گزشتہ روز ملک بھر میں یوم تکریم شہداء منایا گیا، اس سلسلے میں ملک بھر میں تقریبات منعقد کی گئیں، شہداء کے حق میں ریلیاں، واک اور سیمینار کا اہتمام کیا گیا ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں عظمت شہداء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک اعلان کیا کہ 9مئی کو ریڈ لائن کراس کرنے والے شرپسندوں کو معافی نہیں ملے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ عمران نیازی نے اپنے کارکنوں کو شرپسندی کی تربیت دی، کرپشن کیس میں گرفتاری پر کارکنوں کو حملے کی ہدایات دیں، حملے کرنے والوں، منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو کسی صورت معافی نہیں ملے گی جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے کہا گیا کہ حملے میں حکومتی لوگ ملوث تھے، اس سلسلے میں تحقیقات نہایت ضروری ہیں۔ یوم تکریم شہداء پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ، سروسز چیفس، ریٹائرڈ سروسز آفیسرز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شہداء پاکستان کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے، 25مئی کا دن پوری قوم کے لیے مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہر شہید کو یاد کرنے اور خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔ بلاشبہ شہدا ء نے قوم اور مادر وطن کی سا لمیت، خودمختاری اور فرض کی ادائیگی میں لازوال قربانیاں دیں، شہدا ہمارے ہیرو ہیں، شہدا کی لازوال قربانیاں وطن عزیز کی آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں، دشمنان پاکستان کے شیطانی پروپیگنڈے سے قطع نظر انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ یوم تکریم شہدا ء کے سلسلے میں مرکزی تقریب جی ایچ کیو میں منعقد ہوئی، یوم تکریم شہدا ء کے مہمان خصوصی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے جی ایچ کیو میں یادگار شہدا پر حاضری دی، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی، تقریب میں مسلح افواج کے حاضرسروس افسران کے علاوہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ، سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ندیم رضا اور دیگر ریٹائرڈ افسران بھی تقریب میں موجود تھے، اس کے علاوہ پاکستان ائیر فورس، پاکستان نیول ہیڈ کوارٹرز، فارمیشن ہیڈکوارٹراورپولیس کی شہدا یادگاروں پر بھی تقریبات منعقد کی گئیں۔ یہ سب کچھ اس بناء پر کیا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو پرتشدد احتجاج ،جلائو گھیرائو کے دوران فوجی تنصیبات اور یادگار شہداء پر حملے ہوئے جو کہ نامناسب ہی نہیں قابل مذمت بھی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کی بات کی جانی چاہئے مگر سیاست میں تشدد کا رحجان بھی کسی صورت نہیں ہونا چاہئے ، 9 مئی کے واقعات سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی اور دشمن ملک بھارت کو پاکستان کیخلاف زہر اگلنے کا موقع ملا۔ ملک میں جاری سیاسی کشمکش سے پوری قوم ذہنی اذیت کا شکار ہے، اسی کشمکش سے معیشت کو بھاری نقصان ہوا ہے ، غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی میں بے تحاشہ اضافے سے غریب زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ ہم نے عمران خان کے دور حکومت میں بھی انہی کالموں میں لکھا کہ وہ حکومت میں آ چکے ہیں اب کنٹینر سے نیچے اُتریں اور تحمل سے کام لیں ، قومی معاملات افہام و تفہیم سے درست کرنا چاہیے۔ ، ایوانوں میں آئین سازی کا کام ہونا چاہئے۔ پی ٹی آئی کو اس کے دور حکومت میںہم نے بارہا یاد دلایا کہ حکومت سرائیکی صوبے کے مینڈیٹ پر برسراقتدار آئی ہے ، صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کرتے وقت عمران خان نے 100 دن میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدہ کیا تھا مگر صوبہ بنانا تو دور کی بات نام تک لینا گوارا نہ کیاگیا، آج سب کہہ رہے ہیں کہ سارا بحران پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے پیدا ہوا، گو کہ اسمبلی خیبرپختونخواہ کی بھی تحلیل ہوئی مگر زیادہ شور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا مچایا گیا، یہ اس لئے تھا کہ اکیلے پنجاب کی آبادی باقی تینوں صوبوں سے بڑھ کر ہے اسی لئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو وزارت عظمیٰ سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ اگر عمران خان افہام و تفہیم سے کام لیتے اور اپوزیشن کی یہ پیشکش قبول کرتے کہ تحریک انصاف اسمبلی میں صوبے کا بل لائے ہم حمایت کریں گے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ صوبے کا مسئلہ حل نہ ہوتا اور سیاسی بحران بھی ختم ہو جاتا۔ آج سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے، وقت اور حالات کے ساتھ سیاستدان بھی اپنی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں، یہ بدقسمتی ہے کہ عمران خان کو ہر بات بعد میں سمجھ آتی ہے حالانکہ ان کو پہلے سمجھ جانا چاہئے تھا کہ وہ جس راستے سے اقتدار میں آئے تھے اُسی راستے سے واپس بھیجے گئے۔ نواز شریف بھی مجھے کیوں نکالا کی رٹ لگاتے رہے اور عمران خان نے بھی اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد یہی کہنا شروع کیا جس کی بناء پر یہ بات واضح ہوئی کہ مسئلہ صرف کرسی اور اقتدار کا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن سے نوجوان رنجیدہ تھے، اسی بناء پر نوجوانوں کی اکثریت نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا تھا ، مرکز سے بھی عام آدمی کو کوئی ریلیف نہ ملا، ایک کروڑملازمتیں دینے کی بجائے مزید ایک کروڑ لوگ بیروزگار ہوئے اور بے گھروں کو مکان دینے کے وعدے بھی مذاق بن کر رہ گئے ، ادارے جو پہلے تباہ تھے وہ مزید تباہ ہوئے۔ ہم نے انہی کالموں میں بار بار اصلاح احوال کیلئے لکھا مگر کوئی توجہ نہ دی گئی ، عمران خان سے لیہ میں ملاقات کے موقع پر پوری درد مندی کے ساتھ وسیب کے مسائل ایک ایک کر کے بیان کئے ، مسائل کے حل کا وعدہ بھی ہوا مگر کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہ ہوا۔ وفاداریاں بدلنے کے موسم میں وسیب میں جہانگیر ترین متحرک ہو چکے ہیں، مختلف پارٹیوں کے رہنمائوں کے علاوہ ایک ہفتے کے دوران بیس سے زائد اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کر چکے ہیں ، تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک بننے کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں جہانگیر ترین کی کوششوں سے صوبہ محاذ تحریک انصاف میں ضم ہوا اور بہت سے لوگوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی، الیکشن کے بعد جہانگیر ترین کے جہاز نے عمران خان کی حکومت بنوانے کیلئے اڑان بھری تھی۔ اب پرانے شکاری پھر نئے جال کے ساتھ سامنے آئیں گے ، پھر وہی ، صوبے کے جھوٹے وعدے ، لولی پاپ دئیے جائیں گے ، ڈھونگ رچائے جائیں گے مگر سوال یہ ہے کہ سرائیکی وسیب جہاں کروڑوں انسان بستے ہیں ان کے مقدر میں دھوکہ باز سیاستدانوں کی طرف سے محرومی ، پسماندگی اور غلامی کیوں لکھ دی گئی ہے؟ ۔