کچھ برس پہلے ایک اہم قانون کی اسمبلی سے منظوری کے بعد جب اس قانون کی مخالفت کرنے والی جماعتوںنیشنل پارٹی جے یو آئی ف پشتونخواہ میپ اور جماعت اسلامی کی اسلام آباد میں دھواں دھار پریس کانفرنس ٹی وی چینل پردیکھ رہا تھا جیسے ہی پریس کانفرنس ختم ہوئی توراقم نے میر حاصل خان بزنجو مرحوم کو فون کرکے کہا کہ اگر اس قانون کی مخالفت نہ کرتے تو آپ کو کیا نقصان ہوجاتا۔ آپ بھی ملک کی بڑی جماعتوں کی فہرست میں کھڑے ہوتے۔ دیکھیں نہ اپوزیشن کی سرخیل جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے بھی تو اس ترمیم کی حمایت کی ۔آپ حمایت نہ کرتے کم از کم غیر حاضر ہی ہوجاتے، جس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تمہاری یا کسی اور کی خوشنودی یا خواہشوں پر میں سیاسی تاریخ کی غلط سمت میں نہیں کھڑا ہوسکتا۔ میر حاصل خان بزنجو کا یہ جملہ سنتے ہی میں لاجواب ہوگیا ۔ آج سوچ رہا ہوں کہ ووٹ کو عزت دو کے بیانیئے اور مفاہمت کی پالیسی کے درمیان جھولتی ن لیگ اور جمہوریت کی چمپئین پیپلزپارٹی اصولوں اور نظریات کی گفتگو کرنے والے سردار اختر مینگل سمیت کوئی ایسا نہیں جو سیاسی تاریخ کو میر حاصل خان کی طرح دیکھ رہا ہو۔ میر حاصل خان کے سیاسی تاریخ کے درست سمت میں رہنے کی کوشش کو کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن چند روز قبل سینیٹ میں سٹیٹ بینک کے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اب سینیٹ میں حقیقی اپوزیشن صرف تین رکنی رہ گئی ہے۔ جو سینیٹر طاہر بزنجو، سینیٹر اکرم دشتی اور سینیٹر مشتاق احمد پرمشتمل ہے۔باقی اپوزیشن کیلئے یہ جملہ موافق ہے کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز۔ اپوزیشن کی باقی جماعتوں پیپلزپارٹی ن لیگ بی این پی مینگل آزاد گروپ یا اے این پی نے ایوان میں اراکین غیر حاضر کرواکے حکومت کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ اس لئے انہیں اپوزیشن تو کہا جاسکتا ہے، حقیقی اپوزیشن نہیں۔ جماعت اسلامی اور نیشنل پارٹی واحد جماعتیں تھیں جنکی جتنی نمائندگی تھی اتنی حاضر رہی اور بل کی مخالفت میں ووٹ دیا اس لئے یہ دنوں جماعتیں گفتار کی غازی اپوزیشن سے الگ ہی گردانی جائیں تو بہتر ہے۔ان تین ووٹ سے نہ تو قانون سازی رک سکتی تھی نہ رکی لیکن کم از کم انہوں نے اپنی سیاست کی سمت ٹھیک رکھی۔ دہرا معیار اختیار کرکے سہولت کاری نہیں کی۔ جس وقت قومی اسمبلی سے سٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور ہوا اس وقت ن لیگ نے ایسا بیانیہ بنایاجیسے حکومت اور اس کے اتحادیوں سے کوئی گناہ سرز ہوگیا ہو۔ احسن اقبال مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل ہیں ان کی ٹویٹس دیکھ کر لگتاتھا کہ وہ اس بل کو سینیٹ میں پاس نہیں ہونے دیںگے۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو قومی اسمبلی میں جو تقریر کی اس پر تو لگا اس معاملے پر وہ سینیٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دیںگے لیکن ہر دوسرے بل پر اپنے اراکین غیر حاضر کرواکے حکومت کی سہولت کاری ہو رہی ہے۔ اب اس کے بعد کس منہ سے اپوزیشن حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرے گی چاہے وہ لانگ مارچ فروری کا ہو یا مارچ کا۔ عوام پر اس بل کی منظوری پر جو اثرات مرتب ہوںگے اس کی ذمے داری تن تنہا حکومت پر نہیں اپوزیشن پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اپوزیشن وزیر اعظم کو عدم اعتماد سے نکالنے کے خواب دیکھ رہی ہے تو اس دیوانے کے خواب کی تعبیر کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کہیں یا پی ڈی ایم کہیں اس میں موجو دحقیقی اپوزیشن کہلانے کے قابل جماعتیں اب صرف نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی ہیں۔ اپوزیشن کے غیر حاضر سینیٹرز میں پی ڈی ایم کی جماعتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا تو دوڑ میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کیسے پیچھے رہ سکتی تھیں۔ پی ڈی ایم کی باہر کی جماعتوں میں صرف جماعت اسلامی ہی تھی جو نیشنل پارٹی کے ساتھ شانہ بشانہ رہی۔ اگر پوزیشن کی جماعتیں سمجھتی تھیں کہ اس بل کو پاس کرنا مجبوری ہے تو دہرا معیار اختیار نہ کرتیں اور واضح بتادیتیں کہ اس قانون کی منظوری اس وقت ملک کی ضرورت ہے اس لئے ہم اس کے خلاف نہیں جاسکتے ہیں تو یہ ایک حکومت دوست نہیں حقیقی وطن دوست اپوزیشن کا رویہ گردانا جاتا۔ لیکن اپوزیشن نے سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ایک ایسا بیانیہ بنایا جیسے سینیٹ میں وہ اس بل کو اٹھا کر باہر پھینک دیگی۔ جب بیانیہ بنایا تھا تو اپوزیشن کھڑی بھی رہتی۔ لیکن اب اپوزیشن اس بل کی منظوری میں شریک ہے جس کا اظہار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ٹویٹ میں کیا اور بہتان لگایا کہ یوسف رضاگیلانی نے اپوزیشن لیڈر بنائے جانے کا حق ادا کردیا ۔ اپوزیشن کے غیر حاضر سینیٹرز کی فہرست میں جو جماعتیں پی ڈی ایم کی اندر بیٹھی ہیں یا پی ڈی ایم سے باہر ہر جماعت اپنی اپنی ڈیل تلاش کررہی ہے تو ایسے میں ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہو یا کوئی اور نعرہ اس پر عوام کو جذباتی کرنے کے سوائے اپوزیشن کوئی اور کردار نہ ادا کرپائیگی۔ فواد چوہدری جیسے شعلہ بیاں وزیر اطلاعات اس اپوزیشن کی بہترین درگت بناتے رہیںگے کیا اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی چالاکیوں سے عوام کو اندھیرے میں رکھ سکے گی اور عوام خاموش رہیںگے؟۔ جس پارلیمانی جمہوریت کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں اقتدار کی ریس میں شریک ہیں اس پارلیمانی نظام میں عوام کی دلچسپی روز بروز کم ہورہی ہے۔ جس کی ذمے داری کسی اور پر نہیں بلکہ سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے اس نظام کو تباہی کی جانب لے جانے کا سہرا اب کسی اور کے سر ڈالنے کے بجائے پہلے سیاسی قیادت اپنے کارکنان اور عوام کو بتائیں کہ اپنی اپنی ڈیل کی تلاش میں سیاسی قیادت اس حکومت کی اور کتنی سہولت کار بنے گی اور کس جواز پر عوام اس حکومت کے خلاف ایسی سیاسی قیادت کی کال پر سڑکوں پر نکلیں گے۔ ایسے حالات میں پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کا ٹائٹل جیتنا اور اپوزیشن کا اس حکومت کو گھر بھیجنا مشکل لگتا ہے۔ لاہور قلندر کے رانا صاحب کی نیت پر کوئی شق نہیں ، قسمت ہی ان کا ساتھ نہیں دے رہی ۔ لیکن اپوزیشن اپنی قسمت کے فیصلے خود کررہی ہے اس لئے عوام لاہور قلندر کی ٹیم کو تو معاف کرسکتے ہیں لیکن دہرے معیار والی اپوزیشن کو نہیں۔