حماس نے عالمی اور علاقائی بساط پلٹ دی۔ حماس کے اسرائیل پر بحری‘ بری اور فضائی جارحانہ حملوں نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔ اس کے اثرات عالمگیر اور تاریخ ساز ہیں۔ حماس اور اسرائیل کی حربی قوت کا موازنہ کیا جائے تو ’’لڑا دے ممولے کو شہباز سے‘‘ کے مترادف ہے۔ گلستانِ سعدی میں کہانی ہے کہ جب بلی بے بس ہو جائے تو اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور اور مہلک درندہ پر جارحانہ حملے شروع کر دیتی ہے۔ اسرائیل اور حماس کی حالت اور کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ میڈیا ایک سراب ہے جس نے اسرائیل کو ناقابل تسخیر بنا رکھا تھا لیکن حماس نے اسرائیل کی دولت‘ طاقت اور گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا۔ اسرائیلی استعمار کا خواب بھی بری طرح متاثر ہو گیا۔ حماس اسرائیل کشیدگی کے مقامی اور بین الاقوامی اثرتا مشتے از خوارے درج ذیل ہیں۔ اسرائیلی عوام کو دوسری بار احساس ہوا کہ اسرائیلی ریاست اور سرزمین غیر محفوظ ہے۔ لہٰذا وہ اسرائیل سے بھاگنے اور فرار ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکمرانوں کی فلسطین‘ غزہ اور لبنان وغیرہ کے معصوم اور نہتے بچوں ‘ بوڑھوں اور عورتوں پر فضائی درندگی اسے عالمی انسانی برادری میں وقت کے ساتھ ساتھ تنہا کر دے گی۔ نیز غیر اسرائیلی یہودی بھی تمام دنیا میں غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ بالخصوص دوبئی‘ ابو ظہبی اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں عرب غم و غصہ کی زد میں آئیں گے۔ یورپ اور امریکہ میں رہائش پذیر یہودی مذکورہ خدشات کا پہلے ہی اظہار کر چکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ غیر اسرائیلی یہودیوں نے بھی ظالم اسرائیلی صیہونی حکمرانوں کے غزہ میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کر رکھے ہیں۔ آج اسرائیلی ‘عوام بھی عالم اسلام کے عوام کی طرح اپنے اپنے مذہب اور ریاست سے وفاداری اور ذمہ داری سے عاری حکمرانوں سے نالاں ہو گئے ہیں۔ امریکہ‘ روس‘ یورپ اور بھارت کے عوام بھی اپنے عالمی کٹھ پتلی او اسرائیلی مقلد حکمرانوں سے نالاں ہیں۔ یاد رہے کہ میڈیا اطلاعات فضائی درندگی اور زمینی ناکہ بندی سے جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ یہ امور غیر انسانی ریوں کو جنم دیتے ہیں یہ ظلم ‘ جبر ‘ بربریت دہشت اور وحشت کو بڑھاتے ہیں جنگ جیتنے کے لئے زمین پر قبضہ ضروری ہے۔ زمین پر قبضے کے لئے عوام سے ہم آہنگی اور یکجہتی لازم ہے بمباری اور ناکہ بندی حملہ آور کو عوام سے دور کر دیتی ہے۔حماس کے پاس حکومت اور ریاست کچھ نہیں مگر مظلوم عوام ساتھ ہیں،نیز حماس کی تحریک حریت عوامی ہے لہٰذا کامیاب بھی ہو گی یاد رہے کہ اسرائیل نے امریکہ و روس کی مدد سے شام‘ اردن ‘ عراق‘ سعودی عرب‘ مصر ‘ سوڈان اور لیبیا وغیرہ میں سازشی انقلابات سے ہمنوا سرکار سازیاں کیں۔آج مذکورہ ممالک کے مظلوم عوام بھی حماس کی مزاحمت کے دامے‘ درمے‘ سخنے حامی اور معاون ہیں۔ اسرائیل کا عالمی استعمار بے معنی اور بیکار ہے اگر بغلی ہمسایہ عوام اور جہادی تنظیم بھر پور مزاحمت کر رہی ہو۔ اسرائیل کے دیگر استعماری اڈے کشمیر‘ کرد تحریک اندلس‘ سپین کی شمالی خطے کی علیحدگی پسند تحریک وغیرہ کمزور پڑ جائیں گی یوکرائن کی کشیدگی دیکھنا ہے‘ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔یاد رہے کہ یوکرائن کا صدر زلنسکی اور اس سیاسی سرپرست بشمول حزب اختلاف کے سرپرست اسرائیلی شہری اور صیہونی ہیں۔ حماس کا ظہور ایک دن کی بات نہیں یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ حماس افغان جہاں 1988ء ‘کا ثمر اور اثر ہے ۔ عرب قوم پاکستان کی ضیاء الحق انتظامیہ کے ماتحت ریاستی جہادمیں بھرپور حصہ لیا، فلسطین میں پہلے صابرہ اور شتیلہ جہادی مزاحمتی عوامی تحریکوں نے جنم لیا جو یاسر عرفات اور نام نہاد اسرائیل نواز فلسطینی سرکار کی مخبری کی نذر ہو گئیں۔ فلسطینی عوام کے ایمان‘اتحاد‘ تنظیم اور پرعزم مزاحمتی استقامت نے حماس کو موجودہ مقام تک پہنچایا ۔ حماس اسرائیل کشیدگی کے ہمہ گیر اور دور رس اثرات ہیں۔ غالب امکان ہے کہ خطے کی اسرائیل نواز غیر مقبول حکومتیں متاثر ہی نہیں‘ بدل بھی سکتی ہیں امریکہ‘ برطانیہ ‘ فرانس ‘ جرمنی کی حکومتیں اسرائیل کی دامے‘ درمے‘ سخنے حامی اور معاون ہیں جبکہ مذکورہ مغربی ممالک کے عوام کا جم غفیر اسرائیلی درندگی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، اگر احتجاج بڑھ گیا، سڑکیں بھر گئیں تو مغرب کا جمہوری نظام متاثر ہو سکت ہے۔ عالمی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ میں ویٹو کا اصول اور قانون سب کو اور سب کچھ مفلوج کر کے رکھ دے گا۔ ہندو بھارت عالمی اور علاقائی سیاست و تجارت اور استعماری پالیسی کا دست راست ہے اب بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بھی متاثر ہو گا۔ جس کا بالواسطہ اور بلا واسطہ فائدہ پاکستان کو پہنچے گا بشرطیکہ پاکستان انٹرنیشلسٹ کے بجائے نیشلسٹ حکومت ہو۔ کشمیر پر بھارت‘ امریکہ‘ اسرائیل اور یورپی ممالک کی گرفت بھی کچھ ڈھیلی پڑ جائے گی، اگر چین کی پالیسی اسرائیل نواز نہیں تو فلسطین مخالف بھی نہیں۔ اقوام متحدہ میں امریکہ و مغرب کی اسرائیل کے حق میں قرار داد کو چین اور بظاہر عالمی امور میں حلیف روس کی منظوری کو ویٹو کر دیتا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی عملی امداد کے لئے فوج اور ہتھیار بھیجنا شروع کر رکھے ہیں مگر مجاہدین نے شام اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر کامیاب حملے شروع کر دیے ہیں۔حماس کی مزاحمت طول پکڑ کر گوریلا جہاد میں ڈھلتی نظر آ رہی ہے اور جلد یا بدیر یہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی۔ اسلامی ممالک کے عوام کا غم وغصہ اپنے اپنے حکمرانوں کو متاثر کرے گا۔ دینی حمیت اجاگر ہو گی۔محراب و منبر ازسر نو بلند آہنگ ہوں گے۔غزہ کے نہتے مظلوم اور بے بس مسلمانوں پر اسرائیلی درندگی ترکی روایتی دینی غیرت‘ حمیت اور حفاظت کی پالیسی کو دو ٹوک اور دوچند کرے گی۔ فی الحال دنیا میں تبدیلی بلکہ تبدیلیوں کا سمندر امڈتا نظر آ رہا ہے: عروقِ مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی