گزشتہ ماہ افغان طالبان نے یہ کہہ کر تمام بارڈر کراسنگ پوائنٹ بند کر دیے کہ پاکستان افغان مریضوں اور ان کے ساتھ دیکھ بھال کے لئے آنے والے افراد کو بنا سفری دستاویزات داخلے کی اجازت نہیں دے رہا۔اس طرح کی شکایات کے باعث ہر سال کئی بار بارڈر کراسنگ پوائنٹ بند ہو جاتے ہیں۔دسمبر 2021ء میں ایسی ہی وجوہات پر افغان اور پاکستان کی بارڈر سکیورٹی فورسز میں جھڑپ ہوئی۔جنوری 2022ء میں پاکستان اور افغانستان کے حکام نے بارڈر کراسنگ پوائنٹس کے مسائل طے کرنے کے لئے نئے کوآرڈیشن میکنزم کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔پاکستان اس امر کا خواہا ں رہا ہے کہ افغان بارڈر پر معاشی و تجارتی سرگرمیاں ہموار طریقے جاری رہیں۔ افغان طالبان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے پاکستان نے افغان عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر روز مرہ کی ضروریات فراہم کرنے کا چارہ کیا ہے۔پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں کسی نوع کا نیا بحران پیدا نہ ہو اور مسلح گروہ ایک بار پھر افغانستان پر قابض نہ ہوں۔اس کے باوجود 2021ء کے آخر اور 2022ء کے شروع میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جنہوں نے دو طرفہ تعلقات میں تلخی پیدا کی۔افغان طالبان نے سرحدوں پر باڑ کی تنصیب کی مخالفت کی۔اس طرح سرحدی مقامات پر افغان فورسز معمولی بات پر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔بعدازاں یہ بھی دیکھا گیا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان میں مسلح کارروائیوں میں اضافہ کر دیا۔متعدد بار تشدد پسند گروپوں نے پاکستان کے سرحدی محافظوں کو ہدف بنایا۔ افغان اور بھارتی میڈیا سرحدی کشیدگی‘ سرحدی محافظوں کے مابین جھگڑے اور اس نوع کے دیگر واقعات کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے سرحدی حکام افغان شہریوں کے ساتھ احترام سے پیش نہیں آتے یا ان کی دستاویزات کو جان بوجھ کر مسترد کر دیتے ہیں۔ایک ہی تصویر مسلسل غلط زاویے سے پیش کئے جانے سے افغان عوام کے دل میں پاکستان کے خلاف نفرت بھرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت اٹھاتا ہے۔بھارت ہمیشہ افغان طالبان کو دنیا اور خطے کے لئے بڑا خطرہ قرار دیتا رہا ہے وہ افغان سرزمین پر اپنے انٹیلی جنس ٹھکانے بنانے کا خواہش مند ہے۔حامد کرزئی اور اشرف غنی دور میں بھارت نے افغان سرزمین کو بے دھڑک پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔بھارت کی کوشش ہے کہ افغانستان میں کس طرح سے اپنا اثرورسوخ اس حد تک ضرور بحال کر لیا جائے کہ پاکستان کے لئے سٹریٹجک نوعیت کے مسائل کھڑے کئے جا سکیں۔پاک افغان سرحدی پوائنٹس پر کشیدگی کا برقرار رہنا پاکستان اور افغانستان کے لئے فائدہ مند نہیں لیکن یقینا یہ بھارت کی دلی آرزوئوں کی تکمیل کا باعث بن رہا ہے۔ پاک افغان سرحدی آمدورفت کے مقامات پر بدنظمی اور افغان حکام کا غیر مناسب طرز عمل دونوں جانب کشیدگی بڑھانے کا سبب ہے۔طورخم‘ چمن‘ خارلاچی‘ غلام خان اور انگور اڈہ کے پانچ مقامات سے کم از کم روزانہ 13ہزار افراد پاکستان سے افغانستان‘ افغانستان سے پاکستان آتے ہیں۔ان میں زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہے جو پیدل سرحد عبور کرتے ہیں۔آنے جانے والوں میں مریض‘ تاجر‘ سیاح اور ٹرانسپورٹر شامل ہیں۔ایک تخمینے کے مطابق ماہانہ 3لاکھ 85ہزار افراد سرحد کے آرپار جاتے ہیں جبکہ سینکڑوں تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے ہیں۔ایسے مصروف سرحدی دروازوں کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ملکوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔مسلسل جنگ کی وجہ سے افغانستان میں صنعت‘ زراعت اور پیداوار کے دوسرے شعبے ترقی نہیں کر سکے۔افغان عوام کی خوراک‘ ادویات‘ سبزی ‘ ملبوسات اور دیگر ضروریات کا سامان پاکستان پورا کرتا ہے۔کم وسائل اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود پاکستان نے سرحد پر موجود کراسنگ پوائنٹس پر 100کائونٹر قائم کر رکھے ہیں۔اتنے کائونٹروں کا مقصد سرحد کے آر پار سفر کرنے والوں کو کم وقت اور بنا کسی زحمت کے سہولیات فراہم کرنا ہے۔یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں ہمسایہ ممالک کے سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر اس قدر وسیع انتظامی سہولت موجود نہیں۔ پاکستان نے اپنی سرحدوں پر انٹی گریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم نافذ کر رکھا ہے۔یہ سسٹم سفر کے لئے صرف ایک دستاویز(ویزہ اور پاسپورٹ) کا مطالبہ کرتا ہے۔تاہم اپنے افغان بھائیوں کی سہولت کے خیال سے پاکستان نے خاص طور پر افغان مریضوں‘ صحافیوں‘ خواتین اور تاجروں کو انسانی بنیادوں پر تذکرہ کی بنیاد پر آنے جانے کی سہولت فراہم کر رکھی ہے۔اس سہولت نے ہزاروں افغان عوام کو ہر ماہ علاج‘ کاروبار یا پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دینے کے لئے پاکستان آنے میں آسانی فراہم کر رکھی ہے۔افغان بھائی بغیر پاسپورٹ روزی روٹی کمانے‘ رشتہ داروں سے ملنے،کسی بیماری کی صورت میں ایمرجنسی علاج کے لئے یا تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان آ سکتے ہیں اس طرح کی آسانی دنیا میں کوئی دوسرا ملک اپنے ہمسائے کے لئے پیش نہیں کرتا۔ریاست پاکستان اس نوع کی آسانیاں پیدا کر کے دراصل افغان عوام کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ افغان عوام کی ضرورت اور تکلیف کی حالت میں حتی المقدور مدد کرنا چاہتی ہے۔ دیکھا جا رہا ہے کہ ہر ماہ 5سے 6ہزار افغان شہریوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کم از کم سطح کی سفری دستاویزات بھی نہیں ہوتیں۔ایسے افغان شہری جن کے پاس پاسپورٹ تو درکار‘ تذکرہ تک نہیں ہوتا انہیں جب پاکستان میں داخلے سے روک دیا جاتا ہے تو وہ الزام تراشی پر اتر آتے ہیں۔ایسے افراد فوراً پاکستان کے سرحدی عملے پر غیر مناسب سلوک کا الزام لگا کر اپنی کوتاہی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان ہر بار تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے افغان حکام کو باور کراتا ہے کہ اس سرحد پر امن دونوں کے حق میں ہے۔