روئے سخن نہیں تو سخن کا جواز کیا بن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا کتنی اداس شام ہے شام فراق یار جائے گا کوئی رنج ستم ہائے راز کیا اور وہ شعر جو میں لکھنا چاہتا ہوں یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے۔اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا۔خالد احمد نے بھی ایک بات کی تھی کہ شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے۔سنگ آنکھیں نہیں رکھتے ہیں کہ سر دیکھیں گے۔میں کوئی خون رنگ تحریر نہیں لکھنے جا رہا بلکہ دلچسپ سی باتیں کرنا چاہوں گا کہ جو مجھے خط اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں۔ مثلاً ابھی ایک پوسٹ دیکھی کہ پی ٹی وی ہم دیکھتے نہیں ریڈیو ہم سنتے نہیں تو پھر اس جرم کی سزا تو بنتی ہے اور وہ ہمارے بلوں میں ٹیکس کی صورت ہوتی ہے۔ واقعتاً یہ ایک تماشا ہے مذاق ہے اور زبردستی ہے جسے جبر کیا جا رہا ہے۔ کہاں ہوتا ہو گا ایسے کسی ملک میں کہ جتنی بھی بجلی ملک میں چوری ہو وہ شریف شہریوں پر تقسیم کر کے ڈال دی جائے۔ کتنے ہی بوجھ ہیں جو ہم پہلے ہی اٹھائے ہوئے ہیں اور حصار بے در و دیوار میں رہتے ہیں۔ ہم اشارے کنائے میں بات کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ تو اونچی اور صریح بات پر بھی سر نہیں ہلاتے۔خواجہ آصف کا ڈائیلاگ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔پی ڈی ایم کی حکومت بلکہ سیدھے الفاظ میں ن لیگ کی حکومت کیا کیا گل کھلا کر جا رہی ہے اور ان گلوں کی مہک بھی ہرطرف پھیلی ہوئی ہے۔انہوں نے وہ کام کیا جو خان صاحب ساڑھے تین سال میں کر کے عتاب کا شکار ہوئے ان کاریگروں نے صرف ایک سال میں کر دیا اور کامیاب حکومت چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ عوام کی چیخیں نکلوانے کو کامیابی گردانتے ہیں۔ سب سے مزیدار بات یہ کہ نگران سیٹ اپ کے لئے پھر سے جوڑ توڑ ہو رہا ہے حالانکہ نگران سیٹ اپ تو ایک فارمیلٹی ہے کہ یہ سب بھی نگرانی ہی میں ہو رہا ہے ہم تو کب سے نگرانی میں جیتے ہیں شعور ہمیں اب سوشل میڈیا نے دیا ہے یا ایک سر پھرے نے انکار کر دیا۔گردن میں سریے والے بھی پریشان ہیں۔ جو محاورے بنے وہ سالہا سال کی مشق کا نتیجہ ہے اور پھر جو مصرعے زبان زد عام ہو گئے کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا۔سب جانتے ہیں کہ ملک کو کس کی ضرورت ہے اور کس کی نہیں ہے سب سمجھتے ہیں کہ اپنی پوزیشن بحال کرنے کے لئے کون کتنا کامیاب ہوا۔جب یقین کرنے لگتے ہیں تو منظر پھر بدل جاتا ہے ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلمان ہو گیا۔ ایک تاثر کو پنپنے تو دیں کہ باوقار ادارے کو سب کے لئے قابل احترام ہونا چاہیے کہ لوگ دل و جان سے عزت کرنا چاہتے ہیں مگر یہ اچانک بھانت بھانت کے لوگ پھر جمع ہو گیا سارے جہاں کے دھتکارے ہوئے انہیں استحکام کون بخش رہا ہے۔ بہت مزہ آیا کہ فردوس عاشق اعوان کی پریس کانفرنس سن رہا تھا یہ نہ سمجھیے میں کوئی سنجیدگی سے یہ عمل کر رہا تھا بلکہ میں اس کو انجوائے کرتا ہوں کہ بقول غالب: بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں محترمہ فرما رہی تھیں کہ ان کی ساری عمر گزر گئی کہ کس طرح نظام بدل جائے اس مقصد کے لئے انہوں نے کئی پارٹیاں بدلیں ظاہر جب تک یہ نظام نہیں بدلتا وہ بھی ٹکیں گی نہیں اسی طرح پارٹیاں بدلتی رہیں گی۔انہوں نے بھی پارٹیاں بدلیں مگر خود کو نہیں بدلا۔وہ کس رسان سے خود کو ہر الزام سے نکال کر لے گئیں اور تو اور پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ وہ موجد بھی ہیں کہ عمران ریاض ان کی ایجاد ہے۔ چلئے ایسی پریس کانفرنس تفریح تو ہے آپ محترمہ کا کیا بگاڑ سکتے ہیں صحافی محترمہ سے ڈرتے ہیں کہ پتہ نہیں وہ فری سٹائل میں کچھ کہہ ہی نہ دیں۔یہ لوگ بڑی غلط فہمی میں ہیں یا پھر ان کو صحیح فہمی دلائی گئی ہے میرا نہیں خیال کہ اس درجہ دھاندلی ہو سکے یعنی اتنی موٹی تازی دھاندلی دوسرے حصے دار بھی تو آرام سے نہیں بیٹھے ہوئے کچھ بانٹ کر کھانا پڑے گا۔ حکومت کو دیکھیے کہ وہ کس قدر اعتماد کے ساتھ نڈر ہو کر عوام کو موت کی طرف دھکیل رہی ہے ان کو لگاتار بجلی کے جھٹکے لگائے جا رہے ہیں اب کے تو انتہا ہی ہو گئی کہ حکمرانوں نے جاتے جاتے بھی آئی ایم ایف اور کسی اور کو خوش کرنے کے لئے بجلی ساڑھے 7روپے فی یونٹ مہنگی کر دی ہے گویا کہ بجلی پچاس روپے فی یونٹ تک پہنچ چکی یکم جولائی سے اس کا اطلاق بھی ہو جائے گا۔اور پھروزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ الیکشن میں عوام کا فیصلہ قبول کریں گے عوام زندہ رہیں گے تو ووٹ ڈالیں گے آپ کے پاس تو الیکشن لڑنے کا بھی کوئی اخلاقی جواز نہیں۔آپ ایک سال میں معیشت کو دفن کر کے جارہے ہیں غریب کہاں سے بجلی کے بل ادا کرے گا چوری کرے گا یا ڈاکے مارے گا۔رشوت لینے کا موقع اسے نہیں مل سکتا کہ وہ سرکاری بابو نہیں یا آپ کی طرح خزانے پر دسترس نہیں رکھتا۔ آپ تو لوگوں کو باقاعدہ لوٹنے پر آ گئے ہیں ابھی ہمارے دوست معروف شاعر یعقوب پرواز سے پتہ چلا کہ اس مرتبہ اٹھارہ ہزار روپے بل آیا روٹین سے کہیں زیادہ۔ محترمہ فائزہ میری عزیز ہیں وہ صرف دو لوگ ماں اور بیٹا ایک تین مرلہ پورشن میں رہتے ہیں بل سات ہزار روپے سچ مچ اندھی ڈالدی گئی ہے میں کوٹھیوں کی بات نہیں کر رہا وہاں تو پچاس ہزار روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے لوگ ڈرتے اے سی نہیں چلاتے بل مگر اتنا لوگ بلبلا رہے ہیں۔ پھر فرما رہے ہیں کہ دن رات منتیں کر کے آئی ایم ایف کو منایا جناب آپ ہر جگہ منتوں ہی سے کام چلاتے ہیں۔اپنی عیاشیوں میں کچھ کمی نہیں آئی آپ نے کتنی بڑی فوج وزیروں مشیروں کی پال رکھی ہے اس دسترخوان پر گیارہ پارٹیاں بھی تو ہیں۔ آپ پتہ نہیں کس امید پر عوام کا حشر نشر کر رہے ہیں آپ کو یقین ہو چلا ہے کہ ووٹ سے زیادہ کوئی اور اہم ہے ویسے آپ ٹھیک ہی سوچتے ہیں۔