہوں انہیں صدق دل سے تسلیم کرنا ہو گا۔اپنے اداروں کی توہین خود قوم کی توہین ہے۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول اپنایا گیا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔اس اصول کو اپنانا تو سارا نظام لپیٹنے کے مترادف ہے۔ادارے اپنی حدود میں رہ کر قومی سلامتی کی حفاظت کریں اور دوسرے اداروں کی تضحیک نہ کریں۔عدالتوں کی ذمہ داری بہت بڑی ہے وہ انصاف کو یقینی بنائیں اور آئینی عہدوں کی تضحیک سے گریز کریں۔پاکستان میں عام شہری بھی عزت کا مستحق ہے۔قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔