سیاستدانوں کو جوتوں میں دال بانٹتے دیکھ کر اب تو پاکستانی بھی رضا نقوی واہی کی طرح ’’ہم اپنے اہل سیاست کے قائل ہو چکے ہیں ،کہ حق میں قوم کے وہ مادرمسائل ہیں‘‘۔ گزشتہ چھ ماہ سے جس طرح کا سیاسی ماحول بنا کر قوم کے اعصاب کا امتحان لیا جا رہا ہے اسی کے بارے میں تو رضانقوی نے کہا تھا: قدم قدم پہ نئے گل کھلائے رہتے ہیں طرح طرح کے مسائل اگائے رہتے ہیں اسے گل کھلانا ہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک جس طرح معاشی بحرانوں سے دوچا ر چلا آ رہاہے ہمارے سیاستدان ہر بحران کے ساتھ ملک میں بالخصوص پنجاب میں نیا سیاسی بحران بھی پیدا کر رہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی کے بجائے ایوان اقبال میں اسمبلی کے الگ اجلاس بلائے ۔اقتدار کو طول دینے کے لئے عدالت میں معاملات کھینچے گئے مگر کب تک !آخر عدالت کے قانون کے مطابق فیصلے سے زبردستی کے وزیر اعلیٰ اور ان کی ساٹھ رکنی کابینہ فارغ ہوئی اور صحیح جگہ پنجاب اسمبلی میں ووٹ کی بنیاد پر پنجاب کو حقیقی وزیر اعلیٰ نصیب ہوا۔ پی ڈی ایم قانون کو ماننے پر آمادہ ہے نہ عدالتی فیصلوں کو۔ پرویز الٰہی، زرداری اور شریفوں کے درمیان اقتدار کی اس کھینچا تانی کا نتیجہ جو بھی نکلے مگر پنجاب کے عوام کی آنکھوں میں امید کی ایک کرن ضرور اتر آئی ہے جس کی وجہ پرویز الٰہی کا سابقہ دور اقتدار ہے۔ پرویز الٰہی 2002ء سے2007ء تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ انہوں نے ماضی کی روایت کو توڑتے ہوئے اپنے آپ کو صرف لاہور کا ہی نہیں عملاَ پورے صوبے کا وزیر اعلیٰ ثابت کیا۔ شمالی اور جنوبی پنجاب میں سڑکوں کا جال بچھایا مگر لاہور کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔پنجاب پر دھائیوں تک حکمرانی کرنے والے شرییفوں کو کبھی لاہور کی ٹریفک جام نظر نہ آئی مگر پرویز الٰہی نے لاہور میں انڈر پاسز متعارف کروا کر ٹریفک کی روانی کو یقینی بنایا۔ شاہراہوں پر ٹریفک پولیس کے سارجنٹ ٹرک اور موٹر سوار بالخصوص بچوں سے 20,20روپے اکٹھے کرتے تھے جس سے پولیس بدنام اور شہری پریشان تھے ۔پرویز الٰہی نے لاہور کو پڑھے لکھے ٹریفک وارڈن دے کر ’’چھلڑ کی چھیڑ ‘‘ہمیشہ کے لئے ختم کر دی۔یہ پرویز الٰہی ہی تھے جنہوں نے پنجاب میں دسویں تک بچوں کو مفت کتابیں دے کر تعلیم غریب کے لئے ممکن بنائی۔ ریسکیو 1122 جیسا عوامی خدمت کامثالی ادارہ قائم کیا جس سے آج بھی لاہوری آج بھی مستفید ہو رہے ہیں اور اس کے دائرہ ٔکار کو صوبے کے دیگر اضلاع تک پھیلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے صحت کے شعبے میں ایسے انقلابی اقدامات کئے ۔ یہ پرویز الٰہی ہی تھے جنہوں نے پہلی بار لاہور کے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے علاوہ ان ڈور میں مفت ادویات فراہم کر کے غریب کے لئے علاج کی مفت سہولت فراہم کی ۔پرویز الٰہی کے 2002ء سے 2007ء تک دور اقتدار کو ان کے بدترین ناقد بھی پنجاب کا مثالی دور ماننے پر مجبور ہوئے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے دور میں آسمان سے وسائل برس رہے تھے ۔وہی پنجاب تھا ،وہی پنجاب کی بیورو کریسی تھی، کچھ نیا تھا تو پنجاب کا وزیر اعلیٰ وہ میر نے کہا ہے نا: شرط سلیقہ ہے ہر ایک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے! پرویز الٰہی نے اپنا ہنرپنجاب کی بیورو کریسی کوعوام کی خدمت میں جوتنے کے لئے صرف کیا تھا ۔ افسر شاہی میں سے عوام کا درد رکھنے والے افسروں کو ٹاسک کے ساتھ اختیار دیا اور اپنی آنکھ کارکردگی پر مذکور رکھی۔جن لوگوں نے پرویز الٰہی کا دور دیکھا وہ آج بھی گواہ ہیں کہ انہوں نے اسی افسر شاہی سے کام لیا جن پر ’’سرخ فیتے ‘‘کا لیبل لگا دیا گیا تھا ۔زیادہ نہیں ایک مثال شعبہ صحت کی لے لیتے ہیں ۔پرویز الٰہی نے ایشیا کے سب سے بڑے میو ہسپتال میں ڈاکٹر فیاض رانجھا کو ایم ایس لگایا اور مفت علاج کا پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا پھر لاہور کے شہریوں نے میو ہسپتال میں لائوڈ سپیکروں پر اعلانات سنے کہ کوئی ڈاکٹر مریض کو بازار کا ٹیسٹ یا دوائی نہیں لکھ سکتا، اگر کوئی ایسا کرے تو ایم ایس آفس سے رابطہ کیا جائے ۔ایسا بھی نہ تھا کہ پرویز الٰہی نے پنجاب کا سارا بجٹ میو ہسپتال میں مفت ادویہ کی فراہمی کے لئے جھونک رکھا تھا۔ وسائل وہی تھے بس فیاض رانجھا کو سرکاری فنڈز کے درست استعمال کو یقینی بنانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فیاض رانجھا رات تین بجے ایمرجنسی میں مریضوں سے پوچھ رہے ہوتے کہ کوئی دوائی بازار سے تو نہیں خریدنی پڑی۔ مسائل وسائل پر بھاری پڑتے محسوس ہوئے تو فیاض رانجھا نے سرکار کی طرف دیکھنے اور جواز گھڑنے کی بجائے حل یہ تلاش کیا کہ صاحبان ثروت سے عطیہ مانگنا بھی اپنی افسری کی توہین نہ سمجھا۔ ایمرجنسی اور ان ڈور کے بعد جنرل آپریشن تھیٹر میں مفت علاج کا ذمہ وزیر اعلیٰ کی ہدایات کے بغیر خود اٹھایا اور وسائل کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کئے۔ ان دنوںامام کعبہ پاکستان تشریف لائے تو ان کو میوہسپتال پکڑ لائے ۔ہڈی وارڈ کے آپریشن تھیٹر میں ایک مریض پر لاکھوں روپے کے پلانٹس کی مفت فراہمی کے عزم کا اظہار کیا اور پھر یہ کر بھی دکھایا۔ڈاکٹر فیاض رانجھا کی انتظامی صلاحیتوں کا اس سے بڑھ کر ثبوت بھلا اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اسی عملے سے کام لیا جو کام چور اور مریضوں سے بخشش لینے کی شہرت رکھتا تھا۔ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ رہے نا ہی ڈاکٹر فیاض رانجھا میوہسپتال کے ہمیشہ کے لئے مالک بن بیٹھے مگر ان کے کام آج بھی یاد کئے جاتے ہیں۔ فیاض رانجھا ہی کیوں پرویز الٰہی نے ہر محکمہ میں کوئی نہ کوئی فیاض رانجھا دریافت کیا اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ یہ پرویز الٰہی کی اسی عوامی خدمت کا نتیجہ ہے کہ آج جب ایک بار پھر وہ وزیر اعلیٰ ہیں تو لاہور کے ساتھ شمالی اور جنوبی پنجاب کے عوام کے دل میں ترقی و خوشحالی کی امید جاگی ہے۔ ان کو یقین ہے کہ اپوزیشن جو بھی کر لے پرویز الٰہی تمام ہتھکنڈوں کے باوجود اپنے کام پر توجہ دیں گے امید اس لئے کہ 75سال کی سیاسی دائو پیج دیکھ کر پاکستان کے لوگوں کو یہ بات تو سمجھ آ گئی ہے کہ اقتدار کے پجاری کرسی کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں رضا نقوی نے سچ ہی کہا ہے: کبھی شور کرو ختم چور بازاری منافع خوروں کی لیکن نہ ہو گرفتاری برائے بحث کھڑا ہے کبھی یہ ہنگامہ لباس قوم کا دھوتی ہو یا کہ پاجامہ ہر ایک بحث میں کچھ کشت و خوں ضروری ہے نہیں تو جو بھی ہے تحریک وہ ادھوری ہے