یہ آفاقی سچائی ہے کہ طاقتور کبھی کسی اخلاقی یا قانونی ضابطے کا تابع ہونا قبول نہیں کرتا جبکہ طاقت کا خاصہ یہ ہے کہ افراد ہوں یا معاشرے یہ اپنے مراکز تبدیل کرتی رہتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ افراد میں یہ ارتقائی عمل مہینوں برسوں جبکہ معاشروں میں دھائیوں اور صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ کرۂ ارض پر عظیم الشان سلطنتوں کے عروج و زوال کی گواہ ہے۔ یونانی جو دنیا فتح کرنے نکلے تھے آج دنیا کے نقشہ پر ان کا وجود وقت نے عبرت بنا دیا ہے۔فارس کے شاہ نے عربوں کو سوسمارکھانے والے اجڈ کا طعنہ دیا انہی عربوں نے فارس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ عظیم رومن سلطنت عربوں اور ترکوں کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔ تین براعظموں پر حکمران مسلمانوں کے خون سے منگولوں نے دریا کا پانی سرخ کر دیا۔ ہندوستان کے مغلوں نے ہمیشہ اپنے مقابل سلطنت عثمانیہ کو سمجھا۔جس سلطنت برطانیہ کو کسی کھاتے میں نہیں لکھتے تھے اسی برطانیہ نے ناصرف ہندوستان بلکہ دنیا پر حکومت کی۔ تخت برطانیہ میں سورج غروب نہ ہوتا تھا۔برطانیہ اٹلانٹک پیکٹ کے بعد اپنے ہی ہم نسل اور ہم مذہب امریکیوں کے ہاتھوں نو آبادیاتی نظام ختم کرنے اور طاقت کا مرکز امریکہ کو منتقل کرنے پر مجبور ہوا۔ امریکہ نے عالمی امن کے نام پر اقوام متحدہ ایسا ادارہ تو بنا دیا مگر خود کو ہمیشہ عالمی قوانین سے مستثنیٰ سمجھا۔امریکہ کی لامحدود اجارہ داری کوسوویت یونین نے چیلنج کیا ، امریکہ کویہ گستاخی کیونکر قبول ہو سکتی تھی۔امریکہ نے امارات اسلامیہ کے سبز باغ دکھا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو ڈالر اور اسلحہ دے کر افغانستان میں اتارا۔ سوویت یونین 5لاکھ افغانیوں کے خون میں تحلیل ہوگئی۔ اسلامی امارات کا خواب دیکھنے والے خواب کو حقیقت میں بدلنے پر بضد ہوئے تو اس نے 9/11کو جواز بنا کر افغانستان کے ساتھ عراق، شام، یمن پر جنگ مسلط کرنے کے لئے عالمی برادری بالخصوص یورپی اتحادیوں کی اسلامو فوبیا کے ڈرائونے خواب سے نیندیں اڑا دیں۔ تین دھائیوں تک مسلمانوں کا خون ناحق بہایا گیا۔ 15لاکھ مسلمان رزق خاک ہوئے۔ کاش امت کے اکابرین نے مفکر پاکستان کی مغرب کی جمہوریت کے بارے میں رائے پر کان دھرے ہوتے اور علامہ اقبال کی دور اندیشی پر یقین کیا ہوتا ۔ اقبال نے کہا تھا گراں خواب چِینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے اْبلنے لگے امت مسلمہ جب امریکی زخم چاٹ رہی تھی عین اسی وقت گراں خواب چینی اقوام عالم کی مضبوط تر معیشت بن کر ابھرے۔ امریکا کو اپنی اجارہ داری خطرے میں نظر آئی تو مسلم ممالک کے ساتھ چین کو بھی نشانے پر رکھنے کے جتن شروع کر دیئے۔ مشرق بعید کو چین کے مقابل میں کھڑا کرنے کے لئے اسلامو فوبیا کا کامیاب تجربہ سینو فوبیا کی صورت میں دہرایا گیا۔ چین کے مقابلے آسٹریلیا، جاپان، بھارت اورامریکہ کی صورت میں کوارڈ سٹریٹیجک اتحاد تشکیل دے کرسرد جنگ شروع کردی تو چین کو اندر سے کمزور کرنے کے لئے تائیوان جنوبی کوریا کی جلتی پر تیل پھینکا گیا۔بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لئے پاکستان کو عدم استحکام اور معاشی دلدل میں دھکیل دیاتاکہ بھارت پاکستان کے خطرہ سے بے نیاز ہو کر چین سے بھڑ جائے۔ یورپ کو زیر تسلط رکھنے کے لئے روسو فوبیا کا واویلا کرنے کے بعد روس پر یوکرائن جنگ مسلط کر دی۔ امریکہ نے اسلحے کے زور پر روس کا ’’ہوا‘‘ کھڑا کر کے یوکرائن کو جنگ میں جھونکنے کی چال چلی ۔ یہ الگ بات ہے کہ فرانس اور جرمنی امت مسلمہ کی طرح خوابوں کے چال میں الجھنے پر آمادہ نہیں۔ عین ممکن ہے کہ یوکرائن کے بعد پولینڈ کو روس سے لڑانے کے لئے کوئی ڈرامہ رچا کر جنگ کو یورپ تک پھیلا دیا جائے۔ یہ تو طاقتور کے طاقت پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے حربے ہیں مگر طاقت کا محور تبدیل ہونا فطری عمل ہے اور ماضی گواہ ہے کہ کوئی جتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو اسے فطرت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا ہی پڑتا ہے۔ عظیم برطانیہ جہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر قانون فطرت کے آگے نہ ٹھہر سکا۔ اقبال نے تو مسلمانان عالم بالخصوص مشرق کو اس وقت بھی یہی بتایا تھا کہ طہران ہو گر عالَمِ مشرق کا جینوا شاید کْرہ ارض کی تقدیر بدل جائے! اس وقت امت مسلمہ کی آنکھیں مغربی جمہویت کی چکا چوند کی وجہ سے بے نور ہو چکی تھیں اس لئے اقبال کے سچ کو نہ پہچان سکیں۔مگر آدھی اسلامی دنیا کو بیس لاکھ جانیںقربان کرنے اور وسائل لٹانے کے بعد شاید اب اقبال کا کہا یاد آرہا ہے۔ ایران ،سعودی عرب کے بعد شام اورسعودی عرب تعلقات کی بحالی سے اندھی کھائی میں گری امت مسلمہ کو امید کی ایک کرن نظر آ رہی ہے۔پیٹرو ڈالر اتحادجیسے کمزور ہورہا ہے امریکہ کے دیوالیہ ہونے کے چرچے امریکہ سے یورپ تک سنے جا رہے ہیں۔تہران مشرق کا جنیوا کب بنتا ہے یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر ایک بات اقوام عالم سمیت خود امریکی بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں رہا۔ اب چین اور روس کی آنکھیں دکھانے کے ساتھ کمزور ممالک بھی آنکھیں پھیر رہے ہیں۔ اسلامو فوبیا نے بھلے ہی امت مسلمہ کو لہو لہان کر دیا ہو مگر اب زخمی مسلم ممالک کے حکمران نہ سہی عوام امریکی نفرت میں نہ صرف چین اور روس کی طرف التجائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ حکومتیں بھی اس جانب سرکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسلامو فوبیا کے قہر نے ترکی‘سعودی عرب یہاں تک کہ پاکستان کو چین اور روس کے نئے عالمی بلاک کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ شام کے بعد سوڈان اور یمن میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے ترکی کے ساتھ سعودی عرب میں بھی امریکہ بے زاری کی لہر کو جنم دیا ہے۔ بین الاقوامی معاملات کے ماہرین بدلتے عالمی منظر نامے میں پیٹرو ڈالر گٹھ جوڑ کو اپنے انجام تک پہنچتا دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ سر سے اڑتے ہما کو قابو کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ امریکی غرور طاقت سے دستبرداری قبول کرنے پر تیار نہیں مگر وقت کا پہیہ رواں ہے ۔ممکن ہے یوکرائن جنگ یورپ میں پھیلنے کے بعد محاذ جنگ مشرق بعید اور جنوبی ایشیا تک پھیل جائے۔ چین روس ممکن ہے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر تو مجبور نہ کر سکیں مگر طاقت کا ٹائی ٹینک آخر کار اپنے بوجھ سے ہی ڈوبتامحسوس ہو رہا ہے ،یہ الگ بات ہے کہ جہاز جتنا بڑا ہوتا ہے ڈوبنے میں اتنا ہی وقت لیتا ہے مگر مقدر اسکا غرق ہونا ہی ہوتا ہے۔