میڈیا کے شور شرا بے اور سیاسی زور آزمائی میں ہر روز بحث مباحثے کی ایک نئی فصل نمودار ہوتی ہے، شام سات سے رات گیارہ بجے تک کے ٹاک شوز میں اینکرز اورمہمان حضرات اپنی کاوش سے اس فصل کو ٹھکانے لگاتے ہیں۔ اگلے روز کوئی نیا شوشہ، مسئلہ یا تنازع موجود ہوتا ہے، ایک بار پھر پورے جوش وخروش سے سب اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔میڈیا کی دیکھا دیکھی سوشل میڈیا خاص کر فیس بک کے ایکٹوسٹ حضرات نے بھی یہ وتیرہ اپنایا ہے۔ ان کے ایشوز البتہ مختلف ہیں۔ وہاں سیاسی ماراماری بھی فیشن کا حصہ ہے، مگر سوشل موضوعات زیادہ رش لیتے ہیں۔سماجی مسائل، ٹی وی ڈرامے یا ایسا کوئی بھی المناک واقعہ جس پر جذباتی انداز میں آنسو بہانے والی تحریر لکھی جا سکے ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے جغادری اپنے اپنے انداز میں من پسند موضوعات پر بحثیں چھیڑے رکھتے ہیں۔ خرابی یہ ہے کہ بہت سے اہم، سنجیدہ، بامقصد موضوعات پر بات نہیں ہوسکتی۔ ایسا ہی ایک بے نظیر سپورٹ پروگرام میں خوردبرد کا معاملہ ہے۔ دو ہفتے پہلے رپورٹ آئی کہ بے نظیر سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مستحق نہیں۔ تفصیلات خوفناک اور نقاب کشا تھیں۔ بتایا گیا کہ چودہ ہزار سرکاری ملازمین دھوکے اور فراڈ سے بے نظیر سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے خود اپنے یا اپنی بیویوں کے نام پر امدادی وظیفہ لینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔ اس میں گریڈ سترہ کے1446، گریڈ اٹھارہ کے 604،گریڈ انیس کے 429،گریڈ بیس کے 61 اور گریڈ اکیس کے تین افسران شامل ہیں۔ یاد رہے کہ گریڈ سترہ اور اس سے اوپر کے ملازمین اعلیٰ سرکاری افسر شمار ہوتے ہیں۔ حیرت ہے کہ گریڈ انیس، بیس ، اکیس کے اعلیٰ بیوروکریٹس کو چند ہزار وظیفہ سے کیا حاصل ہوا ہوگا؟ اسے بے ایمانی، بددیانتی اور گھٹیا پن کی انتہا ہی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ وہ ہیں جو مستحق نہیں، غیر ممالک کے سفر کرتے رہے،ان کے نام گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں اور خوشحال گھرانوں سے ان کا تعلق ہے۔خوردبرد کے اس سکینڈل کا کریڈٹ احساس پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو جاتا ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ معروف سوشل ایکٹوسٹ ہیں اور وہ مختلف عالمی اداروں کے ساتھ مل کر طویل عرصے سے سماجی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جو چند ایک درست تقرر کئے، ان میں ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا نام بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نے بڑی محنت کر کے ، نادارا اور دیگر سرکاری محکموں کو شامل کر کے طویل تحقیقات کرائیں اور خاصی عرق ریزی کے بعد یہ کرپشن پکڑی۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا کیس نہیں بلکہ یہ غیر مستحق فراڈی جتنی رقم بے نظیر سپورٹ پروگرام سے اڑا لیتے تھے،وہ سولہ ارب کے لگ بھگ ہے۔ سولہ ارب اچھی خاصی بڑی رقم ہے، اس سے مزید کئی لاکھ مستحق لوگوں کو امدادی وظیفہ دیا جا سکتا ہے۔ تصور کریں کہ اگلے تین چار یا پانچ سال ایسا ہی ہوتا رہتا تو ساٹھ ستر ارب روپے انہی بددیانت غیر مستحق لوگوں کے کھاتے میں چلا جاتا۔ اب قوی امکانات ہیں کہ لاکھوں ضرورت مندوں کی مدد ہوسکے گی۔ جن سرکاری ملازمین کے نام بے نظیر سپورٹ پروگرام کی مد میں سامنے آئے ہیں، ان کے خلاف محکمہ کارروائی کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک بڑا اشتہار شائع کر کے ان سرکاری افسروں کے نام دئیے جاتے تاکہ یہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ اس سے زیادہ شرم کی کیا بات ہوگی کہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر محض اپنی ہوس اور بھوک کی وجہ سے غریب لوگوں کا امدادی وظیفہ تک نہیں چھوڑ رہا۔اس کارنامے پر ڈاکٹر ثانیہ کو ستائش کے بجائے اپوزیشن جماعتوں سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے تومعاملے کی جانچ پڑتال کئے بغیر ڈاکٹر صاحبہ پر سخت تنقید شروع کر دی۔ ان پر الزام لگایا کہ وہ محض سیاسی بنیاد پر لوگوں کو امدادی وظیفہ سے نکال رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ ناقابل فہم ردعمل تھا۔ یہ توڈیٹا کا ایشو ہے، ایک بریفنگ سے سب جانا جا سکتا ہے۔ بے نظیر سپورٹ پروگرام پیپلزپارٹی دور میں شروع ہوا، اس میں اگر کچھ خرابیاں در آئی آئیں اور اب وہ دور ہو رہی ہیں تو پیپلزپارٹی کو اسے سراہنا چاہیے ۔ پیپلزپارٹی اور نفیسہ شاہ کا رویہ اس کے برعکس اور افسوسناک رہا۔ نفیسہ شاہ پر اس لئے بھی دکھ زیادہ ہوتا ہے کہ نوجوانی میں وہ ایک ہونہار، بااصول جرنلسٹ کے طور پر سامنے آئی تھیں ۔ مجھے نوے کے عشرے کے اوائل میں نیوز لائن میگزین کا وہ پرچہ یاد ہے جس میں نوجوان نفیسہ شاہ کی سندھ میں کاروکاری پر خصوصی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس انویسٹی گیٹو فیچر کو غالباً اے پی این ایس کا ایوارڈ بھی ملا۔ رضیہ بھٹی جیسی جرات مند صحافی نیوز لائن کی ایڈیٹر تھیں اور ان کی سربراہی میں صحافیوں کی ایک ایسی ٹیم تیار ہوئی، جنہوں نے انگریزی صحافت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ محمد حنیف(پھٹتے آموں کا کیس فیم)، حسن مجتبیٰ ، ثمینہ چونارا،ثنا بُچہ کی ہمشیرہ جو بعد میں محمد حنیف کی اہلیہ بنیں۔ نفیسہ شاہ کے کئی فیچر ان دنوں شائع ہوئے ، ان کے اسلوب، جرات اور قانون پسندی نے قارئین میں اپنی جگہ بنائی۔ افسوس کہ وہی نفیسہ شاہ سندھی کی مخصوص روایتی سیاست میں جا کر یکسر بدل گئیں۔ نیوز چینلز پرانہیں زرداری صاحب اور ان کے بدنام ساتھیوں کا دفاع کرتے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ اس پرزیادہ دکھ ہوا کہ بے نظیر سپورٹ پروگرام میں سولہ ارب کی کرپشن پکڑے جانے اور اس کا سدباب کرنے جیسی اہم خبر ہمارے ہاں زیادہ ڈسکس نہیں ہوئی۔ میڈیا اورپھر سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی شائد اس میں مرچ مسالہ نہ ڈھونڈ پائے۔ اگلے روز ایک معروف سماجی کارکن سے بات ہو رہی تھی۔ بتانے لگے کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو حکومت نے اہم منصب دیا ہے مگر اپنے بورڈ میں انہیں اچھی خاصی مخالفت کا سامنا ہے۔ وزیراعظم کی حمایت اگر انہیں حاصل نہ ہوتی تو شائد اب تک وہ ایک طرف کی جا چکی ہوتیں۔ ڈاکٹر ثانیہ سے واقفیت نہیں، ان کی اچھی شہرت کی خبر البتہ ملی تھی، تاہم جس محنت اور عمدگی سے انہوں نے ہزاروں کرپٹ ملازمین کا سراغ لگایا اور لاکھوں غیر مستحق لوگوں کو امدادی وظیفہ لینے سے روکا، اس سے ان کی توقیر بڑھی۔ اپنا ڈھول بجائے بغیر اگر کوئی خلوص نیت سے کام کرر ہا اور اس میں نتائج حاصل کر رہا ہے تو پھر اور کیا چاہیے ؟اچھا کام کرنے والوں کی سپورٹ جاری رہنی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں سیاسی اعتبار سے اپنے دونوں وزرا اعلیٰ کو بھرپور سپورٹ پہنچائی ہے۔ کے پی کے وزیراعلیٰ محمود خان تو شدید بحران کا شکار تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ شائد چند ہی دنوں میں حکومت ختم ہوجائے گی۔ وزیراعظم نے دلیرانہ قدم اٹھایا اور عاطف خان جیسے ہائی پروفائل وزیراور شہرام تراکئی سمیت تین وزیروں کو یک جنبش قلم صوبائی کابینہ سے باہر کرا دیا۔ عاطف خان وزیراعظم کے پسندیدہ صوبائی رہنما سمجھے جاتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ خان صاحب وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے عاطف خان کو موزوں سمجھتے تھے، تاہم حالات کچھ ایسے موڑ پر چلے گئے کہ انہیں محمود خان کو بنانا پڑا۔ عاطف خان ان کے پرانے ساتھی بھی ہیں۔ تاہم پچھلے کچھ عرصے میں جس انداز سے وہ سازشیں کر رہے تھے اور کھل کر وزیراعلیٰ کے مقابلے میں آ گئے تھے، وہ سب غلط اور نامناسب تھا۔ عمران خان کے اس اقدام کے مضمرات گہرے ہوسکتے ہیں، مگر بہرحال انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ایک جارحانہ شاٹ کھیلا ہے۔ جس انداز سے بلیک میلنگ کا سلسلہ جاری تھا، اس پر ایسا ہی ایکشن بنتا تھا۔ پنجاب میں بھی اسی انداز سے سخت رویہ اپنایا گیا اور ناراض اراکین کو وضاحتیں دینا پڑیں کہ ہم فارورڈ بلاک نہیں بنا رہے تھے، صرف معمولی شکوے تھے۔ پنجاب میں سازشوں کا بازار گرم تھا، بدقسمتی سے تحریک انصاف کے اتحادی بھی اس میں شامل تھے۔ عثمان بزدار کے حوالے سے خاکسار کی رائے مثبت نہیں، انہی کالموں میں بہت بار کھل کر تنقید کی گئی ہے۔ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ اس انداز کی سازشوں اور مختلف چھوٹے بڑے دھڑوں کی بلیک میلنگ میں آ کر وزیراعلیٰ تبدیل کرنا درست نہیں ۔ عین ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد خان صاحب کو ازخود وزیراعلیٰ تبدیل کرنا پڑے، اس وقت بہرحال انہوں نے درست سٹینڈ لیا ۔ ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ بلیک میلنگ پارٹی کے اندر سے ہو یا باہر کے کسی اتحادی کی، اسے جرات سے ناکام بنانا چاہیے۔چودھری برادران کو بھی اپنا رویہ اب بدلنا چاہیے۔ ضرورت سے زیادہ سیانا بننا ٹھیک نہیں ہوتا، اس کے لئے سرائیکی ، پنجابی دونوں زبانوں میںمنفی تاثر رکھنے والے محاورے موجود ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اور ق لیگ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے فائدہ صرف ق لیگ کو پہنچا ۔اگر وہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہ بناتے تو ان کی نشستوں کی تعداد آدھی ہوتی۔طارق بشیر چودھری اسمبلی میں پہنچ ہی نہ پاتے۔ چودھری پرویزالٰہی کو تحریک انصاف نے پنجاب میں اہم منصب دیا ہے، انہیں اس پر قانع رہنا چاہیے۔اپنے سائز سے زیادہ کی خواہش رکھنے والے سیاست کے منظور وٹو بن جاتے ہیں۔چودھریوں جیسے زمانہ ساز سیاستدانوں کو وہ باریک لکیر یاد رکھنی چاہیے جسے عبور کرنے کے بعد پچھلا بھی ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔