آج 23 اکتوبر ہے ۔ آج سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ، بیگم نصرت بھٹو کی آٹھویں برسی ہے۔ 23 اکتوبر 2011ء کو جب دُبئی میں علیل ؔبیگم نصرت بھٹو کا انتقال ہُوا تھا تو، اُن کے پاس ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کا عہدہ ؔنہیں تھا اور نہ ہی پارٹی کا کوئی عہدیداؔر؟۔ 23 اکتوبر2015ء کو بھٹو مرحوم کے ’’روحانی فرزند‘‘ ۔ آصف علی زرداری ، صدرِ پاکستان تھے اور اُنہوں نے بیگم نصرت بھٹو کی چوتھی برسی پر اپنی خوش دامنؔ کو ’’مادرِ جمہوریت‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔ معزز قارئین!۔ مؤرخین کے مطابق چھٹی صدی قبل از مسیح یونان کے شہرایتھنزمیں جمہوریت کا آغاز ہُوا تھا لیکن، مجھے نہیں معلوم کہ اُن دِنوں ’’ بابائے جمہوریت‘‘ اور ’’ مادرِ جمہوریت ‘‘ کس کس کو کہتے تھے مَیں نہیں جانتا ؟ ۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو سے شادی سے پہلے بیگم نصرت بھٹو کا نام ’’ نصرت اصفہانی‘‘ تھا۔ موصوفہ 23 مارچ 1929ء کو ایران کے شہر اصفہان ؔمیں پیدا ہُوئی تھیں ۔ 8 دسمبر 1951ء کو ذوالفقار علی بھٹو سے ( اُن کی پہلی بیگم) محترمہ امیر بیگم کی زندگی ہی میں مِس نصرت اصفہاؔنی کی شادی ہُوئی اور وہ بیگم نصرت بھٹو اور جنابِ بھٹو کے دورِ اقتدار میں ’’ خاتونِ اوّل پاکستان‘‘ کہلائیں ۔ ’’ بی اماں!‘‘ متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ پھر ہندوستان کے ہندوئوں، مسلمانوں اور دوسری قوموں کے قائدین نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کی جن میں ’’ علی برادران‘‘ ۔ مولانا شوکت ؔعلی اور مولانا محمد علی جوہرؔ بھی سرگرم عمل تھے ۔ اُن دونوں قائدین کی والدۂ محترمہ آبادیؔ بانو بھی ’’ تحریک آزادی‘‘ ( تحریکِ خلافت) کی مجاہدہ تھیں۔ تحریکِ خلافت کے متوالوں نے ’’ علی برادران‘‘ کی والدہ صاحبہ کو عُرفِ عام میں اماّں ؔکی بزرگی کے پیش نظر انہیں ’’بی اماّں‘‘ کا خطاب دِیا، پھر کسی شاعر کی نظم کا یہ مطلع بہت مقبول ہُوا کہ … بولی اماّں ؔ، محمد علی کی، جان بیٹا، خلافتؔ پہ دے دو! …O… ’’ بابائے قوم ، قائداعظمؒ!‘‘ معزز قارئین!۔ ہر قوم کو آزادی دلانے والے لیڈر کو ’’ بابائے قوم ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ مَیں ہر قوم کے ’’ بابائے قوم ‘‘ (Father of the Nation) کا تذکرہ نہیں کروں گا بس اتنا ہی کافی سمجھتا ہُوں کہ ’’ جمہوریہ تُرکیہ کے بانی غازی مصطفیٰؔ کمال پاشاؒ کو اُن کی قوم ( تُرک قوم) نے ’’ اتا تُرک‘‘ (تُرکوں کا باپ ) کا خطاب دِیا تھااور ’’ بانیٔ پاکستان ‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ ’’بابائے قوم ‘‘ کہلاتے ہیں لیکن ’’عُلماء سُو ‘‘ نے مِلّت اِسلامیہ کے اُن دونوں قائدین کے خلاف کُفر کے فتوے دے کر اپنے لئے رُسوائی کا سامان پیدا کر لِیاتھا ؟ ’’ مادرِ ملّت !‘‘ فوجی آمر فیلڈ مارشل، صدر محمد ایوب خان 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں خود امیدوار بن گئے تھے ۔ اُن کے مقابلہ میں ’’ تحریکِ پاکستان کی مجاہدہ، قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ ۔کونسل مسلم لیگ کی امیدوار تھیں ، پھر متحدہ اپوزیشن نے اُنہیں اپنا امیدوار بنا لِیا۔ ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ’’ مادرِ ملّت‘‘ کا خطاب دِیا، پھرکیا ہُوا؟ ۔’ آصف زرداری صاحب کے دورِ صدارت میں اُن کی ہمشیرہ فریال ؔتالپور صاحبہ کو ’’ مادرِ ملّت ثانی‘‘ مشہور کرنے کی کوشش کی گئی اور میاں نواز شریف کے ’’روحانی فرزند‘‘ ۔کیپٹن ( ر) محمد صفدر نے اپنی ’’ خوش دامن‘‘ بیگم کلثوم نواز کو بھی ’’ مادرِ ملّت ثانی‘‘ کا خطاب دِیا ۔ ’’ آپی جی!‘‘ 25 دسمبر 2015ء کو قائداعظمؒ اور(اُن دِنوں ) وزیرعظم نواز شریف کی سالگرہ کے موقع پر ، میاں نواز شریف کی نواسی (مریم نواز کی بیٹی) مہر اُلنساء کی رسم حنا کو الیکٹرانک میڈیا پر دِکھایا جا رہا تھا ، جس میں بھارتی وزیراعظم مسٹر نریندر مودی بھی اپنے لائو لشکر سمیت شریک تھے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے مودی جی کو اپنے دونوں بیٹوں، حسن نواز، حسین نواز، چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف اور اپنی والدۂ محترمہ شمیم اختر صاحبہ سے بھی ملوایا۔ دوسرے روز کے قومی اخبارات کے مطابق ’’ محترمہ شمیم اختر صاحبہ نے دونوں وزرائے اعظم سے کہا کہ ’’مل کر رہو گے تو خُوش رہو گے!‘‘۔ مودی جی نے بھی بڑی سعادت مندی سے کہا تھا کہ ’’ ماتا جی! ہم اکٹھے ہی ہیں! ‘‘ ۔ اِس پر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے کہا کہ …… ’’ دْکھ بانٹے کچھ غریبوں کے ، پڑھ لی نماز بھی! مہر اْلنساء کی ، رسمِ حِنا کا جواز بھی! شردھا سے پیش کردِیا ، حسن ؔاور حسین ؔکو! مصروفِ کار،اُن کا چچا ، شاہباز ؔبھی! مَیں برتھ ڈے پہ قائداعظمؒ کی کیا کہوں؟ مودی ؔنواز نکلا، محمد نواز ؔبھی‘‘ …O… پھر کیا ہُوا؟ ، محترمہ شمیم اختر جولائی 2018ء میں ’’ آپی جی ‘‘ کے لقب سے میدان سیاست میں اُتریں اور قومی اخبارات میں یہ خبریں شائع ہُوئیں کہ ’’ 85 سالہ آپی ۔ جی‘‘ نے اعلان کِیا ہے کہ ’’ مَیں 13 جولائی کو اپنے بیٹے ( نواز شریف ) کا استقبال کرنے کے لئے خود ’’ لاہور ائیر پورٹ‘‘ جائوں گی ۔ مَیں نواز شریف کو گرفتار نہیں ہونے دوں گی اور اگر اُسے گرفتار کِیا گیا تو مَیں اُس کے ساتھ ہی چلی جائوں گی، پھر کیا ہُوا ؟۔ سبھی جانتے ہیں ۔ ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے!‘‘ معزز قارئین!۔ 30 نومبر 1967ء کو جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شِپ میں قائم ہونے والی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے چار راہنما اصولوں میں سے ایک راہنما اصول یہ تھا کہ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ لیکن، جنابِ بھٹو جب تک حیات رہے اُنہوں نے اپنی ہی پارؔٹی میں ، جمہوریت ؔ کو پھلنے پھولنے نہیں دِیا۔ قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ’’ بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت سے گرفتار ہونے سے پہلے جنابِ بھٹو اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کر گئے تھے؟ ۔ چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن نامزد کردِیا تھا (حالانکہ پارٹی کے اساسی منشور میں ’’ شریک چیئرپرسن ‘‘ کا کوئی عہدہ نہیں تھا) ۔ دسمبر 1993ء میں اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں ، پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن ، محترمہ بے نظیر بھٹو نے ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے نامزد ارکان کا اجلاس طلب کِیا ۔ بیگم بھٹو کو اِس اجلاس کی خبر نہیں تھی۔ اُس اجلاس میں ’’دُختر مشرق ‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی والدۂ محترمہ کو چیئرپرسن شِپ سے برطرف کر کے خُود یہ عہدہ سنبھال لِیا تھااور اُس کے بعد پارٹی کے ’’چیئرپرسن ‘‘کا عہدہ ہی ختم کردِیا گیا ۔ جنابِ آصف زرداری؟ پارٹی کی چیئرپرسن ، محترمہ بے نظیر بھٹو جب تک حیات رہیں ، اُنہوں نے اپنے مجازی خُدا ، جنابِ آصف زرداری کو ، پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ۔ 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہُوا تو، آصف زرداری صاحب نے مقتولہ کی مبینہ (اور برآمدہ ) وصیت کے مطابق اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو ’’ بھٹو ‘‘ کا خطاب دے کر اُسے ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خُود اُس کے ماتحت ’’ شریک چیئرپرسن‘‘ بن گئے۔ اب صورت یہ ہے کہ ’’ جولائی 2019ء کے عام انتخابات میں صدر آصف علی زرداری کی صدارت میں تیر ؔکے انتخابی نشان والی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ نے حصّہ لِیا تھا اور اُسی پارٹی کے منتخب ارکان سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی مود ہیں ۔ چیئرمین بلاول بھٹو خُود بھی اپنے والد صاحب کی پارٹی سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہُوئے تھے ؟۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے تو، کل 22 اکتوبر کو 2 بجے دِن اپنا کالم لکھ کر روزنامہ’’92 نیوز‘‘ کے دفتر میں "E-Mail" کردِیا تھا۔ یہ تو کل شام الیکٹرانک میڈیا پر اور آج پرنٹ میڈیا سے پتہ چلا کہ ’’ جنابِ آصف زرداری کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) اورچیئرمین بلاول بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ ( پی ۔ پی۔ پی) نے اپنے ’’سیاسی عقیدے ‘‘ کے مطابق ’’ مادرِ جمہوریت‘‘ کی برسی کس انداز ، اور عقیدت و احترام سے منائی؟۔