بات ساری یہ سعادت کی ہے میں نے اس گھر سے محبت کی ہے میں کہاں اور کہاں مدح حسینؓ یوں سمجھ لو کہ جسارت کی ہے اور پھر گھر کا گھر اور شہادت کی نماز۔ اس طرح کس نے امامت کی ہے، یہ جزن و ملال سے لبریز فضا محرم کی اور پھر اس میں ایک شاعر کا خیال سب کچھ ہی خوں آشام ہے ۔غالب کو نیرہ نور کی آواز میں سن رہا تھا اور پھر سنتا ہی گیا دل میں آیا کہ آپ کے ساتھ شیئر کروں۔ دوسرا خیال مجھے اس وقت آیا کہ جب ڈاکٹر شاہد مسعود ہاشمی نے اقبال کا شعر پڑھا: حقیقت ابدی ہے مقام شبیری بدلتے رہتے ہیں انداز شامیٔ و کوفی معنی کا ایک جہان اس شعر میں مضمر ہے اب سوچا کہ اقبال کے فلسفہ امام حسینؓ پر بات کی جائے یہ مجھ پر واجب نہیں فرض عین ہے لیکن میری بساط کیا یہ میرے دل نے کہا مگر ثنا خوانی کربلا ایک اعزاز تو ہے اور توفیق بھی مل جاتی ہے پہلے تو میں غالب کے مرثیے کے دو تین اشعار لکھوں گا کہ وہ اشعار میرے خون میں تحلیل ہو گئے: سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اس کو تو پھر کچھ اس سے سوا کہیں اس کو نہ بادشاہ نہ سلطان یہ کیا ستائش ہے کہو کہ خامس آل عبا کہیں اس کو ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے اگر نہ درد کی اپنے کہیں دوا اس کو غم و الم میں ڈوبی ہوئی آواز اور غالب کے الفاظ میں ڈھلی ہوئی محبت ‘ مودت اور عقیدت بند ے کو ایمان سے سرسار کر جاتی ہے۔ اقبال کا رنگ سانحہ کربلا کے حوالے سے اور امام عالی مقامؓ کی قربانی اور عمل کے حوالے سے بہت مختلف ہے اور اس میں صرف بیان ہی نہیں ایک پیغام ہے اس میں ایک تحریک اور ایک جدوجہد ہے۔ آپ ان کا ایک مصرع ہی دیکھیں، نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری، اصل میں اقبال کے پیچھے قرآن و سنت کا کائناتی فلسفہ ہے۔ وہی آفاقی اور انقلابی گونج ہے اس کو سمجھنے کے لئے حیات و ممات کو سمجھنا ہی ازبس لازم ہے کہ حرکت و تحرک ہی اصل میں زندگی اور جمود اور ٹھہرائو موت ہے۔ حسین حیات بخش الوی پیغام ہے۔ شاہ است حسین بادشاہ است حسین دین است حسین دین پناہ است حسین سر داد، نداد دست درِ دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ است حسین یعنی کہ اپنا سر کٹوا لیا مگر اپنا ہاتھ تو یزید کے ہاتھ میں نہ دیا اور یہی تو اصل میں لاالہ کی اساس ہے اور دین کی بنیاد ہے۔ ہماری گفتگو ہو رہی تھی تو ڈاکٹر شاہد مسعود ہاشمی کہنے لگے کہ ذکر حسینؑ اور مقصد حسینؑ یہ جو شاعری ہے اس میں یقینا انیس و دبیر بڑے بڑے نام ہیں مگر اقبال نے صحیح معنوں میں کربلا کی روح کو سخن آشنا کیا اور ایک ایسی معراج پیما کہ وہاں بات عروج پہ آ کر رک گئی۔ اقبال امام حسینؑ کے پیغام کو کئی رنگ میں بیان کرتے ہیں۔اسی وجہ سے اجل فارس اقبال کے دہراتے ہیں وہاں کے دانشور تو انقلاب ایران کی بنیاد اقبال کی شاعری کو قرار دیتے ہیں۔اقبال کے لئے بہت بڑی آواز ہے۔ ان کے ایک سربراہ کو تو اقبال حفظ تھا: غریب و سادہ و ذھیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ علامہ اقبال واقعہ کربلا کو اسلام کی بقا کا ضامن قرار دیتے ہیں۔ آپ یقین جانیے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امام عالی مقام سے محبت اقبال کے رگ و پے میں رواں تھی اور وہ بالواسطہ اور بلا واسطہ ہر انداز میں اس واقعہ کے ثمرات اٹھاتے ہیں کہ جو احسان عظیم حضورؐ کے نواسے نے آنے والے زمانوں پہ کیا اس کو سنگ میل بنا دیا؎ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھتا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا حضرت امام حسینؑ نے حق کا علم اٹھایا اور باطل کا راستہ روک دیا آپ ذکر اقبال کے الفاظ میں دیکھیں: تاقیامت قطع استبداد کرد موج خون اوچمن ایجاد کرد آپ یقیناً جانتے ہونگے کہ ایرانی روحانی پیشوا خامنائی تو اقبال کو مرشد مانتے ہیں من مرید اقبال ہستم‘ ایسے یہ اقبال بھی تو سات ساڑھے سو سال بعد روحانی طور پر مولانا روم کے مرید ہوئے ایک اور بات کہ جس کا تذکرہ ازبس ضروری ہے کہ اقبال سے پہلے زیادہ تر واقعہ نگاری نظر آتی ہے مگر اقبال اس واقعہ کی تہہ تک پہنچے اور اسے معنوی انداز میں بیان کیا آپ اسرار خودی دیکھیں واقعہ کربلا کو اقبال نے علامت اور استعارہ بنا دیا ۔ مثلاً میراث مسلمانی سرمایہ شبیری تبھی تو اقبال اپنے دور میں اداس ہیں کہ: قافلہ حجاز میں ایک حسینؑ بھی نہیں گرچہ ہیں تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات اقبال کا بیان کردہ فلسفہ کربلا ہی فلسفہ عشق حقیقی ہے: ذکرِ عرب کے سوز میں، فکرِ عجم کے ساز میں نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیّلات قافلۂ حجاز میں ایک حْسینؓ بھی نہیں گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات عقل و دل و نگاہ کا مْرشدِ اوّلیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دِیں بْت کدۂ تصوّرات صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسینؑ بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حننین بھی ہے عشق