زمانہ بدلا اس تیزی سے بدلا کہ عرب کے ریگزاروں اور صحرائوں میں بلند وبالاعمارتیں کھمیوںکی طرح اُگ آئیں ،مگر مکہ کی فضا فاروق اعظم ؓ کی سادگی کی اب بھی گواہ ہے۔سر تلے اینٹ رکھ کر اسراحت فرماتے دیکھ کر،رومی سفیر ششدر رہ گیا ۔عرب میں جس کا سکہ چلتا ہو،روم وایران جس کے نام سے لرزاں ہوں ۔جس کی بات پرجبرائیل امین قرآن کی آیات لیکر نازل ہوں ۔اس خلیفہ ثانی ؓ پر لاکھوں سلام۔ حضور اکرم ؓنے مختلف موقعوں پر فرمایا:’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓ ہوتے ۔‘‘ ’’عمر ؓکی وجہ سے اللہ نے اسلام کی مدد کی۔‘‘’’عمرؓ سے شیطان بھاگتا ہے۔‘‘’’حق بات عمرؓ کی زبان و دل کے ساتھ ہے۔‘‘ ’’عمرؓ جب تک زندہ رہیں گے فتنے کے دروازے بند رہیں گے۔‘‘’’جس نے عمر ؓسے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘’’ہر نبی کے وزیر ہوتے ہیں، میرے وزیر ابوبکر ؓاور عمر ؓ ہیں۔‘‘’’ عمر ؓاہل جنت کا چراغ ہے۔‘‘ ہمارے ہاں احتساب کے لیے قوانین بنتے ہیں۔ مالی و انتظامی، بد دیانتی، کرپشن کرنے والے محفوظ طریقے سے بچ جاتے ہیں مگرمعاملہ جوں کا توں رہتا ۔سیدنا عمر فاروقؓ جب کسی کو عامل مقرر کرتے تو ایک جماعت کو گواہ بناتے جو انصار اور کچھ لوگوں پر مشتمل ہوتی،اس پر چار شرطیں عائد کرتے:وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا۔باریک کپڑے نہیں پہنے گا۔چھنے ہوئے آٹے کی روٹی یعنی سفید روٹی نہیں کھائے گا۔ دربان مقرر نہیں کریگا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ مدینہ منورہ میں کسی مقام سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے بآوازبلند کہا:کیا آپ صرف شرطیں عائد کر کے اللہ کے ہاں سے بچ جائیں گے۔ جب کہ مصر میں آپؓ کا مقرر کردہ عامل عیاض بن غنم باریک کپڑے پہنتا ہے اور اس نے دربان مقرر کر رکھا ہے؟اس پر آپؓ نے محمد بن مسلمہ ؓکو بلایا، جن کو آپ عمال کی جانب سفیر بنا کر بھیجا کرتے تھے اور ان سے کہا کہ جاؤ اور عامل مصر عیاض بن غنمؓ جس حال میں بھی ہو، اسے میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ جب محمد بن مسلمہؓ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دروازہ پر دربان موجود ہے اور اندر گئے تو دیکھا کہ عیاض باریک قمیض پہنے بیٹھے ہیں۔انہوں نے کہا: امیر المومنینؓ نے آپ کو طلب کیا ہے۔ اس نے کہا: مجھے موقع دو کہ قبا پہن لوں۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا نہیں، اسی طرح چلنا ہوگا۔ اور وہ اسی حال میں لے کر حضرت عمرؓ کے پاس آ گئے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: یہ قمیص اتار دو۔ آپؓ نے اون کا جبہ اور بکریوں کا ریوڑ اور لاٹھی منگوائی اور کہا یہ اونی جبہ پہنو، لاٹھی اٹھاؤ اور بکریاں چراؤ۔ اور اس کا دودھ خود بھی پیو اور جو تمہارے پاس سے گزرے اسے بھی پلاؤ اور جو افزائش ہو،اسے ہمارے لیے محفوظ کر لو۔ کیا تم نے سن لیا ؟ اس نے کہا جی ہاں، لیکن اس زندگی سے موت بہتر ہے۔حضرت عمرؓ دہراتے رہے کہ کیا تم نے سن لیا،وہ یہی کہتے رہے: ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ پھر حضرت عمر ؓنے کہا: تم اس زندگی کو برا نہ سمجھو تمہارا باپ بھی بکریاں چراتا تھا، اس لیے اس کا نام غنم تھا۔ پھر آپؓ نے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ مال ہے ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں اے امیر المومنین ؓآپ نے کہا وہ ہمیں لادو۔اس کے بعد آپؓ کے کسی عامل نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی۔حضرت عمر فاروق ؓکا یہی طرزِ عمل تھا جس نے ان کے زمانے کی بیورو کریسی کو اصول و قواعد کا پابند بنا کر ان کی وسیع سلطنت کو امن و امان کا گہوارہ بنا رکھا تھا۔ آج بھی کرپٹ معاشروں میں ایسے ہی حکمرانوں کی ضرورت ہے جو معاشرے سے ظلم و انصافی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ اعلیٰ اخلاق اور محاسن کا سرچشمہ خشیت الٰہی جوآپؓ کے رگ و پے میں موجود تھا۔قیامت کے دن مواخذے سے ہمیشہ لرزہ بر اندام رہتے ۔ فرمایا کرتے تھے کہ:’’اگر آسمان سے آواز آئے کہ ایک آدمی کے سوا تمام دنیا جنتی ہے، تب بھی مواخذہ کا خوف زائل نہ ہوگا کہ شاید وہ ایک بدقسمت آدمی میں ہی ہوں۔‘‘ دل ہر لمحہ خوف خداوندی سے لرزاں و ترساں رہتا۔ نماز میں ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کا ذکر اور اللہ کے عظمت و جلال کا بیان ہوتا اور اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندھ ہو جاتی۔ 23 ہجری میں آپ ؓکی عمر 63 برس ہو چکی، بڑھاپے نے گھیر لیا۔ رب سے ملاقات کی تمنا پیدا ہوئی۔23 ہجری منیٰ سے واپسی پر آپ بطح میں لیٹے تھے ،دونوں ہاتھ اٹھا کردعا مانگی۔’’یااللہ! میری عمر زیادہ ہو گئی ہے۔ ہڈیاں نرم پڑ گئی ہیں۔ قوتیں جواب دے رہی ہیں… اب مجھے اپنے پاس بلا لے۔‘‘ حضرت عمر ؓحج سے واپس آنے کے بعد ایک بازار کا گشت لگانے نکلے کہ راستے میں مغیرہ بن شیبہؓ کا غلام فیروز المعروف ابو لولو ملا اور شکایتاً کہنے لگا۔ امیرالمومنین! مجھے میرے آقا مغیرہ بن شیبہ سے بچائیے جو مجھ سے بہت بھارٹی ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ حضرت عمر ؓنے پوچھا، تم کتنا ٹیکس ادا کرتے ہو؟ بولا روزانہ دو درہم۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا، کام کیا کرتے ہو؟ کہنے لگے بڑھئی، لوہار اور نقاش ہوں۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا، تمہارے پیشوں کے لحاظ سے تو خراج زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔ فیروز جانے لگا تو آپ ؓنے فرمایا، سنا ہے تم ہوا سے چلنے والی چکی بنا سکتے ہو، کہنے لگا ہاں، فرمایا تو پھر ایک چکی میرے لیے تیار کردو۔ بولا میں زندہ رہا تو آپ ؓ کے لیے ایسی چکی بنائوں گا جس کا چرچا مشرق سے مغرب تک ہوگا۔ آپ ؓ سمجھ گئے کہ یہ قتل کی دھمکی ہے لیکن آپ ؓنے کوئی احتیاطی تدابیر نہ کی۔ 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو صبح کی نماز کے وقت جونہی حضرت عمر ؓامامت کے لیے کھڑے ہوئے۔ فیروز ابو لولو نے دفعتاً پیچھے سے نکل کر آپ ؓ پر پے در پے خنجر کے چھ وار کئے۔ ایک وار پیٹ کے زیریں حصے میں پڑا۔ حضرت عمر ؓنے فوراً عبدالرحمن ؓ بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنی جگہ کھڑا کردیا اور خود زخموں کے صدمے سے گر پڑے۔ عبدالرحمن ؓبن عوف نے لوگوں کو اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر ؓسامنے زخموں سے نڈھال پڑے تھے۔ کچھ لوگ فیروز کو گرفتار کرنے کے لیے بڑھے۔ اس نے ان میں سے تیرہ کو زخمی کردیا، جن میں سے چھ شہید ہو گئے۔ آخر ایک شخص نے کمبل ڈال کر اسے پکڑا لیکن اس نے گرفتار ہوتے ہی اسی خنجر سے خودکشی کرلی۔ آج یکم محر م الحرام ہے ۔اسلامی مہینے کی ابتداء ہے ۔آج کے دن ہی بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس مربع کلومیٹر کے حکمران سیدنا فاروق اعظم ؓ کا یوم شہادت ہے ۔حضرت عمر ؓ نے بروز ہفتہ 29 ذوالحجہ کو وفات پائی اور بروز اتوار (شنبہ) یکم محرم الحرام 24 ہجری کو اپنی خواہش کے مطابق جناب سرور کائنات ؐ اور ابوبکر صدیق ؓ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ وفات کے وقت آپ ؓکی عمر تریسٹھ برس سے کچھ زائد تھی اور مدت خلافت دس سال چھ مہینے چار دن تھی۔