کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ اے میرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے میری دستار کے ساتھ یہ کسی جرات و عزیمت کی داستان تھی تو غزل بننے لگی۔ نہ کوئی خندہ بلب ہے نہ کوئی گریہ کناں تیرہ دیوانہ پڑا ہے تیری دیوار کے ساتھ رنجشیں کارزیاں دربدری تنہائی اور دنیا بھی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ تمہید باندھنا پڑی کہ ادب کے پیرائے میں کچھ بیان کرنا ہے اور پھر ایک مشاعرے کا حال کہ جسے بارش نے آ لیا مگر بارش تو شاعر کے لیے اجنبی نہیں کہ ایسے موسم میں بھیگتے رہنا ایک شاعر کی آرزو ہے۔ یہاں عجب ہوا کہ پہلے گرمیوں میں سردیوں کا تڑکا لگا۔ پھر سورج نے آنکھیں دکھائیں مگر اتوار کو اس نے بادل اوڑھ لیے اور پھر چھما چھم بارش۔ حضرت علیؓ نے کہا تھاکہ انہوں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے پہچانا۔ ارادے باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ اتوار کی رات ہمارے دلدار چودھری شہزاد چیمہ نے مرغزار کالونی میں ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ پھر کیا تھا کہ گھٹائیں آئیں اور برسنے لگیں۔ شعراء کے فون آنے لگے کہ مشاعرہ تو بھیگ چکا۔ شہزاد چیمہ فرمانے لگے: دیگ پک چکی ہے۔ اہتمام ہو چکا ہے۔ بارش بھی برستی گئی، پھر ٹرانسفارمر اڑ گیا۔ تاریکی بھی بارش کی سہیلی ٹھہری۔ مختصر یہ کہ مرغزار کے صدر چیمہ صاحب بھی باز آنے والے نہیں۔ ہنگامی بنیادوں پر ٹرانسفارمر کا بندوبست کرلیا گیا جو شعرا پہنچ گئے وہ پہنچ گئے۔ اعجاز کنور راجہ‘ ڈاکٹر جواز جعفری اور تیمور حسن تیمور اعوان ٹائون میں پھنس گئے پتہ چلا کہ وہاں تو دریا بہہ رہا ہے۔ موسم نہایت خوشگوار ہوگیا۔ ہم نے ہرے بھرے ایک بڑے لان میں منڈلی جمالی۔ نہایت باذوق لوگ ہی باقی بچے تھے تو مشاعرے کو چار چاند لگ گئے۔ شاعری اپنی جگہ مگر ماحول سے معاملہ دوچند ہو جاتا ہے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ گپ شپ بھی چلتی رہی۔ کہیں منیر نیازی کا تذکرہ چلا تو کہیں فیض صاحب کا ۔اردگرد ہرے بھرے اشجار ہوائوں کے ہلارے سے کتنے پیارے لگ رہے تھے پھر ٹھنڈی بارشی ہوا۔ اچانک عبداللہ روکھڑی یاد آئے: ہم تم ہوں گے بادل ہوگا رقص میں سارا جنگل ہوگا ایک حمد سے مشاعرہ آغاز ہوا: والہانہ کوئی پتھر کو کہاں چومتا ہے اس چھت میں محمدؐ کا حوالہ ہے میاں اچھا یہ لگا کہ شعرا کو نہایت توجہ سے سنا گیا کہ گویا وہ سامعین سے ہم کلام تھے۔ اشرف شریف جوکہ معروف کالم نگار بھی ہیں نے اپنے پنجابی کلام سے ایک فضا باندھی کہ پنجاب کی مٹی کی سوندی سوندی خوشبو آنے لگی۔ انہوں نے کیا کچھ باندھا۔ دو شعر آپ بھی پڑھ لیں: رُکھ ، کلیجے ، چھاواں بنھیاں جابر حاکم ماواں بنھیاں ایہہ تے فر انصاف نئیں ناں مظلوماں دیاں بانہواں بنھیاں اس کے بعد مدثر بشیر نے ایک شاندار پنجابی نظم سنائی۔ نظم کے بعد ہمارے سینئر شاعر جناب نوید صادق نے نعت کے اشعار سنائے اور غزل بھی: ہر طرف اداسی تھی اور میں اکیلا تھا دور جنگلوں کے پار رفتگاں کا میلہ تھا دیپ جن کو جلنا ہو ایسے تھوڑی بجھتے ہیں آنے جانے والوں نے کوئی کھیل کھیلا تھا اس کے بعد ہمارے دوست سجاد بلوچ کی باری تھی کہ وہ انتہائی سنجیدہ طبع شاعر ہیں اور 92 نیوز کا ادبی صفحہ بھی وہی مرتب کرتے ہیں۔ انہوں نے لوگوں سے بہت داد پائی اور ان سے ان کی وہ مشہور غزل ترنم کے ساتھ سنی گئی جو خود مجھے بھی پسند ہے۔ سجاد بلوچ خوش گلو بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر کلام شاعر بزبان شاعر میں کیفیت تھی۔ شعروں میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے: پڑ گئی شام جب اس راہ میں بیٹھے بیٹھے موجۂ گرد نے پوچھا یہاں کیسے بیٹھے ہر مسافر پہ ہمیں تیرا گماں ہوتا تھا گردکے ساتھ کئی بار ہیں اٹھے بیٹھے میں نے کیا کرنا ہے اس قیمتی گلدستے کو دوست ہے وہ تو مصیبت میں سرہانے بیٹھے صدر مشاعرہ جناب عباس مرزا کے کلام سے پہلے چودھری شہزاد چیمہ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ ہر ماہ ایسی ہی شاندار شعری نشست کا اہتمام کیا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی خدمات سب کے سامنے ہیں کہ اہل کالونی انہیں روایت سے ہٹ کر تیسری مرتبہ صدر چنا ہے۔ جناب عباس مرزا نے اپنے پنجابی بیت سنائے کہ انہیں پنجابی دنیا میں ایک انفرادیت حاصل ہے کہ وہ اکیس ہزار بیت کہہ چکے ہیں مگر میں یہ کہتا ہوں کہ ان بیت کا معیار بہت بلند ہے کہ یہ ایک سنگ میل ہیں: صدقے جان دے سو طریقے ہوون گے سب تو ودھیا میری ماں نوں اونداسی جتھے ماسی ماں سی ہوندی اے عباس اوہتھے ماموں ماں دے منہ نوں کہندے نیں آخر میں اہتمام کام دہن تھا کہ روایتی دیگ پکوائی گئی۔ کمال کی مہمان نوازی جوکہ پنجاب کا حسن ہے۔ بھیگے ہوئے موسم میں بھاپ اٹھاتی گرما گرم چائے وہی جو غالب نے کہا تھا ’’تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔‘‘