قومی سلامتی پالیسی کی دستاویز میں انسانی تحفظ کو ملکی سلامتی کا ایک اہم جزو بتایا گیا ہے۔مطلب‘ ملک کی سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ ملک میں رہنے والے انسانوں کی زندگی میں بہتری اور ان کی انفرادی ترقی قوم کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ سادہ الفاظ میں اگر عوام خوشحال ہوں گے تو ملک مضبوط ہوگا۔ اگر عوام بدحال ہوں گے تو ملک کمزور ہوگا۔ یہ بات تو صدیوں سے لوگوں کو معلوم ہے لیکن جدید تعلیم یافتہ اسکالرز کا ہنر یہ ہے کہ سادہ سی بات کونئے انداز میں اور بھاری بھرکم اصطلاحات کی صورت میں بیان کرتے ہیں ۔ خیر‘ اچھی بات ہے کہ پاکستان کی ریاست کی بیان کردہ قومی پالیسی میں عوام الناس کا ذکر آگیا اور یہ عہدکیا گیا کہ ان کی ترقی اور تحفظ ملک کی سلامتی کا ضامن ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہ ذکر پالیسی کے کاغذوں تک محدود رہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی ٹھوس کام نہ کیا جائے۔ کیونکہ ہمارے ملک کے آئین میں عوام الناس کے کئی معاشی حقوق کا ذکر ہے لیکن عوام کو یہ قانونی حقوق دینے کے لیے گزشتہ تقریباً پچاس برسوں میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیںکی گئی۔ پاکستان کا معاشرہ بنیادی طور پر امیرلوگوں کی آہنی گرفت میں ہے۔ ایک مختصر دولت مند طبقہ سیاسی‘ معاشی وسائل پر قابض ہے۔ زرعی زمین‘ بینکوں کا سرمایہ‘ ریاست کے وسائل ۔ان سب پر اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ یہ لفاظی نہیںبلکہ ٹھوس حقیقت ہے۔ آئیے اس دعوے کے ثبوت کے طور پرایک نظر اعداد وشمار پر ڈالتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارہ یو این ڈی پی کے زیر اہتمام پاکستان میں انسانی ترقی پرگزشتہ برس ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے ملک کی ایک فیصد امیر ترین آبادی قوم کی نو (9)فیصد آمدن کی مالک ہے۔ اس ایک فیصد طبقہ کے پاس ملک کے مجموعی زرعی رقبہ کی بیس فیصدملکیت ہے۔ ملک کی پندرہ فیصد جائیداد اور بینکوں میں جمع رقوم کا چھبیس فیصد ان کی ملکیت ہے۔ بینک جو قرضے دیتے ہیں انکا سینتیس ( 37)فیصد یہ ایک فیصد لوگ حاصل کرتے ہیں۔تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت ملک کے امیر ترین لوگوں کو مختلف طریقوں سے نوازتی ہے۔ پاکستانی ریاست ان دولت مند لوگوں پر جو نوازشات کرتی ہے وہ تمام غریب لوگوں پر خرچ کی جانے والی رقوم سے زیادہ مالیت کی ہوتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سال 2017-18 میں ریاست نے غریب لوگوں کی امداد کے لیے مختلف پروگراموں پر624 ارب روپے خرچ کیے جبکہ امیر لوگوں کی مراعات پر ساڑھے چار گنا زیادہ یعنی 2,660ارب روپے۔ اس کے باوجود ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں مستحق لوگوںکیلیے شروع کیا گیا احساس کیش پروگرام کھٹکتا ہے۔مختلف حکومتوں کی امیر دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی بیس فیصد امیر آبادی کی انسانی ترقی کا معیارچین کے اوسط معیار کے برابر ہے جبکہ ہماری غریب ترین بیس فیصد آبادی کی انسانی ترقی دنیا کے غریب ترین ممالک جیسے ایتھوپیا اور چاڈ جیسی ہے۔ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کی بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ سولہ فیصد تعلیم یافتہ لوگ بے روزگار ہیں۔متوسط طبقہ کی آمدن کو گزشتہ آٹھ برسوں سے بریک لگی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنرل مشرف کے دور میں متوسط طبقہ کی آمدن میں سالانہ پانچ فیصد اضافہ ہورہا تھا جبکہ گزشتہ آٹھ برسوں سے یہ اضافہ ایک فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ بجلی‘ گیس اور مکانوں کے کرایوں میں ہوش رُبا اضافہ نے متوسط طبقہ کی کمر توڑ دی ہے۔ پاکستان کے اندر مختلف علاقوں کی ترقی بھی یکساں نہیں ہے۔ جیسا کہ عام طور سے معلوم ہے کہ بلوچستان اور اندرون سندھ ملک کے باقی علاقوں سے زیادہ غربت میں دھنسے ہوئے ہیں۔تحقیقاتی رپورٹ کے اعداد وشمار بھی یہی ثابت کرتے ہیں۔ خاص طور سے بچوں کی نشوونما کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بلوچستان اور دیہی سندھ کاحال بہت خراب ہے۔ ان دونوں جگہوں پر ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ تعداد میں ایسے بچے ہیں جن کی نشوونما نارمل سے کم ہے۔اسکی وجہ ان کو پوری غذا نہ ملنا ہے۔گزشتہ روز ہی خبر آئی ہے کہ سندھ کے علاقہ مٹھی (تھرپارکر) میں سات کم سن بچے غذائی کمی کے باعث فوت ہوگئے۔ نئے سال کے بیس دنوں میںاس علاقہ میں اُنتالیس کم سِن بچے نشانۂ اجل بن چکے ہیں۔ گزشتہ برس تھرپارکر میں موت کے منہ میں جانے والے بچوں کی کل تعداد 625 تھی۔ایک انسان کو مارنے والے کو قاتل کہا جاتا ہے۔ جو معاشرہ اپنی بے حسی اور غفلت کے باعث سینکڑوں بچوںکو موت کے منہ میں دھکیل دے اُسے کیا کہیں گے؟ دس برس سے زیادہ عرصہ ہوگیا کہ تھرپارکر میں غذائی کمی کے باعث کم سن بچوں کی ہلاکت پر میڈیا میں شور مچ رہا ہے۔ اب تک عوام دوست‘ سندھ حکومت اس معاملہ پر قابو نہیں پاسکی۔ سندھ پر حکمران جاگیر داروں کا پیٹ بھرے تو غریبوں کو کھانے کے لیے کچھ ملے۔ دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب وہ علاقے ہیں جہاں غربت اور انسانی پسماندگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے معاش کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہے اور زرعی زمین کی ملکیت بڑے زمینداروں‘ وڈیروں کے قبضہ میں ہے۔ سندھ کی ایک تہائی زرعی اراضی بڑے زمین داروں کے پاس ہے۔ غیر سرکاری تنظیم پائلر کے مطابق دیہی سندھ میں دس لاکھ گھرانے کسی قسم کی زرعی ملکیت سے محروم ہیں۔ ان میں سے تین لاکھ خاندان وہ ہیں جو نیم غلاموں کی طرح کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ یہ غریب کسان اکثر زمینداروں اور مہاجنوں کے قرضوں میں جکڑے رہتے ہیں۔ دیہی سندھ میں پانچ لاکھ گھرانے ایسے ہیں جن میں ایک فرد نے بھی کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی۔یعنی وہ سب کے سب ناخواندہ ہیں۔ قومی سلامتی پالیسی میں انسانی تحفظ کی بات کرنا خوش آئیند ہے کہ کم سے کم حکومت نے اس اہم پہلو کی اہمیت کو تسلیم کیا لیکن اصل بات عمل کی ہے۔ پاکستان میں نصف سے زیادہ آبادی جس غربت کا شکار ہے اسے تحفظ فراہم کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر زرعی اصلاحات کرکے بے زمین کسانوںمیں زمین بانٹی جائے تو دیہی غربت خاصی کم ہوسکتی ہے۔ صدیوں سے غلامی اور پسماندگی میں جکڑے ہوئے کروڑوں لوگوں کو معاشی تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بچوں کو سرکاری اسکولوں میں مفت کھانا فراہم کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ غریب بچے اسکولوں کا رُخ کریں اور بنیادی تعلیم پا کر معاشرہ کے مفید شہری بن سکیں۔ جدید دنیا میں کوئی ملک ناخواندہ آبادی کے ساتھ خاطر خواہ معاشی ترقی نہیں کرسکتا۔