افغانستان پاکستان کا وہ واحد پڑوسی ملک ہے، جس نے قیام پاکستان کے بعد اسے ایک آزاد ملک تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس واقعہ کے بعد کشیدہ ہونے شروع ہوگئے تھے۔ افغانستان نے برطانوی دور میںبرطانوی راج اور افغانستان کے درمیان طے ہونے والے بارڈر ڈیورنڈر لائن کو پاکستان کے ساتھ سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بارڈر 1893 میں ایک برطانوی مسٹر ڈیورنڈ کی سربراہی میں ایک ٹیم نے طے کیا تھا۔ افغانستان کا مطالبہ یہ تھا کہ ڈیونڈر لائن کے آرپار رہنے والے پشتونوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ افغانستان کے اسی رویہ اور اس کے پاکستان کی سرحد کے اندر حامیوں کی وجہ سے 1947ء ریفرنڈم کرایا گیا اور بھاری اکثریت نے پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ ڈالا۔ گزشتہ صدی میں افغان حکمرانوں کی شہ پر بھی پاکستان میں پختونستان کا نعرہ لگایا گیا۔ جس س پاک افغان تعلقات میں کشیدگی رہی ۔ سویت یونین کے قیام کے بعد روس کا اثر افغانستان تک آپہنچا اور کابل کمیونسٹ حکمرانوں کے زیر اثر آگیا۔ 1978 ء میں سویت یونین نے سرد جنگ کے عروج کے زمانہ میں اپنی سُرخ فوج افغانستان میں داخل کرائی جس سے سارا نقشہ بدل گیا ۔ ایک ایسی کشمکش شروع ہوگئی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک تھا وہ بھی اس کی زد میں آگیا۔ پاکستان سویت یونین اور امریکی کیمپ کی اس آویزش میں فرنٹ لائن ریاست بن گیا ۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنرشپ کرلی ۔ سویت فوج کو افغانستان سے نکالنے کیلئے پاکستان کو نہ صرف فنڈر دئیے گئے بلکہ سرخ فوج کے خلاف گوریلہ جنگ کرنے کے لئے افغان مجاہدین کو تربیت اور پاکستان کی سرحد استعمال کرکے سویت فوج پر حملوں کا مشن بھی سونپا گیا۔ اس عرصہ میں پاکستان پر سویت مگ طیاروں نے سرحدی علاقوں میں بمباری بھی جاری رکھی۔ پاکستان کے شہروں میں سویت خفیہ ایجنسی کے جی بی اور کھاد کے دماغوں میں سینکڑوں پاکستانی ہلاک ہوئے۔ امریکہ اور مغربی ملکوں کے علاوہ سعودی عرب سمیت عرب مسلمان ملکوں نے بھی افغان مجاہدین کی امداد کی ۔ سویت یونین کی کمزور ہوتی ہوئی معیشت اس کا افغانستان آپریشن کی مدد نہیں کر سکتی ۔ 1989ء میں سویت فوج کو جنیوا معاہدے کے تحت افغانستان سے نکلنا پڑا،افغانستان پر اُن مجاہدین نے ایک سمجھوتے کے تحت حکومت قائم کی اور روسی فوج کے خلاف لڑتے رہے۔ وہ تمام مسلمان جہادی جو اسلامی ملکوں سے آکر افغانستان میں سویت فوج کے خلاف جہاد کرتے رہے ، افغانستان میں موجود رہے اور اُسامہ بن لادن کی قیادت میں افغانستان میں اسلامی حکومت کی مدد کرتے رہے۔ نائن الیون ہوا ، امریکی جن مجاہدین کو سویت یونین کو شکست دینے اور افغانستان سے نکالنے کیلئے امداد کرتا رہا ، اُن کی سرپرستی کرتا رہا ، وہی نائن الیون کے بعد امریکی ہٹ لسٹ پر آگئے اور افغانستان پر امریکی اور اتحادیوں نے چڑھائی کر دی۔ پاکستان نے اس بار بھی امریکہ کا ساتھ دیا ، بھاری نقصان اُٹھایا۔ 2019 ء میں امریکہ اور نیٹو فوجیں افغانستان سے جلدی میں نکل گئیںاور اقتدار اُن طالبان کے پاس آگیا جن کے خلاف امریکہ نے افغانستان میں آپریشن Endurng Freedom شرو ع کیا۔ طالبان کی عبوری حکومت بننے کے بعد پاکستان کو توقع تھی کہ اب افغانستان میں امن ہوگیا ۔ کم از کم افغانستان کی نئی حکومت پاکستان پر دہشت گردوں کے حملوں کور روکے گی۔ لیکن یہ خواب ایک سراب ثابت ہوا ہے۔ پاکستان پر افغانستان سے مسلسل حملے ہو رہے ہیں ۔ پچھلے دو سال کے اندر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے سینکڑوں اہل کار جن میں آفیسر بھی شامل ہیں ، جاں بحق ہو چکے ہیں۔ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں افغانستان میںپناہ لیے ہوئے دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان ، پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں شاید ہی کوئی ناغہ کرتی ہو ۔بار بار کی درخواستوں اور وارننگ کے باوجود افغان حکومت پاکستان کے خلاف کاروائیوں کو روک نہیں پائی ۔ پاکستان نے مجبوراً افغانستان کے اندر اُن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جہاں سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور جہاں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پناہ لیے ہوئے ہیں۔پاکستان کی ائیر سٹرائیکس سے دونوں ملکوں میں تعلقات پھر کشیدہ ہوگئے ہیں۔ افغان حکومت پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہی ہے ۔ افغانستان کے ساتھ برادرانہ اور اچھے ہمسایوں والے تعلقات کا خواب پاکستان 1947 ء سے اپنے قیام کے بعد سے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن افغانستان اس خواب کو چکنا چور کر رہا ہے۔ ایک عجیب طرح کی عداوت پاکستا ن کے بارے میں افغانستان میں پائی جاتی ہے۔ شمالی اتحاد والوں کی حکومتوں سے تو پاکستان کو اچھی ہمسائیگی کو توقع کبھی نہیں تھی۔ لیکن طالبا ن کی عبوری حکومت کی جس کی پاکستان نے بین اقوامی سطح پر ہر طرح سے حمایت کی ہے وہ بھی نہ جانے پاکستان سے کیسا بغض رکھتی ہے۔ پاکستان نے موجودہ افغان حکومت سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں کل سکا۔ پاکستان افغانستان کا کوئی دشمن ملک نہیں ہے۔ وہ افغان حکومت کی ہرطرح مدد کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن اس کی یہ کوشش رائیگان جارہی ہے ۔ پاکستان افغانستان کا ایک برادر اسلامی ملک ہے ۔ اس ملک کو غیر مستحکم کرنا اور اس پر دہشت گردو حملے کرکے کس کا ایجنڈا پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان افغان کشیدگی پاکستان مخالف ملکوں کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ پاکستان کومشرق اور مغرب دونوں طرف سے دبائو میں لانے کی حکمت عملی بھارت کی رہی ہے۔ بھارت کو یہ سوٹ کرتا ہے کہ پاکستان دونوں طرف سے دبائو میں رہے۔ شمالی اتحاد تو پاکستان مخالف عناصر پر مشتمل تھا ۔ لیکن طالبان تو پاکستان کے مدرسوں سے پڑھ کر نکلے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ملک پاکستان پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ طالبان پاکستان کی پیداوار ہیں۔ یہی طالبان اب پاکستان سے نہ جانے کس کا بدلہ لے رہے ہیں۔