17جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج اور پنجاب میں پرویز الٰہی کی سربراہی میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد ملک کی سیاسی صورت حال بڑی دلچسپ ہو گئی ہے‘ مرکزی حکومت کی مدت پوری کرنے کے دعوے دار یا خواہش مندوں کی حالت یہ ہے کہ سوئے تھے گلوں کی چھائوں میں جاگے ہیں قفس کے گوشے میں کب صحن چمن میں خاک اڑی کب آئی خزاں معلوم نہیں پنجاب کی حکومت ’’اتحادیوں‘‘ کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد فریقین کے پاس کیا کچھ آپشن یاترجیحات ہو سکتی ہیں‘ اس کا جائزہ لیتے ہوئے بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چالیں‘ سارے پتے پہلی بار عمران خاں کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور پی ڈی ایم اتحاد کی وفاقی حکومت کے متعلق تو میاں محمد بخش غائبانہ فرما گئے ’’لِسے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا‘‘ رونا دھونا تو حکومت ملنے کے باوجود 9اپریل سے ہی شروع ہے‘ اب نس جانا(بھاگ کھڑے ہونا) باقی ہے، دیکھیے وہ کب وقوع ہوتا ہے۔پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عمران کے پاس کون سی چالیں اور سیاسی ہتھیار ہیں‘ وہ ان سے کیا کچھ کر سکتے ہیں‘ اس کے بعد کل کے حملہ آوروں کو آج اپنے بچائو کے لئے کیا کچھ میسر ہے‘ اس کا جائزہ 1۔ عمران خان کی پہلی ترجیح یہ ہو سکتی ہے کہ وہ پنجاب‘ کے پی کے‘ گلگت بلتستان‘ آزاد کشمیر کی حکومتوں پر توجہ دیں‘ ان کی کارکردگی بڑھائیں‘ امن و امان بہتر کریں‘ صحت کارڈ کو بہتر اور موثر بنائیں عوامی رابطہ مہم جاری رکھیں‘ انتخابات کی تیاری اور پارٹی کی تنظیم پر توجہ دیں اور مرکز میں پتلی تماشے سے لطف اندوز ہوں‘ لیکن اس انتظار میں دو بڑے خطرے ہیں۔یہ اٹھائی گیروں کا ٹولہ قومی اثاثوں کی نج کاری کے نام پر اربوں ڈالر چوری کر کے لے جائیگا اور قوم منہ دیکھتی رہ جائے گی‘ دوسرا بڑا خطرہ یہ ہے کہ ملک کو دیوالیہ کر کے چور لنگوٹی سمیت بھاگ جائے اور کئے کو بھگتنے کے لئے عمران خاں باقی رہ جائے‘ اس لئے انتظار کی عیاشی قوم کے لئے بھاری پڑ سکتی ہے‘ اسے اختیار نہیں کرنا چاہیے۔2۔ تحریک انصاف اعلان کر سکتی ہے کہ ہم صوبائی حکومتیں برقرار رکھتے ہوئے‘ مرکز میں انتخاب چاہتے ہیں کیونکہ وفاق میں اقلیتی حکومت ہے‘ جو موثر کام نہیں کر سکتی‘ وفاقی حکومت کو ختم کرنے کے لئے عدم اعتماد کی تحریک لائی جا سکتی ہے کیونکہ ابھی تک ان کے ممبران اسمبلی کے استعفے منظور نہیں ہوئے جو ممبران واپس لے سکتے ہیں۔حکومت صرف دو ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی ہے‘ عمران خاں تحریک انصاف کی مقبولیت کے سہارے پنجاب میں مسلم لیگ کے متعدد مبران سے آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کے وعدے پر استعفیٰ دینے پر آمادہ کر سکتے ہیں‘ اکثریت کھو جانے پر انہیں اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا جو نہیں لے سکیں گے اور حکومت ختم ہو جائے گی۔3۔ وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج اور دھرنے کا آپشن بھی استعمال کر سکتے ہیں۔4۔ عمران خاں ان میں سے کوئی آپشن استعمال کئے بغیر چپ سادہ لیں تو بھی موجودہ حالات میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی زبوں حالی کو اسٹیبلشمنٹ برداشت نہیں کر سکتی جو پارٹی نامقبول ہے‘ صوبائی حکومتیں نہ ہونے سے انتظامیہ سے محروم ہے‘ نالائق اور غیر موثر بھی ہے وہ عالمی معاملات میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی ایسی حکومت کو کوئی ریاست زیادہ دن جاری نہیں رکھ سکتی۔ اب دیکھتے ہیں حکومت کے پاس اپنے دفاع کے لئے کیا کچھ ہے‘ جسے وہ کام میں لا سکیں۔بہرحال مرکزی حکومت کے آپشن(ترجیحات) جو بھی ہوں‘ انہیں عمران خاں کے علاوہ پرویز الٰہی کا سامنا بھی کرنا ہے‘ وہ سارے گر جانتا جو انہیں آتے ہیں بلکہ جہاں بانی،سیاسی وانتخابی چالاکیوں کے گر انہیں چودھری خاندان نے ہی سکھائے تھے‘ ان کی پتیلی میں ابھی اور بہت کچھ باقی ہے‘ مسلم لیگی ہونے کے ناطے پرانے لیگی خاندانوں کو بہلانے کے لئے کیا کیا جتن ہو سکتے ہیں‘ سب انہیں ازبر ہیں۔پرویز الٰہی، عمران کی کوئی مدد‘ اعانت یا خدمت سے پہلے اپنے اردگرد خطرات کو کم کریں گے‘ شجاعت کا حساب بھی برابر کرنا ہے‘ وہ جلد ہی مسلم لیگ(ق) کی جنرل کونسل بلا کر شجاعت کی صدارت کا کانٹا نکالیں گے‘ صدارت وہ شاید وجاہت حسین کو دینا چا ہیں گے اور خود صوبائی صدارت پر اکتفا کریں گے‘ یوں شجاعت کو الگ کر کے باقی خاندان کو متحدہ رکھنے کی کوششیں کر یں گے‘ صوبائی اسمبلی کے آزاد اراکین کو جلد ہی اپنے ساتھ ملا لیں گے۔پرویز الٰہی خود ہی عمران خاں سے فائدہ نہیں اٹھاتے رہیں گے‘ پنجاب میں پرویز الٰہی کے آنے سے اسٹیبلشمنٹ کے رویہ میں بھی نمایاں تبدیلی آنے والی ہے‘ وہ بھی وزیر اعلیٰ کا ہاتھ پکڑ کر اس کی سفارش سے عمران سے معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے‘ ظاہر اس کی کچھ قیمت بھی ہو گی‘ جو تلافی کے لئے ادا کرنا ہے‘ تلافی وہ اپنی جیب سے کر نہیں کر سکتے اس کے لئے انہیں شہباز شریف کے نیچے سے کچھ سرکا کے عمران خاں کو راضی کرنا ہو گا۔وہ یہ تو جان ہی چکے ہیں کہ عمران خاں نئے اور فوری انتخابات کے علاوہ کسی چیز سے راضی نہیں ہوں گے ۔عمران خاں کو منانے اور پرویز الٰہی کے ساتھ کے ساتھ اپنے تعلقات سے اسے بھی نوازنے کے لئے بہترین آفر جو ہو سکتی ہے وہ یہی ہے کہ پرویز الٰہی کو بقیہ مدت تک حکومت مل جائے اور عمران خاں کو مرکز میں انتخاب‘ ایسا انتخاب جس میں دو تہائی اکثریت حاصل کرے اور چین کی بانسری بجائے‘ اس غرض کے لئے اس کی جیب میں اگرچہ کم ہی بچا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ ایم کیو ایم‘ بلوچستان سے بی اے پی اور چند ایک دیگر کا تحفہ پیش کر سکے‘ یوں زیادہ کوشش کئے بغیر چپ چاپ نیچے سے کرسی کھسکائی جا سکتی ہے‘ اس خدمت کے صلے میں شاید سائفر۔۔۔۔۔۔؟ (جاری ہے)