کچھ لوگ آپ کی زندگی میں ایسے ضرور آ نکلتے ہیں جو آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ انگشت بدنداں ہو کر ان کو دیکھتے ہیں اور پھر ان کی کھوج میں چل نکلتے ہیں۔ میری زندگی میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی شخص کی تحریر نے مجھے اس قدر متاثر کیا ہو کہ میں سوچ میں پڑ جائوں کہ کاش میں اتنا جامع اور خوبصورت لکھ پاتا۔ جس شخص کا میں تعارف کروانے جا رہا ہوں، اس کے لئے یہ تمہید انتہائی ناکافی ہے لیکن کیا کروں اپنے دامن میں تو یہی کچھ تھا، سو نذر کر دیا۔ اس شخص کی تحریر کو پڑھ کر بار بار اقبالؒ کی وہ دُعا منہ سے نکلتی ہے، ’’جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر‘‘۔ یہ شخص آصف محمود ہے۔ یہ ایک حیران کر دینے والا ادبی نام نہیں ہے لیکن اس کی تحریر آپ کا دامن پکڑ لیتی ہے اور آپ اس کی اگلی تحریر کا شدت سے انتظار کرنے لگتے ہیں۔ کالم نگاری کے دشت میں مجھے آبلہ پائی کرتے ہوئے اکیس سال ہو چکے ہیں۔ اس صنف میں شاعری اور ڈرامہ نگاری چھوڑ کر لکھنا اس لئے شروع کیا تھا کہ اس میں آپ کو براہِ راست سچ بولنا پڑتا ہے، استعارے اور مجاز مرسل یا تشبیہات کا سہارا لینا نہیں پڑتا۔ سچ بولنے پر اربابِ اختیار کی پکڑ کا جہاں خطرہ ہوتا ہے وہاں معاشرے میں موجود لسانی، نسلی اور مذہبی تعصب زدہ گروہوں کی نفرت بھی آپ کا مقدر بنتی ہے۔ کالم لکھنا پُل صراط پر چلنے کے مترادف ہے، لیکن اس پُل صراط کے نیچے کا جہنم بڑا جاذبِ نظر ہے۔ اس میں لالچ، حرص، اقتدار اور حب جاہ و منصب کی پریاں رقص کر رہی ہوتی ہیں اور یہ ایک ایسی ترغیبات کی دنیا ہے جس کو عبور کرنا بہت کم لوگوں کے بس میں ہوتا ہے اور جو کوئی اسے عبور کر جاتا ہے اس کی تحریر آصف محمود کی طرح جاندار اور پُراثر ہو جاتی ہے۔ میں ابھی تک اس کے کالموں کی تحریر کے اثر میں تھا کہ اس نے مجھے ایک بار پھر میری کم مائیگی کا احساس دلا دیا۔ مدتوں کتابوں کے انبار کے سائے میں بیٹھا، میں سوچتا تھا کہ مجھے کوئی ایک ایسا کام ضرور کرنا چاہئے جیسا اس شخص نے کر ڈالا۔ یہ کام تو مجھ پر لازم بھی تھا کیونکہ میں تو واقف ِ راز درون مئے خانہ تھا۔ لیکن آصف محمود نے یہ کتاب لکھ کر میرے اس زعم کا بھی پردہ چاک کر دیا کہ ضروری نہیں کہ جو آدمی سسٹم کا حصہ رہا ہو اور اسے اس میں پروان چڑھتی سازشوں کا بھی دوسروں کی نسبتاً زیادہ علم ہو، وہی اس پر قلم اُٹھا سکتا ہے۔ آصف محمود نے اپنی کتاب ’’پسِ قانون‘‘ مجھے بھیجی ہے اور یہ گذشتہ کئی ہفتوں سے میری بیڈ سائیڈ ٹیبل پر موجود ہے جسے میں روز کھول کر چند صفحات کسی مصحف کی طرح پڑھتا ہوں اور سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ اس موضوع پر ایسی جامع، مختصر اور پُراثر تحریر لکھنا کسی اور کے بس میں نہیں تھا۔ کتاب کا ذیلی عنوان ہے ’’پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی اثرات‘‘۔کتاب کا دیباچہ پاکستانی عدلیہ کے سب سے زیادہ پُرمغز اور میرے نزدیک سب سے قابلِ احترام چیف جسٹس، جواد ایس خواجہ نے تحریر کیا ہے۔ ان کی عزت اس لئے تاحیات قائم رہے گی کہ وہ صرف چند ہفتوں کے لئے پاکستان کے چیف جسٹس مقرر ہوئے، مگر انہوں نے اس مختصر عرصے میں اُردو کو بحیثیت سرکاری زبان اور بحیثیت ذریعۂ تعلیم نافذ کرنے کا ایسا تاریخی فیصلہ دیا، جو آج بھی اقتدار کے ایوانوں پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ خواجہ صاحب نے دیباچہ لکھتے ہوئے مولانا روم کے جس شعر کا حوالہ دیا ہے اس نے نہ صرف کتاب کا مکمل تعارف کروا دیا ہے، بلکہ علامہ اقبالؒ کے حوالے سے اس شعر کی یاد بھی تازہ کر دی ہے۔ قصّہ یوں ہے کہ اقبالؒ نے اپنے دوستوں سے کہا کہ میرے سوالات کا جواب ایک صاحب لے کر آئے ہیں اور وہ سیّدنا علی ہجویریؒ کی مسجد میں ٹھہرے ہیں، کل ان سے ملاقات کو جانا ہے۔ روایتی سُستی میں اقبالؒ ٹالتے رہے اور ایک دن ایک درویش صورت شخص آیا اور اقبالؒ کے سامنے رومی کا یہ شعر پڑھ کر چلا گیا اور کہہ گیا کہ اس میں تمہارے سوالوں کا جواب ہے۔ ہر بنائے کہنہ کہ آباد اں کنند اوّل آں بنیاد را ویراں کنند ’’جس پرانی عمارت کو آباد کرتے ہیں تو پہلے اس کی بنیاد کو ویران کرتے ہیں‘‘۔ پوری کتاب اس شعر کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کتاب ہمارے کرم خوردہ، بوسیدہ اور تباہ حال نظامِ انصاف اور نظامِ قانون کی بنیادوں میں موجود خرابی کا وسیع اور دقیق مطالعہ ہے۔ آصف محمود نے ہمارے نظامِ قانون اور نظامِ انصاف کی خرابیوں کا مآخذ 1857ء میں انگریز کی برصغیر میں عملداری سے تلاش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ پاکستان قانون اور عدالتی نظام، انگریز کا ہی تعمیر کردہ مکان ہے۔ لیکن مصنّف نے اس سے پہلے برصغیر میں رائج مسلمان حکمرانوں کے اس عوام دوست اور صحیح انصاف پر مبنی نظام کا بھی جائزہ لیا ہے جو انگریز کی آمد تک یہاں نافذ تھا اور خالصتاً عوام کی عزتِ نفس کے احترام پر قائم تھا، جسے یکسر ختم کر کے انگریز نے نئے قوانین مرتب کرتے ہوئے، ایک ایسا پولیس کا نظام وضع کیا جس کو مستحکم کرنے کے لئے ایسے قوانین بنائے جس سے صرف برطانوی حکمرانوں کے تسلّط کا قیام مقصود تھا۔ کتاب کے پہلے دو ابواب کے عنوان ہی اس تحقیقی سرمائے کو واضح کر دیتے ہیں۔ عنوان ہیں (1) نوآبادیاتی آزار: پسِ منظر، اور (2) احساسِ کمتری: نوآبادیاتی ورثہ۔ آصف محمود نے ’’آزار‘‘ کے لفظ کو نوآبادیات "Colonialism" یعنی انگریز کی حکومت کے تعارف کے لئے خوب استعمال کیا ہے۔ آزار کا مطلب ہوتا ہے اذیت، ایذا رسانی، روگ، تکلیف، دُکھ وغیرہ۔ اس لفظ کو استعمال کرنے کے بعد پوری کتاب صرف اور صرف اس کی وضاحت میں بیان کئے گئے حقائق کا نام ہے۔ مصنّف نے برصغیر کے اسلامی نظام پر بھی 18 صفحات پر مشتمل ایک باب تحریر کیا ہے جس میں اس نے نظام کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے کسی مسلمان مؤرخ کا سہارا نہیں لیا بلکہ باب کے عنوان سے ہی اس گواہی کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے، ’’برصغیر کا اسلامی نظامِ قانون: چیئرمین ایسٹ انڈیا کمپنی کی گواہی۔ یہ شخص آر چی بالڈ گیلوے (Archibald Galloway) ہے۔ 1810ء میں برطانوی میجر جنرل سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ڈائریکٹر ہوئے اور 1849ء میں کمپنی کے چیئرمین بنے۔ آصف محمود نے نہ صرف اس کی لکھی ہوئی کتب سے اسلامی قوانین کی عظمت کی گواہی کشید کی ہے بلکہ اس دور سے متعلق تمام تاریخی مواد کو بھی چھانا ہے اور پھر وہ یہ اعتراف لے کر سامنے آیا ہے کہ برصغیر میں جو کامیاب آئین اور قانون سات سو سال سے نافذ تھا وہ صرف اور صرف اسلامی قانون تھا جسے انگریز نے تبدیل کر دیا۔ انگریز ایک جھوٹ بھی بولتا ہے کہ ’’ہم نے اس خطے پر سب سے پہلے قانون کی حکمرانی قائم کی حالانکہ اس کی آمد سے پہلے یہاں ایک بہترین نظامِ انصاف رائج تھا‘‘۔ برصغیر مسلمانوں کے نظام میں جو خصوصیات آصف محمود نے اکٹھا کی ہیں اس کے بعد ہمیں اپنے ماضی سے محبت ہونے لگتی ہے۔ اس کے بعد کے چار ابواب پاکستان کے موجودہ نافذالعمل قوانین کا بھر پور تنقیدی جائزہ ہیں۔ پولیس کے بارے لکھے گئے باب کا عنوان خود ایک وضاحت ہے ’’پولیس پاکستان کی یا ملکہ وکٹوریہ کی؟‘‘۔ پانچویں باب کا عنوان ہے ،نوآبادیاتی قانون: غلامی کی ’’مدوّن‘‘، دستاویز، یہ بہت طویل باب ہے، لیکن پڑھنے والے کی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ چھٹا باب بھی اسی سے منسلک ہے جس کا عنوان ہے ’’نظامِ قانون یا نظریہ غلامی‘‘۔ اس میں جس طرح تاریخی حوالوں اور موجودہ صورتِ حال کے تقابل سے نوحہ لکھا گیا ہے وہ آصف محمود کا ہی کمال ہے، اور آخری باب ’’یہ احساس کمتری کب تک‘‘، پاکستان کے ہر قانون دان، سیاست دان اور اہلِ علم کو بار بار پڑھنا چاہئے۔ کالم کا تنگی داماں اور کتاب کی وسعت ایک بار پھر مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس دلاتی ہے۔ شیبانی فائونڈیشن اسلام آباد نے اسے چھاپ کر اس قوم پر احسان کیا ہے۔