گھروں میں بجلی کے بل موت کے پروانے کی صورت آنے لگے ہیں۔ ایک پنکھا ،ایک بلب جلانے والے فیصل اباد کے ایک مزدور کو بجلی کا 40 ہزار بل آیا ۔خداکی پناہ اتنی تو اس کی آمدنی بھی نہیں تھی۔ 40 ہزار غریب شہر نے پوری زندگی میں اکٹھا نہیں دیکھا ہوگا۔ اتنے پیسے کہاں سے سرکار کے کھاتے میں جمع کروائے۔ اس سوال نے ا س کہ زندگی اندھیر کردی اور وہ موت کو گلے لگا کر زندگی سے چھوٹ گیا۔کہیں لیہ کے ڈی پی او خودکشی کے دہانے پر کھڑے خاندان کو راشن پہچا رہے ہیں مگر یہ مسئلہ ایسے حل ہونے والا نہیں، نہ ہی یہ چند خاندانوں کا مسئلہ ہے دو فیصد اشرافیہ کو چھوڑ کے کروڑوں پاکستانی خاندان اس بند گلی میں موجود ہیں۔ بجلی کے ایک بل کا چرچا خبروں میں بھی رہا تو سوشل میڈیا پر بھی ہے کہ ایک شخص کو بجلی کا 34 ہزار بل آیا جس میں 16 ہزار اس کی بجلی کا خرچہ تھا جبکہ 18 ہزار روپے مختلف ٹیکسز کے مد میں اس پر لگائے گئے۔ یہ وہ جگا ٹیکس ہے جو حکومت عوام سے وصول کرتی ہے۔بجلی کیبل میں تیرہ ٹیکس شامل کئے گئے ہیں ،جنرل سیلز ٹیکس ،فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر الیکٹر سٹی ڈیوٹی، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ویری ایشن نامی ٹیکس، بجلی کے استعمال شدہ یونٹس کی قیمت پر الیکٹرسٹی ڈیوٹی، ٹیلیویڑن فیس کی مد میں وصول کیا جانے والا ٹیکس، کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں وصول کیا جانے والا ٹیکس، فنانشل کاسٹ نامی ٹیکس ، ایکسٹرا ٹیکس چارجز، فردر ٹیکس چارجز، گیارہویں نمبر پر ودہولڈنگ ٹیکس، میٹر رینٹ کو ہر صارف بجلی کے کنکشن کے حصول کے وقت میٹر کی قیمت ادا کرتا ہے اور آپ انکم ٹیکس فائلر نہیں تو انکم ٹیکس بھی بل میٰ ہی ادا کرنا ہوگا۔ عوام اس بجلی کہ قیمت بھی ادا کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی استعمال ہی نہیں کی۔پورے پاکستان میں ٹیرف یکساں وصول کیے جاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ کے علاقے میں استعمال کی ہوئی بجلی کی قیمت پنجاب کے لوگ ادا کریں۔ہوتا یہی آیا ہے لیکن کسی نہ کسی طور لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر بجلی کے بل بھرتے رہے تھے۔ لیکن اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے اب بجلی کے بل عوام کی ماہانہ آمدن سے زیادہ آرہے ہیں اور ماہانہ آمدن پہلے ہی سکڑ چکی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ روز مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے آٹے، گھی چینی، چاول جیسی ضروری چیزیں بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ اب عوام کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف احتجاج کریں۔مقتدرہ کے مقدس اور غیر مقدس ایوانوں کو خبر ہو کہ عوام اب احتجاج کے موڈ میں ہیں اور پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں گھروں سے نکل کر احتجاجاً بجلی کے بل جلا رہے ہیں۔ اس میں سوائے جماعت اسلامی کے، دوسری سیاسی قیادت میدان عمل میں موجود نہیں ملک میں نگران حکومت ہے۔ یہ فیکٹر بہت اہم ہے کہ اس وقت عوام جب اپنے مسائل سے، اپنے مجبوریوں سے گھبرا کر حکومت اور حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے سڑک پر آئیں گے کوئی سیاسی جماعت سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ان کا استحصال نہیں کرے گی بلکہ عوام اپنی جنگ خود لڑنے کے لیے سڑکوں پر آرہے ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی بجلی کے بلوں پر اور اس ظالمانہ نظام کے خلاف بھر پور احتجاج ہورہاہے۔عوام کے پاس سب کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ بچوں کا پیٹ بھرنے کو پیسے نہ ہوں اور ہزاروں روپے بل آ جائے تو وہ مشتعل ہو کر واپڈا کے دفتروں پر حملے ہی کریں گے۔ ۔ واپڈا دفاتر کی طرف سے مقامی پولیس سے مدد مانگی گئی ہے کہ مشتعل ہجوم سے انہیں پناہ دی جائے۔حالات ایک دن میں اس نہج پر نہیں پہنچے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس میں برابر کی شریک ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ عرصے تک پاکستان پر حکومت کی ہے پھر پی ٹی ائی نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور حالات اس نہج پر پہنچا دیے گئے کہ لوگ غربت ،مہنگائی اور ظالمانہ بلوں سے خوفزدہ ہو کر خود کشیاں کر رہے ہیں ۔ مضطرب مائیں اجتماعی طور پر احتجاج کرتے ہوئے بجلی کے بلوں کو آگ لگا رہی ہیں۔تاجر منظم ہوکے احتجاج کررہے ہیں ۔یہ فیکٹر کسی بھی ملک میں سماجی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی بدترین مثال ہیں۔حالات جس نہج پر جارہے ہیں یہ ایکبچے کو بھی دکھائی دے رہا ہے۔حکمرانوں کی پالیسیوں نے لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔ اب جب کہ لوگ اپنے بچوں کو مناسب روٹی کھلانے سے قاصر ہیں وہ کہاں سے ہزاروں روپے کے بل اداکریں۔ تجویز آ رہی ہے کہ بلوں کی قسطیں کر دی جائے لیکن کوئی شہ دماغوں سے پوچھے کہ قسطیں ہو جائیں گی تو غریب درختوں سے پیسے توڑ کر بل ادا کریں گے جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ان کے بچوں کو پیٹ بھر روٹی میسر نہیں وہ ہزاروں روپے بھر کر اشرافیہ کے بلکیوں ادا کریں جن کو لاکھوں کی مراعات سرکار نے دے رکھی ہیں اگر غریب پاکستانیوں کو سستی بجلی میسر نہیں تو دولت مند اشرافیہ، ججوں، جرنیلوں، سرکاری افسران کی،مفت بجلی کی سہولت فی الفور ختم ہونی چاہیے۔ اس ظالمانہ نظام کو ختم ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے خزانے سے اشرافیہ کی مراعات ختم کی جائیں۔ لاکھوں دیہاڑی دار مزدور مہنگائی اور بجلی کے بڑھتے بلوں سے خوفزدہ ہوکے اپنا بجلی کامیٹر کٹوا کے سخت گرمی میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک خستہ حال گھر کے جہنم میں رہنے پر مجبور کیے جا رہے ہیں جبکہ ارباب اختیار سرکاری شاہ خرچیوں پر ٹھنڈے ماحول میں اس قیامت خیز گرمی میں تھری پیس سوٹ چڑھائے بیٹھے ہیں۔یہ ہے وہ فرق جس نے ظلم گزیدہ پاکستانی عوام پر ظالم اہل اقتدار کے چہرے بے نقاب کر دیے ہیں۔تحریک شروع ہو چکی ہے عوام فیصلہ کر چکے ہیں وہ بجلی کے بل ہرگز ادا نہیں کریںگے۔