سعودی عرب، دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ اور خطے کی اہم مسلمہ طاقت ہے، حال ہی میں کئی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوششوں کی وجہ سے جو مختلف مسائل کی وجہ سے منقطع ہو گئے تھے عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں ہے۔ دو روز قبل سعودی عرب اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے، مفاہمت کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان گزشتہ نومبر میں بنکاک میں ہونے والی ایشیا پیسیفک اکنامک کو آپریشن (APEC) سربراہی اجلاس میں ہونے والی ملاقات کے نتیجے میں ہوئی، جہاں انہوں نے ''باہمی احترام اور مشترکہ مفادات'' کی بنیاد پر تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ اس سے قبل مارچ 2023 میں، مشرق وسطیٰ میں اہم ترین پیش رفت سخت حریف سعودی عرب اور ایران نے بھی چین کی ثالثی میں سفارتی تعلقات بحال کئے جس سے عالمی سطح پر ہلچل پیدا ہوئی، یہ اعلان بغداد میں سعودی اور ایرانی حکام کے درمیان مذاکرات کے کئی دور کے بعد کیا گیا، جس کی سہولت عراق کے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے برسوں سے پراکسی جنگ میں بند دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی کوشش کی۔ سعودی عرب اور شام کے تعلقات بھی بحال ہوئے اور شام کے صدر بشار الاسد عرب ممالک سے تنہائی ختم کرکے عرب لیگ اجلاس میں شریک ہوئے۔ ان پیش رفت سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے ان ممالک کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کی بحالی کے مقاصد اور محرکات کیا ہیں؟ اور کیا سعودی عرب عالمی سطح پر کوئی نیا کردار ادا کرنا چاہتا ہے؟۔ کینیڈا کے ساتھ سفارتی بحالی ایک اہم پیش رفت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازع اگست 2018 میں شروع ہوا، جب سعودی عرب نے کینیڈا کے سفیر کو ملک بدر کر دیا اور اوٹاوا کے ساتھ نئے تجارتی اور سرمایہ کاری کے سودے منجمد کر دیے، یہ اقدام اس وقت کیا گیا جب کینیڈا کی وزارت خارجہ اور سفارت خانے کی جانب سے مملکت میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ممتاز کارکنوں کی گرفتاریوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا گیا، جن میں بلاگر رائف بداوی کی بہن ثمر بداوی بھی شامل ہیں۔ سفارتی تنازعات نے دونوں ممالک کے مفادات خاص طور پر تجارت، سلامتی اور تعلیم پر منفی اثرات مرتب کئے۔ شماریات کینیڈا کے مطابق، کینیڈا اور سعودی عرب کے درمیان دو طرفہ تجارتی تجارت 2017 میں 4 بلین ڈالر سے کم ہو کر 2020 میں 2.3 بلین ڈالر رہ گئی۔ کینیڈا کی سعودی عرب کو برآمدات نصف سے بھی کم ہو کر 1.4 بلین ڈالر سے 683 ملین ڈالر رہ گئیں، جبکہ درآمدات میں 28 فیصد $2.6 بلین سے $1.9 بلین تک کی کمی واقع ہوئی کینیڈا نے سعودی عرب کی اسلحہ کی منافع بخش مارکیٹ تک رسائی بھی کھو دی، کیونکہ ریاض نے 2019 میں کینیڈا کی ایک کمپنی سے ہلکی بکتر بند گاڑیاں خریدنے کے لیے 15 بلین ڈالر کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے کینیڈا میں سرکاری وظائف پر تعلیم حاصل کرنے والے اپنے ہزاروں طلباء کو ملک چھوڑ کر کہیں اور اپنی تعلیم جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اس سے نہ صرف طلباء کے تعلیمی منصوبے متاثر ہوئے بلکہ کینیڈا کی وہ یونیورسٹیاں اور کالج بھی متاثر ہوئے جو اپنی ٹیوشن فیس پر انحصار کرتے تھے۔ یہ سب کینیڈا کے لئے خوشگوار ثابت نہیں ہوا لیکن سعودی عرب کی سفارتی رسائی کئی عوامل کے مجموعے جیسے مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر کے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے سے چلتی ہے۔ سعودی عرب اس جدت پسندی کی راہ پر گامزن ہے اور اسے مستقبل میں تیل کی مصنوعات پر انحصار کم ہونے کی وجہ سے وسائل کی کمی کا سامنا ممکن ہوسکتا ہے۔کوویڈ وبائی امراض اور تیل کی قیمتوں میں کمی سے پیدا ہونے والے معاشی چیلنجز، نے سعودی عرب کی آمدنی کو متاثر کیا اور اسے اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور نئی منڈیوں اور سرمایہ کاری کی تلاش ہے۔ سعودی عرب وژن 2030 کے بڑے منصوبے کے تحت اپنی معیشت کو تیل پر انحصار سے چھٹکارا دلانے کے لیے پُرعزم ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات، جو قدامت پسندی سے معاشرے اور طرز حکمرانی کو جدید بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ انہیں کچھ قدامت پسند دھڑوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی تنقید اور مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان بین الاقوامی میدان میں سعودی عرب کی شبیہ اور ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں، سعودی عرب کی سفارتی رسائی عالمی میدان میں زیادہ فعال اور تعمیری کردار ادا کرنے کے اس کے عزائم کی عکاسی کرتی ہے اور ساتھ ہی بدلتے ہوئے حالات اور حقائق کے مطابق ڈھالنے کی خواہش بھی ہے۔ سعودی عرب مختلف ممالک اور خطوں کے درمیان بات چیت اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ سعودی عرب نہ صرف روایتی اتحادیوں جیسے امریکہ اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ بلکہ ابھرتی ہوئی طاقتوں جیسے چین، بھارت اور روس کے ساتھ بھی اپنے خارجہ تعلقات اور شراکت داری کو متنوع بنا رہا ہے۔ سعودی عرب کی سفارتی رسائی علاقائی اور عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے مزید ذمہ داری اور قیادت سنبھالنے کے لیے تیار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے حریفوں اور ناقدین کے ساتھ بات چیت اور سمجھوتہ کرنے کے لیے ’مشترکہ مفادات‘ کے تحت مفاہمتی پالیسی کی نشاندہی کرتی ہے تاہم، کچھ ناقدین سعودی عرب کے اقدامات مصنوعی حکمت عملی پر مبنی ہیں۔ تاہم سعودی عرب کی سفارتی رسائی ایک پیچیدہ رجحان ہے جس کی مختلف زاویوں سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ کچھ اسے تناؤ کو کم کرنے اور مختلف ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کی جانب ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسرے اسے سطحی اشارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم سعودی عرب کی سفارتی رسائی عالمی سطح پر ایک نیا کردار ادا کرنے کی خواہش کی نشاندہی بھی کر سکتی ہے۔ البتہ، یہ کردار کتنا تعمیری ہوگا یہ دیکھنا باقی ہے۔