حضرت علیؓ نے فرمایا’’حسد وہ آگ ہے جس میں حاسد خود جلتا ہے‘‘ عمومی طور پر حاسد ذہنی صلاحیتوں اور اختیار و اقتدار میں کم تر ہوتا ہے اس لئے حسد اس کو سازش کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پر سکینڈل کے چرچے ہیں ۔مین سٹریم میڈیا یونیورسٹی سکینڈل کو ہیڈ لائنز بنا رہا ہے تو سوشل میڈیا کے نزدیک پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلامیہ یونیورسٹی سے سنگین اور مسئلہ ہی نہیں ۔تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال اور اخلاق کا معاملہ ہے تو شاید یہ کوئی مہینہ گزرتا ہو جس میں کسی نہ کسی تعلیمی ادارے میں منشیات کے استعمال یا غیر اخلاقی حرکت کی خبر میڈیا کی زینت نہ بنتی ہو۔چند ماہ قبل ایک سکول میں چند طالبات کی اپنی ایک دوست کو مذاق میں زبردستی آئس کے کش لگوانے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا، اس سے قبل اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت کا ہنگامہ رہا پھر وقت کے ساتھ معاملہ ٹھنڈا ہو گیا۔ میڈیا کے کسی افلاطون نے ضروری نہ سمجھا کہ عوام کو یہ خبر دے کہ ان اداروں میں ان خبروں کے بعد حکومت یا تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کی طرف سے اصلاح احوال کے کیا اقدامات کئے گئے یا ان خبروں کے بعد ایلیٹ کلاس نے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کیا کیا۔ لاہور کراچی اسلام آباد کے ان تعلیمی اداروں کے سکینڈلز کے بعد کسی ایک بچے کی ہلاکت یا تعلیمی ادارہ چھوڑنے کی کوئی ایک خبر بھی سامنے نہیں آئی۔یہ اس حکومتی اور معاشرتی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے معاملے کی جلتی پر تیل ڈالنے کی ہر کوئی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک پیرجو شاید خود کو بہت بڑا صحافی بھی سمجھتے ہیں انہوں نے سوشل میڈیا پر نہایت فخر کے ساتھ یہ پوسٹ ڈالی کہ الحمد للہ اسلامیہ یونیورسٹی کے سکینڈل کے بارے میں انہوں نے سب سے پہلے آواز ہی بلند نہیں کی بلکہ اس’’ کارخیر‘‘ کی خبر بریک کرنے کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہے۔اس کے قطعی نظر کہ اس سکینڈل میں کتنی سچائی ہے کہ اب تک ایک بھی اخلاق باختہ مصدقہ ویڈیو منظر عام پر نہیں آئی 55سو ویڈیوز کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ خاتون جس نے ماسلک لگایا ہے اور اس کی پہچان کی تصدیق بھی ممکن نہیں وہ اپنی بے بسی کی داستان سنا کر معاشرے میں ہیجان پیدا کر رہی ہے اور ہمدردیاں سمیٹ رہی ہے۔ باقی سوشل میڈیا کے افلاطون انہی جملوں کو مرچ مسالہ لگا کر جلتی پر آگ کا کام کر رہے ہیں۔ بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ خبر بریک کرنے کے دعوے دار اور پیر صحافی کا تعلق بھی اسی خطہ سے ہے جس کے زیادہ تر بچے اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پیر صاحب نے جتنی بھی نیک نیتی سے خبر بریک کرنے کا کریڈٹ لیا مگر وہ یہ بھول گئے کہ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد اس خطہ کی طالبات سے کیا سلوک ہو گا۔ جن 5500 ویڈیوز کی وہ بات کر رہے ہیں اگر خدانخواستہ ان میں سے دس بھی منظر عام پر آ گئیں تو متاثر ہونے والی طالبات کی تعداد سینکڑوں میں ہو سکتی ہے اور قبائلی سماج کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم یہ ہو گا کہ صدیوں بعد جن لوگوں نے اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے ان کی اکثریت بچوں کو گھر پر بیٹھا لے گی۔جان ہابزنے کہا تھا آپ مجھے پڑھی لکھی باشعور مائیں دو میں آپ کو پڑھا لکھا باشعورمعاشرہ دوں گا۔پیر صاحب کی ایک ’’مہربانی‘‘ کی وجہ سے قبائلی سماج کتنی صدیوں تک ایک بار پھر جہالت اور بے شعوری کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا؟ ۔موصوف کے اس فخر پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا لگایا گیا زخم سیزر کو بروٹس کے لگائے گئے گھائو سے کم نہیں۔ جہاں تک یونیورسٹی میں منشیات کے استعمال اور اخلاق باختہ ویڈیوز کا معاملہ ہے تو اس کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات سے کوئی انکاری ہو ہی نہیں سکتا۔کوئی ذمہ دار نکلے تو اس کو قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہیے مگر یہ کام الزامات اور جلتی پر تیل ڈالنے سے نہیں بلکہ شفاف تحقیقات سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔تحقیقات میں بہرحال اس بات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ اچھے اور برے لوگ ہر ملک میں ہوتے ہیں اسلامیہ یونیورسٹی بھی اسی دنیا کا حصہ ہے ممکن ہے یہاں بھی چند گندی مچھلیاں ہوں۔ان گندی مچھلیوں کو تعلیم کے اس سمندر سے نکال باہر پھینکنا دانش مندی ہے ناکہ تعلیم کا سلسلہ ہی موقوف کر دیا جائے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے معاملے میںحسد اور سازش کے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ سارا کھیل صرف یونیورسٹی کے وی سی کو ہٹانے کیلئے کھیلا گیا ہے اور اس میں ایک بار پھر بدقسمتی سے بہاولپور کے ہی ایک سیاستدان ڈوریاں ہلا رہے ہیں۔وہ رہبر جونپوری نے کہا ہے نا! اشارے کے اسی کے شہر قصبے گائوں جلتے ہیں اسی کی آستیں میں سازشوں کے ناگ پلتے ہیں معاملہ کی پشت بنا ہی کا جن صاحب کا نام لیا جا رہا ہے ان کے اپنے بچے اور بیٹیاں اس یونیورسٹی تو کیا شاید پاکستان میں بھی زیر تعلیم نہ ہوں۔ فیوڈل سسٹم کا ایک یہی توکمال ہے کہ فیوڈل لاڈز جہاں قبائلی روایات کے تحت غریب کے فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں وہاں ان کی اپنی اولادیں یورپ اور امریکہ کے معاشروں میں پلتی بڑھتی ہیں ۔ان کی بلا سے اسلامیہ یونیورسٹی بند ہو یہاں کے طالب علم ناخواندگی کے اندھیروں میں اندھے ہوں یا پھر اس میں ہی ان کی سیاست اور بادشاہت کی بقا ہے۔ حیرت تو یونیورسٹی میں زیر تعلیم 65000طلبہ طالبات کے رویہ پر ہے کہ وہ اپنی مادر علمی کے خلاف سازش پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جس شخص نے پسماندہ علاقے کی اس یونیورسٹی کو سٹوڈنٹس کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی بنایا یونیورسٹی میں انقلابی اقدامات کر کے پاکستان کی دیگر یونیورسٹیز کیلئے مثال بنایا۔ یونیورسٹی کے چانسلر اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب جناب بلیغ الرحمن ا پنے گھر کی مادر علمی کو آگ میں جلتا دیکھ کر خاموش ہیں ۔گورنر صاحب پڑھے لکھے اور عوام کا درد بھی محسوس کرتے ہیں، وہ بہاولپور کے سیاستدان کے اس معاملہ میں ملوث ہونے یا نہ ہونے کا پتہ لگانے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ جناب گورنر صاحب کو جامعہ علمی کی ساکھ اور سماج کا مستقبل بچانے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔جہاں تک اطہر محبوب کاتعلق ہے وہ اس التجا کے ساتھ عہدہ چھوڑ گئے کہ اگر مجھ سے مسئلہ ہے تو میںچلا جاتا ہوں مگر میں نے خون پسینے سے جس ادارے کو سینچا ہے اس کو تباہ ہونے سے بچایا جائے۔گورنر صاحب سے گزارش ہے جب اس معاملہ کی تحقیقات کریں تو سابق وی سی کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت نوشی گیلانی کے اس شعر کو بھی ذہن میں رکھیں: محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا جو میرے حصے آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا