سستے آموں کے حوالے سے آم کے آم گٹھلیوں کے دام ایک محاورہ ہے مگر اس مرتبہ آم کی فصل بہت کم ہوئی ہے اور آم مہنگا ہونے باعث عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گیا ہے۔ ملتان اوروسیب کے دیگر علاقوں میں ہائوسنگ سوسائٹیوں نے آم کے باغات کو اجاڑدیا ہے۔ صبح اٹھتے ہیں تو آم کی لکڑیوں سے بھری ہوئی بیل گاڑیاں، پھٹہ رکشہ اور ٹریکٹر ٹرالیاں لکڑ منڈی کی طرف جاتی نظر آتی ہیں جبکہ پہلے یہ آم کی پیٹیاں بھر کر شہرکی فروٹ مارکیٹ کی طرف جاتی نظر آتی تھیں۔دل بہت دکھتا ہے جس طرح کوئی قتل ہو جائے تو دل پر بوجھ ہوتا ہے ایسے لگتا ہے جیسے آموں کے باغ قتل ہو رہے ہیں۔کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ آم کے باغات کا یہ قتل عام رک جائے؟ ۔ آم خود رو پودا نہیں اور یہ ایسی فصل بھی نہیں جو بغیر محنت کے تیار ہو جائے ، آم کی کاشت سے لیکر اسے ثمر آور بنانے تک بہت زیادہ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے ،وسیب کے بزرگ کاشتکاروں کا مقولہ ہے کہ آم کا ایک بوٹا (پودا) ایک بیٹا جوان کرنے کے مترادف ہے ۔ ملتان صدیوں سے آم کا مرکزہے اور آج بھی پوری دنیا میں ’’ ملتان مینگو سٹی ‘‘ اسکی پہچان ہے ،اس خطے میں تین ہزار قبل مسیح سے آم ہر انسان کا پسندیدہ اور مرغوب پھل چلا آ رہا ہے ۔ آم کے بارے میں عراقی مصنف محمد ابوالقاسم بغدادی جنہوں نے 934ء تا 968ء وسیب یعنی وادی سندھ کا سفر کیا، اپنی یاد داشتوں کو قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اس علاقے میں ایک فروٹ ہے جسے امبہ کہتے ہیں جو بہت مرغوب اور لذیز ہے ، شکل میں آڑو جیسا،اس پھل کی بہت پیداوار ہوتی ہے اور یہ بہت سستا ہے۔‘‘ ملتان کے شہزادہ علی محمد خان خدکہ سدوزئی اپنی کتاب ’’تذکرۃ الملوک عالیشان ‘‘ (سال تصنیف 1251ھ )میں آم کی صفات بیان کرتے ہوئے اسے پھلوں کا بادشاہ قرار دیتے ہیں۔ یونانی ، ایرانی ،افغانی اور عرب فاتحین نے ملتان پر قبضہ کیا تو یہاں کے دیگر وسائل کے ساتھ ساتھ آم بھی ان کیلئے مرغوب ٹھہرا مگر انہیں آم کھانے کا سلیقہ نہیں آ تا تھا پھر ملتانی میں کہاوت مشہور ہوئی ’’امب کوں جایا کھا سگدے آیا نی کھا سگدا ‘‘ اس کا مطلب کہ آم کو دھرتی کا سپوت کھا سکتا ہے باہر سے آیا حملہ آور نہیں کھا سکتا۔ ملتان کے معروف کاشتکار اور مصنف ’’صلائے آم ‘‘ حامد خان درانی لکھتے ہیں کہ’’ قیام پاکستان سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندؤں نے بھی آم کے باغات کو ترقی اور توسیع دینے میں اہم کر دار ادا کیا ، ان کا کہنا تھا کہ ایک تو پوری دنیا کے لئے آم ہمارے خطے کی بہترین سوغات ہے ، دوسرا ہندو مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ آم کی لکڑ ی سے جلایا جانیوالا مردہ سیدھا بہشت میں جاتا ہے ۔‘‘ سرائیکی وسیب سے آم ہندوستان کے دوسرے خطوں میں گیا ،سرائیکی وسیب کے باغات سے ہندوستان کے زمیندار اور امراء حتیٰ کہ سلاطین وقت نے بھی باغبانی کی طرف توجہ دی ۔ اکبر اعظم کے دور میں لاکھ باغ اور شاہجہاں کے شالیمار باغ میں خصوصی طور پر آم کی پرورش کرائی گئی ۔امیر خسرو (1325ھ) اور مرزا غالب (1779-1869ئ) نے آم کے قصیدے اور مثنویا ں اردو میں لکھیں ،سرائیکی شاعری میں آم کو صدیوں سے لیکر آج تک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔ وسیب جسے انڈس ویلی ،وادی سندھ اور ’’سپت سندھو‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آم کا اصل وطن ہے ۔آم کی داستان پل دو پل کا قصہ نہیں بلکہ صدیوں پرانی کہانی ہے مگر اس بارے خاص بات یہ ہے کہ آم پیدا کرنے والا صدیوں پہلے بھی مشکلات کا شکار تھا اور آج بھی مشکلات کا شکار ہے ، وجہ یہ ہے کہ خطہ جسے زرعی پیداوار اور باغات کی وجہ سے ہمیشہ ’’پیراڈائز‘‘ یا بہشت بریں کہا گیا، ہمیشہ سے حملہ آوروں کی زد میں رہا۔ دہلی یالاہور جو حملہ آوروں کے عافیت کدے رہے وہاں زراعت اور صنعت وحرفت سے وابستہ افرادکی حوصلہ افزائی ہوئی مگر وسیب نے جو بھی کمال حاصل کیا اپنی ہمت اور اپنی محنت سے کیا ۔ آج بھی وسیب پر رنجیت سنگھ کی روح سایہ فگن ہے ،وہ رنجیت سنگھ جس نے یہاں کے شہروں کے ساتھ باغات کو بری طرح اجاڑا ، مگر وسیب کے کاشتکار نے اپنے وسیب کوپھر گلستان بنایا اور وہ دوسری زرعی پیداوار کے ساتھ آم کی نت نئی اور اعلیٰ ترین ورائٹیاں آج بھی دنیا کو دیتا چلا آ رہا ہے۔ وسیب میں آموں کی مختلف ورائٹیوں کے سینکڑوں نام ہیں یہ نام آموں کی شکل و شباہت ، ذائقے اور خطے کے حوالے سے ہیں، اب تو نام اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ کاشتکاروں نے اپنے اپنے علاقوں اور اپنے بزرگوں کے نام سے بھی آم کی ورائٹیاں تیار کی ہوئی ہیں۔ آم کی مشہور ورائٹیوں میں ثمر، بہشت، انور رٹول، سندھڑی، لنگڑا، دُسیری، مالٹا، سرولی، لب معشوق، غلاب، غلاب جامن، کالا پہاڑ، فجری، فجری گولہ، غبالی، صدقہ پنجتن، صنوبر، طوطا پری، چونسہ، چونسہ لیٹ، زلف بنگال، سوبھ آلی ٹنگ، سہاگ، دل پسند، نازک بدن، مکھنْ، منڈھی، خانگڑھی بچہ، ملتانی بادشاہ نواب، آمن عباسی، پسند مہے، اشک ملتان، رومان، بے نظیر بہاولپوری، انوکھا سردا، مٹھا، منٹھار، ہاں ٹھار، زعفران، زمرد یہ صرف چند نام ہیں اسی طرح دوسرے سینکڑوں نام ہیں،یہ سینکڑوں نام آم کی اہمیت اور پیدواری وسعت کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہیں۔ اصل تخمی آم ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے، وسیب میں اسے ’’دیسی ‘‘ آم بھی کہا جاتا ہے۔ سرائیکی زبان میں آموں کی دعوت کو ’’ساونی ‘‘کہتے ہیں ، پہلے یہ ہوتا تھا کہ باغوں میں جھولے ڈلتے تھے ،سکھیاں آم ،انار اور کھجور کھانے کے ساتھ ساتھ ملکر سہرے گاتیں ، اسی طرح مرد پیر و جوان مل کر باغوں میں جھولے جھولتے ، سرائیکی میں جھولے کو پینگھ کہتے ہیں، ’’پینگھ ‘‘ رچاتے اور ملکر ’’گاونْ ‘‘ گاتے۔ ڈھول کی تھاپ پر سرائیکی جھومر ہوتی اور یہ جھومر کئی گھنٹوں تک جاری رہتی، ڈھول کی لے ساتھ ساتھ جھومر کے انداز اور رفتار میں بھی تیزی آجاتی ۔اب وہ رونقیں نہیں رہیں ،مشینی دور نے لطیف احساسات کو روند ڈالا ہے، آم کی ’’ساونی‘‘ اب بھی ہوتی ہے مگر نہروں اور ٹیوب ویلوں پر لوگ جاتے ہیں مگر اس میں سرائیکی کلچر کم اور مغربی زیادہ نظر آتا ہے ، جو پاکیزگی حسن خوبصورت سرائیکی کلچر و جھومر میں ہے وہ انگریزی ڈانس اور بھنگڑوں میں کہاں؟۔