اس حکومت سے ایک اچھا کام سرزد ہوا ہے‘اس کی تعریف میں نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا۔یہ ایسا کام ہے جس پر کہا جا سکتا ہے کہ پہلے یہ کام نصف صدی میں نہ کر پائے۔ٹی وی پر یہ خبر دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا کہ ن م راشد کے ساتھ مجید امجد کو بھی نشان امتیاز سے نوازا گیا۔حیران کن بات یہ تھی کہ ن م راشد کے تو پھر طرف دار موجود تھے۔ایک تو وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے تھے‘دوسرے ریڈیو پاکستان سے لے کر عالمی اداروں میں ملازم رہے۔ان کا نام جدید شاعری کے بانیوں میں لیا جاتا تھا اور میرا جی کے ساتھ ان کا ذکر آتا تھا۔فیض کو ان کے تقابل میں رکھ کر تولا جاتا تھا۔مگر یہ مجید امجد نے ایک درویش صفت انسان تھے۔ان کی وفات پر میں نے لکھا تھا کہ اردو شاعری کے سر سے ایک ولی کا سایہ اٹھ گیا ہے۔وہ ساری عمر ساہیوال میں رہے۔گمنام تو نہ تھے‘مگر ان کے مرنے کے بعد ادبی حلقوں میں ان کی قدرو قیمت ابھر کر سامنے آئی کہ یہ تو اردو شاعری میں اقبال کے بعد ایک نئی عظیم روایت کے بانی ہیں۔میرا تعلق تو ان سے بہت ذاتی تھا۔میں کہا کرتا ہوں ادب میںمرے استاد کئی ہیں، مگر مرشد وہی ہیں۔ایک مجید امجد دوسرے سلیم احمد۔میں نے زندگی میں ایسا لفظ شناس نہیں دیکھا۔مصطفی زیدی ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر تھے تو ایک شب کی یاد میں انہوں نے ایک نظم لکھی۔ کل رات مرے گھر پہ خرافات تھی روشن بیٹھے تھے تہی جام مگر حضرت امجد اب نظم میں آگے چل کر ایک ایسا مصرعہ لکھا جو ان کی امجد سے حد درجہ عقیدت کا حوالہ بن گیا ہے۔مصطفی زیدی ‘جوش ملیح آبادی کے مداح تھے اور ظاہر ہے زبان کا ایک خاص مزاج رکھتے تھے۔مگر امجد کو مخاطب کر کے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے۔ اے واقف اسرار دل ہوز و ابجد حرف شناسی اور لفظ شناسی کی یہ سند زیدی جیسا زبان شناس یونہی نہیں دیا کرتا۔مجھے یاد ہے کہ جب مجید امجد نے اپنی 65ء کی جنگ پر اپنی شہرہ آفاق نظم پڑھ کر سنائی اور اس شعر پر پہنچے جلی زمیں ،سیہ دھول، صدق خوں کی مہک قدم قدم پہ یہاں مہر و مہہ کی سجدہ گہیں تو زیدی ایک کمال وجد میں یہ مصرعے دہرانے لگے۔صدق خوں کی مہک کی ترکیب کو بار بار دہراتے اور کہتے جاتے اللہ نے کہا زیدی تم افسری کرو گے‘شاعری تو بس امجد ہی کرے گا۔ کدھر نکل گیا۔میں اس اعزاز کا ذکر کر رہا تھا جس کا اعلان ان دنوں حکومت پاکستان کی طرف سے کیا گیا۔حیران کر گیا یہ اعلان۔اگر معیشت کی شرح نمو 10فیصد ہو جاتی تو میں اتنا حیران نہ ہوتا جتنا اس اعلان سے ہوا۔میں عرصے سے ان سرکاری اعزازات پر تبریٰ کرتا چلے آیا ہوں۔سرکاری ایوارڈ کیا‘رائٹرز گلڈز کے ایوارڈ سے بھی اس برس بدظن ہو گیا تھا جب منیر نیازی کے بجائے قتیل شفائی کی ’’گجر‘‘کو انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا۔پھر تو کمالات ہوتے رہے۔یہ تو مگر سرکاری اعزاز ہے۔مجھے یاد ہے کہ ادب میں زیادہ سے زیادہ ستارہ امتیاز سے نوازا جاتا تھا۔پہلی بار جب ہمارے جمیل الدین عالی کو ایک سائنس داں کے ساتھ یہ اعزاز ملا تو عالی جی سے اپنی بے تکلفی کی وجہ سے ان کے پیچھے پڑ گیا کہ آخر آپ کو یہ اعزاز دیا کیوں گیا۔بہت سے حق دار بیٹھے ہوتے ہیں۔سلیم احمد کو چھوڑیے ‘حسن عسکری ہیں۔ان کے اور ہمارے سب کے استاد جنہوں نے ادبی تحریروں کو ایک نئی تخلیقی جہت عطا کی، بہرحال وہ بھی مجھ سے بحث کرتے رہے اور میں ان سے شرط لگاتا رہا کہ آپ کو ملا ہے تو اب جمیل جالبی کو بھی ضرور ملے گا۔ہوا مگر یہ کہ اس کے بعد تو لائن لگ گئی، سیاسی حکومتوں نے ان اعزازات کی ایسی درگت بنائی کہ رہے نام اللہ کا، ایک برس تو یہ ہوا کہ جب پرائڈ آف پرفارمنس کا اعلان ہوا تو بہت سے ایسے افراد کے نام شامل تھے کہ شرم آنے لگی۔مگر مرے ساتھ جو ہوا وہ تو کمال ہے۔میں نے دوچار معقول لوگوں سے ذکر کر دیا کہ دیکھو اس بار ایوارڈ کس کس کو ملا ہے۔ستم ظریفی دیکھیے کہ جن جن سے شکوہ کیا انکے نام بھی اس فہرست میں شامل تھے۔ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے یہ ایوارڈ۔جسے دیکھو وہ ہلال امتیاز سے کم پہ رکتا ہی نہیں تھا۔خیر ادب میں اس کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی نوبل انعام نہ پانے والی بڑی بڑی شخصیات ہیں۔ خیر سرکاری کام اب سیاسی کام بنتے جا رہے ہیں۔اہم قومی، ادبی و تہذیبی اداروں پر ایسے لوگ بٹھا دیے جاتے ہیں جن کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ایک حکومت کی بات نہیں ‘سبھی کا یہ حال رہا ہے اور سیاسی حکومتوں نے تو حد ہی کر دی ہے۔ایسے میں مجید امجد کے لئے نشان امتیاز کا اعلان یہ بتاتا ہے کہ ابھی اس قوم میں زندگی کی کوئی رمق باقی ہے۔میں نے شامی صاحب سے عرض کیا کہ جو کام گزشتہ حکومتوں سے نہیں ہو سکا۔وہ اس حکومت سے کیسے ہوا۔سوچ کر کہنے لگے کہ اوپر ضرور کوئی معقول بیورو کریٹ موجود ہو گا۔ایسا ہی ہو گا مگر مرے لئے یہ زندگی کا پیام ہے۔