ایک کتاب ہمیں اردو کے ممتاز شاعر نذیر قیصر تک لے گئی اور ہم نے ان کی بیگم کے ہاتھ کی بنی ہوئی شاعرانہ سی چائے پی اور گزشتہ زمانوں کی باتیں کیں۔ پروفیسر افضل توصیف صاحبہ کو یاد کیا کہ یہ کتاب انہیں کی لائبریری سے مجھے ملی تھی پھر نذیر قیصر صاحب دیر تک نوید سے افضل توصیف صاحبہ کی یادیں بانٹتے رہے، وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔ کتاب کا قصہ یوں ہے کہ فیس بک پر نذیر قیصر نے اپنی کتاب تیسری دنیا کی بابت پوچھا کہ یہ کسی کے پاس موجود ہے۔ اسے حسن اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان دنوں ان کی یہ کتاب میری بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ پڑی تھی اور میں اس میں نذیر قیصر کی مزاحمتی طرز پر لکھی طویل نظموں کو حیرت سے سراہتی تھی کہ ان کی سطروں سے چھلکنے والا محبت کے شاعر کا مزاحمتی لب و لہجہ ایک دم لہو پہ وار کرنے والا تھا۔ کتاب میرے پاس تھی تو طے ہو گیا کہ کتاب ہم آتے جاتے ہوئے ان کے گھر پر ڈراپ کردیں گے ۔مگر انہوں نے بڑی مہربانی سے ہمیں چائے کی دعوت دے ڈالی۔پھر جولائی کی ایک گرم سہ پہر ہم ان کے گھر پہنچے تو ان کی سراپا غزل شریک حیات عابدہ نذیر نے دروازہ کھولا خوش دلی سے ملیں۔انہیں اپنے گھر کے کچن لاؤنج اور برآمدے میں آتے جاتے دیکھ کر نذیر قیصر صاحب ہی کا شعر ذہن میں آیا: ہنستی آنکھوں اور مہکتے ہونٹوں سے اس نے سارا گھر مہکایا ہوتا ہے عموماً شاعروں کی شاعری کسی ان دیکھی یا دیکھی محبوبہ کے لیے تو ہوتی ہے مگر بیویوں کے لیے نہیں ہوتی، مگریہ نذیر قیصر صاحب اور عابدہ نذیر ایک دوسرے کی محبت میں بھیگے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے ہیں۔عابدہ آپا کہتی ہیں کہ میں نے آج تک اپنی زندگی میں ان سے زیادہ نرم طبیعت اور محبت کرنے والا انسان نہیں دیکھا۔لیجیے نذیر قیصر کی محبت سے گندھی طبیعت کی گواہی انکی شریک حیات سے ملی تو گویا ایک سند مل گئی۔ اس ملاقات میں ان کی پانچ بلیاں بھی شریک تھیں ہم چائے پیتے رہے اور وہ دودھ بسکٹ کھاتی رہیں۔ چائے پیتے ہوئے میں نے پوچھا کیا آپ زندگی میں کبھی تنہائی کی وحشت سے نہیں گزرے۔اندرون ذات سے بیرون ذات تک بہت سے مظاہر ایسے ہیں جو ہمیں اداس کرتے ہیں یہ سب آپ کے شعر میں منعکس کیوں نہیں ہوتا ؟ نذیر قیصر مسکرائے اور بہت دھیمے لہجے میں بولے کہ مجھے تنہائی محسوس ہوتی ہے مگر میری تنہائی آباد ہے، اس میں وحشت نہیں اسی لیے زندگی کے یہ رنگ میری شاعری میں مختلف انداز میں منعکس ہوتے ہیں۔نذیر قیصر ،ناصر کاظمی کے زمانے کے شاعر ہیں۔ان کی شاعری نے تین نسلوں کے حس جمالیات اور ذوق کی آبیاری کی ہے۔ اور کون ہوگا جس نے گلشن آراء کی گائی ہوئی ان کی مشہور غزل نہ سنی ہوگی : تمہارے شہر کا موسم بہت سہانا لگے میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے پھر ایک اور مشہور گیت: دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے تم بھی ہو جاؤ گے پاگل ایسا لگتا ہے صدارتی ایوارڈز کی اس بار کی فہرست میں نذیر قیصر صاحب کا نام دیکھ کر مجھے حیرت سی ہوئی کہ یہ ایوارڈ تو انہیں دو دہائیاں پیشتر مل جانا چاہیے تھا۔ہر سال مستحق اور غیر مستحق ادیبوں و شاعروں میں سرکاری ایوارڈزاوراعزازات بٹتے رہے مگر تین نسلوں کو اپنے شاعری سے حیران کرنے والے نذیر قیصر کی زبان سے کبھی کسی نے ہلکا سا شکوہ بھی نہ سنا۔زندگی کی کھردرے پن کا کبھی گلہ نہ کرنے والے نذیر قیصر نظام الدین اولیاء کی امیر خسرو کو کی جانے والی نصیحت کو حرز جاں بنائے ہوئے ہیں کہ "بیٹا زندگی میں کبھی کسی سے گلہ نہ کرنا " مبارک باد کے لیے فون کیا اور کہا کہ آپ کو یہ ایوارڈ بہت دیر سے دیا گیا، مسکراتے ہوئے کہا میں تو حیران ہوں کہ اب بھی کیسے مل گیا میری نہ کوئی لابی ہے نہ گروپنگ نہ میں کوئی بیوروکریٹ ہوں کہ کسی کو مجھ سے کوئی کام ہو۔۔۔کمال ہے ایسا مطمئن شخص!ہزار لفظوں کے کالم میں نذیر قیصر کی شاعری پر کیا لکھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ بعض اوقات تخلیق کار اپنی تخلیق سے بہت مختلف نظر آتے ہیں لیکن ہم نذیر قیصر کی شاعری میں فطرت کی خوبصورتی کو سراہنے والے جس نفس مطمئنہ سے ملتے ہیں حقیقت میں بھی ہمیں ان کی شخصیت پہ وہی عکس نظر آتا ہے۔ایک حیرانی ضرور آپ کو گھیر لیتی ہے کوئی اتنا محبت سے لبریز اور فطرت سے ہم آہنگ کیسے ہو سکتا ہے۔ ولی دکنی سے ناصر کاظمی تک اور ناصر کاظمی سے جون ایلیا تک ہماری اردو شاعری وحشت تنہائی خزاں اداسی حسرتوں اور دکھوں کے اظہار سے بھر ی ہے مگر نذیر قیصر کی شعری کائنات ہمیں اس سے جدا نظر آتی ہے ۔ وہ خدا، کائنات اور محبت کی تکون میں رہ کر سچائی میںخوبصورتی اور خوبصورتی میں سچائی کو تلاش کرتے ہیں۔ہوابارش بادل سورج کرنیں دھوپ چھاؤں دن رات ۔کائنات میں فطرت کے جتنے بھی مظاہر ہیں وہ تمام کے تمام شاعر کے ایسے سنگی ساتھی جن سے وہ ہمکلام رہتے ہیں۔فطرت کے حسن میں بھیگے اور محبت کے ذائقے سے رچے ہوئے کچھ شعر دیکھئے: بارش ہوتی ہے مٹی میں کر نیں بوتی ہے بچہ ہنستا ہے کرنوں سے ناؤ بناتا ہے درخت کٹ چکے بہت، ہوا بکھر چکی بہت حیات خواب و آب سے کلام کر چکی بہت لگی تھی آگ درختوں کے پار دریا میں میں دیکھتا رہا اور آفتاب ڈھلتا گیا ہے ابھی دیر پھول کھلنے میں ہار میں گفتگو پرو جائیں حرف سے کو نپلیں نکل آئیں میرا لکھا پڑھا قبول ہوا نذیر قیصر کی۔ صورت اردو زبان کو ایسا ورڈز ورتھ میسر آیا کہ جو فطرت کے ان گنت مظاہر سے خوبصورتی تلاشنے اور سراہنے میں انگریزی زبان کے ورڈز ورتھ سے کہیں آگے ہے!