محلاتی سازشیں کوئی نئی بات نہیں‘ ایسی سازشوں کا آغاز پہلے انسانی جوڑے کے پیدائش کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ان سازشوں کی تاریخ اور تفصیل اگر کوئی لکھ سکتے تو ایسی دلچسپ کتابیں وجود میں آ جائیں کہ صدیوں ’’بیسٹ سیلر‘‘ رہینگی‘سازش بہادری اور طاقت کے مقابلے کے لئے کمزور اور بزدل لوگوں کا ہتھیار ہے‘جس کا وار چھپ چھپا کر کیا جاتا ہے خیر‘اپنے ہاں اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کی بساط نہیں مگر آج کل پاکستان کے ایوان صدر میں کم حوصلہ لوگوں نے جو کھیل رچایا ‘اسی طرح کے دو ایک واقعات اپنے قارئین کی نظر کرنا چاہوں گا جو کسی حد اپنے براہ راست تجربے سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ پاکستان کے تین صدور سے متعلق ہے‘ ہر واقعہ میں صدر کے اپنے گھر میں جاسوسی کا نظام بنایا اور استعمال کیا گیا‘ یہ واقعات صدر پاکستان غلام اسحق ‘ جناب فاروق لغاری اور وسیم سجاد سے متعلق ہیں۔غلام اسحق کے خلاف یہ بندوبست وزیر اعظم نواز شریف نے کر رکھا تھا‘ ایوان صدر میں اس کے کرتا دھرتا ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر عجائب خاں تھے‘ ایوان صدر آنے جانے میں ملٹری سیکرٹری کے ساتھ واسطہ رہتا، ہارون الرشید‘ حسن نثار‘ نجم سیٹھی ان دنوں نواز شریف کے بارے میں ننگی تلوار بنے ہوئے تھے‘ انکی حماقتوں اور بدعنوانیوں کو کھل کر بے نقاب کرتے‘ ایک دن وہ میری موجودگی میں ’’حد سے گزر گئے‘‘ ان کی شان میں ایسی بازاری زبان اور مغلظات بکیں کہ ہم دیہاتیوں نے بھی کبھی سنی نہ تھیں‘ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس میں تنائو شدت اختیار کر چکا تھا‘ بریگیڈیئر صاحب پر نواز شریف کی طرف سے ہونے والی نوازشات ہر سینیٹر کی زبان پر تھیں‘ سینیٹر اور دیگر ملاقاتی شاکی تھے کہ ایوان صدر میں ملاقات کے بعد اکثر اوقات نواز شریف انہیں بلا بھیجتے اور صدر سے ہونے والی باتوں کو کریدتے ہیں‘ ایک دن پاکستان کی بری فوج کے سپہ سالار آصف نواز سے مختصر سی ملاقات ہو گئی‘ انہوں نے بلا تمہید کہا‘ صدر صاحب کہیں اپنا ملٹری سیکرٹری تبدیل کر دیں‘ اس کی وفاداریاں نواز شریف کے ساتھ ہیں‘ اس لئے کوئی راز ‘ راز نہیں رہتا‘ ہم تو پہلے سے شک کر رہے تھے‘شک یقین میں بدل گیا تو صدر صاحب سے ملاقات میں عرض کیا کہ براہ کرم بریگیڈیئر عجائب کی جگہ کوئی نیا ملٹری سیکرٹری طلب کریں‘ اس کی موجودگی مشکلات پیدا کر رہی ہے، کوئی فوری نوعیت کا پیغام بھی تو اس کے ذریعے نہیں دیا جا سکتا‘ آپ کے ہر دوست اور ملاقاتی کی خبر بھی دوسرے گھر تک پہنچ جاتی ہے‘ صدر صاحب نے جواباً کہا۔اگر کوئی پیغام دینا مقصود ہو تو آپ فضل الرحمن(پرنسپل سیکرٹری) کے ذریعے بھیج سکتے ہیں‘ پچھلے دنوں آصف نواز(فوج کے سربراہ) بھی کہہ رہے تھے کہ ملٹری سیکرٹری کی ہمدردیاں نواز شریف کی طرف ہو رہی ہیں‘ میں اس کی جگہ نیا آدمی بھیج دیتا ہوں لیکن میں نے ان سے کہا‘ یہاں انہوں نے ایک انگریزی محاورہ استعمال کیا، جس کا ترجمہ ہے کہ ’’وہ شیطان جس کو ہم جانتے ہیں، اس شیطان سے بہتر ہے،جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے‘‘۔صدر پاکستان نے سب کچھ جاننے کے باوجود آخری دن تک اپنے ملٹری سیکرٹری کو تبدیل نہیں کیا۔ دوسرا واقعہ صدر پاکستان فاروق لغاری کا ہے‘ ان کے ارد گرد وزیر اعظم بے نظیر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری نے پورا جاسوسی نظام تشکیل دے رکھا تھا‘ یہ اتنا مکمل اور متحرک تھا کہ ایوان صدر میں اڑتی چڑیا کے پروں کی تعداد تک آصف زرداری کے علم میں ہوتی تھی‘ یہاں جس واقعہ کا ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ فاروق لغاری کے انتخاب کے ابتدائی دنوں کا‘نئے اقتدار کے رومانس کے دن تھے، ابھی اختلافات کا آغاز نہیں ہوا تھا‘ پھر بھی اپنے صدر پر انہیں آنکھ رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہوا یہ کہ وزارت عظمیٰ کی دوسری مدت کے آغاز کے ساتھ ہی ’’رائس ایکسپورٹ کارپوریشن‘‘ میں زرداری صاحب نے بہت بڑا گھپلا کر ڈالا‘ اس فراڈ کی پوری فائل جنرل حمید گل کے ہاتھ لگی‘ انہوں نے یہ فائل میرے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ صدر کے نوٹس میں لا سکیں تو زیادہ موزوں ہو سکتا ہے کہ فاروق لغاری اچھی شہرت کے آدمی ہیں‘ رائس ایکسپورٹ کارپوریشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار جاننے والے تھے‘ انہوں نے اس گھپلے کی تصدیق کر دی تو راقم الحروف فائل لے کر صدر پاکستان فاروق لغاری کے دفتر پہنچ گیا‘ فائل ان کے سامنے رکھی‘ کچھ احوال زبانی سنایا‘ لغاری صاحب بولے‘ آپ اس بارے میں وزیر اعظم بے نظیر سے بھی بات کر لیں‘ عرض کیا‘ لغاری صاحب آپ کے خیال میں بدعنوانیوں کے دھندے میں ’’میاں بیوی‘‘ الگ ہیں‘ وزیر اعظم کی غیر موجودگی شوہر کی حیثیت ہے کیا کہ وہ سرکاری خزانے پر یوں ہاتھ صاف کریں‘ آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کی اچھی شہرت کے سبب آپ کو ووٹ دیا حالانکہ آپ کے مدمقابل وسیم سجاد سے ذاتی دوستی کا رشتہ ہے‘ ہم سابق صدر غلام اسحق کے بارے جب کوئی شکایت لے کر جاتے تو وہ فوراً اس کا نوٹس لیا کرتے تھے متعلقہ لوگوں کو خط لکھ کر جواب طلب کرتے بعد میں یہی فائل ان کے درمیان اختلافات کا نقطہ آغاز بنی۔صدر فاروق لغاری کو فائل دے کر سیدھا اپنے گھر ایف 10پہنچا‘ ان دنوں کرایہ پر گھر لے رکھا تھا‘گھر میں داخل ہوا تو گھریلو ملازم یونس نے کہا کوئی جرداری‘جرداری‘ پانچ چھ فون کر چکا ہے‘وہ بے چارہ ان پڑھ زرداری کہہ سکے نہ اس کے بارے کچھ جانے‘کمرے میں داخل ہوا تو گھنٹی بج رہی تھی، فون اٹھایا تو دوسری طرف بے تکلف جانی پہچانی آواز‘ یہ زرداری صاحب تھے‘ کب سے فون کر رہا ہوں‘آپ پکڑائی نہیں دیتے‘ میرے ساتھ لنچ کریں دال کھلائوں گا‘ خیال رہے یہ زندگی میں زرداری صاحب سے فون پر پہلا براہ راست رابطہ تھا‘ اس سے پہلے کبھی فون پر بات نہیں ہوئی تھی‘ ہاں اقتدار کی غلام گردشوں میں کہیں نہ کہیں سرِراہ ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔اس ملاقات کی مزید تفصیل اور اثرات پر آئندہ کسی کالم میں لکھوں گا‘ فی الوقت ہمارا موضوع ایوان صدر کے وفاداروں کی بیوفائیوں کا ہے‘ مذکورہ فائل براہ راست صدر پاکستان فاروق لغاری کو دی تھی‘ وہاں سے نکل کر گھر تک زیادہ سے زیادہ ’’بیس منٹ‘‘ کا فاصلہ‘ ظاہر ہے صدر صاحب نے آصف زرداری کو آگاہ کیا نہیں ہو گا‘ جونہی لغاری صاحب نے وہ فائل اپنے کسی اہلکار کے حوالے کی اس نے یہ خبر زرداری صاحب تک پہنچائی‘ نہ ہی اہلکار نے چند منٹ انتظار کیا نہ ہی زرداری صاحب نے تامل سے کام لیا‘ جونہی صدر سے راقم کی ملاقات اور فائل کا موضوع علم میں آیا‘ انہوں نے صاحب فائل سے ملاقات کرنے اور ورغلانے کی کوشش میں تھوڑی تاخیر کو بھی مناسب نہیں جانا۔ وسیم سجاد چیئرمین سینٹ تھے‘ قائم مقام صدر پاکستان بھی رہے‘ فاروق لغاری کے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لیا‘ صرف اس لئے شکست کھائی ووٹوں کی خریدوفروخت روک نہیں سکے تھے‘ ان کا دفتر ‘ گھر تو ایک طرف ان کے سونے کے کمرے میں ’’بیڈ‘‘ کے ساتھ ریکارڈ کرنے والے آلات لگائے گئے تھے‘میاں بیوی کی گفتگو تک سنی جا رہی تھی۔وہ خوش قسمت رہے کہ تب تک’’ویڈیو کوئین بروئے کار نہیں آئی تھی‘‘۔