تحریک انصاف نے بے گھروں کو پچاس لاکھ گھر دینے کا نعرہ لگایا تو بے گھر پاکستانیوں کو اپنے گھر کا خواب سچ ہوتا نظر آنے لگا۔ حکومت نے نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کے تحت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کے ذریعے بے گھروں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا تو اپنی چھت سے محروم غریبوں کی آنکھیں امید کے نور سے چمکنے لگیں۔ لاکھوں دیہاڑی دار، چھابڑی فروش اور روزانہ کنواں کھود کر پینے والوں کی رجسٹریشن کے لئے نادرا دفاتر کے باہر لائنیں لگ گئیں۔ لوگوں کے یقین کا یہ عالم تھا کہ رش کی وجہ سے حکومت کو مقرر کردہ تاریخ میں اضافہ کرنا پڑا۔ پاکستان بھر سے 19لاکھ بے گھر افراد نے درخواستیں جمع کروائیں اوریہ بے گھر دن کو بھی اپنے گھر کے خواب کے سچ ہونے کے خواب دیکھنے لگے ۔لاہور سے 2لاکھ 250کراچی کے مختلف اضلاع سے 9لاکھ 90ہزار ملتان سے 49ہزار 802بہاولپور سے 44ہزار 786پشاور 35ہزار سے زائد گھر کے لئے درخواستیں جمع کروائیں اور عمران خان کے وعدے کے وفا ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ حکومت نے کروڑوں روپے کے اشتہارات دے کر اپنی نیک نامی میں اضافہ کیا مگر بے گھروں کے حصے میں انتظار اور مایوسی کے سوا کچھ نہ آیا۔ حکومت اپنا وعدہ پورا کرنے کا یقین تو مسلسل دلاتی رہی مگر منصوبے پر عملدرآمد کی رفتار اور حکومت کے متعین کردہ طریقہ کارکا یہ عالم رہا کہ عوام کو اقبال ساجد کے اس شعر پر یقین ہونے لگا : پچھلے سات بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا عوام کے علاوہ جب حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ افسر شاہی صرف لفظوں کی کھیتیاں بو رہی ہے تو وزیر اعظم اور ان کے مشیروں نے بیورو کریسی کو حکومتی پالیسی پر عملدرآمد کے لئے مجبور کرنے کے لئے تبادلوں اور اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افسر شاہی نے فائلوں کا پیٹ بھرنا تو شروع کیا مگرحکومت کو ناکام کرنے کے لئے جو بیورو کریسی پہلے ہی’’گوسلو‘‘ پر عمل پیرا تھی حکومت سے انتقام لینے پر اتر آئی۔ بے گھروں کو گھر دینے کے لئے ایسا طریقہ کار واضح کیا کہ اگر گھر بن بھی جائیں تو کوئی لینے والا نہ ہو اور عمران خان کو یہ دکھا دیا جا سکے کہ لیں جناب پاکستان میں اب کوئی بے گھر ہی نہیں اگر ہوتا تو حکومت کے بنائے ہوئے گھر خالی کیوں ہوتے؟یہ کھیل کس قدر ہوشیاری سے کھیلا گیا اس کی ایک جھلک پنجاب ہائوسنگ اینڈ ٹائون پلاننگ ایجنسی سب ریجن ملتان میں اپارٹمنٹس میں دیکھی جا سکتی ہے ملتان میں نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کے تحت جو اپارٹمنٹ بنائے جا رہے ہیں ان میں ایک یونٹ 2مرلہ یعنی 550مربع فٹ (ملتان میں ایک مرلہ 275مربع فٹ کا ہے) کا ہو گا جس پر چار اپارٹمنٹس بنائے جائیں گے۔ایک اپارٹمنٹ کی قیمت 29لاکھ 85ہزار روپے مقرر کی گئی اس طرح دو مرلہ جگہ پر چار گھر بنا کر حکومت نے ایک کروڑ 20لاکھ میں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملتان میں دو مرلہ کی قیمت 10لاکھ سے زیادہ نہیں لاہور میں مارکیٹ میں پریمیر کوالٹی کے گھر کا ریٹ 2200روپے فی مربع فٹ ہے اس حساب سے 550 مربع فٹ گھر بنانے کی لاگت 12لاکھ 37ہزار 500روپے کے لگ بھگ بنتی ہے اسی کو معیار بنایا جائے توچار اپارٹمنٹ پر 49لاکھ 50ہزار کے لگ بھگ لاگت آئے گی 10لاکھ زمین کی قیمت جمع کر لی جائے تو 59لاکھ 50ہزار ہوئے اور حکومت بے گھروں کو یہ اپارٹمنٹ ایک کروڑ بیس لاکھ میں یعنی 100فی صد منافع پر فروخت کر رہی ہے یہ ہے حکومت کی عوام دوستی اور غریب پروری۔ ابھی معاملہ ختم کب ہوا کراچی کے بعد لاہور میں سب سے زیادہ تقریباً دو لاکھ بے گھروں نے درخواستیں جمع کروائی ہیں۔ لاہور میں زمین مہنگی ہے اس لئے حکومت نے بے گھروں کو گھر دینے کے لئے ایل ڈی اے کو ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ ہوا اور ایل ڈی اے کے ذریعے چار ہزار فلیٹس بے گھروں کو دینے کی تشہیر شروع کی گئی تو ایل ڈی اے حکام کی رالیں بھی ٹپکنے لگیں۔ ایل ڈی اے انتظامیہ حصہ وصول کرنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھی تونیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی اور ایل ڈی اے میں بندر بانٹ کاکھیل شروع ہوگیا۔ نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی نے 4ہزار فلیٹس میں سے 10فیصد اپنے ملازمین کے لئے الگ کر لیے۔ایک ہزار فلیٹس پر ایل ڈی اے نے حق جتلایا ۔ جمع تفریق کے بعد صرف 1500فلیٹ عام آدمی کے لیے بچے۔ نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی اور ایل ڈی اے نے تو وزیر اعظم کی گھر حاصل کرنے کے لئے مقرر کردہ شرائط کہ یہ گھر ان افراد کو دیے جائیں گے جن کے پاس پہلے گھر نہیں اپنے لئے اس شرط سے استثنیٰ حاصل کیا پھر کہیں منصوبہ کی کاغذی کارروائی کا آغاز ہوا۔ بے گھروں سے کھلواڑ صرف ملتان اور لاہور میں میں ہی نہیں پورے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ کہنے کو حکومت نے تمام بنکوں کو بے گھر افراد کو پانچ فیصد پر قرض فراہم کرنے کا پابند کیا ہے اور حکومت نے قرض کی واپسی کی گارنٹی بھی دے رکھی ہے مگر بنک جن شرائط پر قرض فراہم کر رہے ہیں ان کو پورا کرنا کسی مزدور، دیہاڑی دار کے لئے ممکن نہیں چھابڑی فروش قرض کی درخواست دے تو اس سے بنک سٹیٹ منٹ کا مطالبہ اور مزدور قرضہ مانگے تو اس سے 30 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ بنک میں جانے کا ثبوت مانگا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کتنے نجی ادارے ہیں تو ملازمیں کو تنخواہیں بنک کے ذریعے ادا کرتے ہیں۔ بنک قرض کی وآپسی میں ناکام رہنے والوں کے گھر فروخت کر کے قرضہ وصولی کا قانون بھی پاس کروا چکے ہیں اس کے باوجود کیونکہ کسی غریب کو گھر دینا ہی مقصود نہیں اس لیے قرضہ کے لیے شرائط ایسی رکھی گئی ہیں کہ عام آدمی کے لیے ان کو پورا کرنا ہی ممکن نہ رہے۔ غریب کے پاس نا 9من تیل ہو گا نہ بنک کی رادھا ناچے گی بنکوں میں دھکے کھانے کے بعد غریب کو عمران خاں کی ہاں بھی نہیں معلوم ہوتی ہے وہ چراغ حسن حسرت نے کہا ہے نا : امید وصل نے دھوکے دیے ہیں اس قدر حسرت کہ اس کافر کی ’’ہاں‘‘ بھی اب ’’نہیں‘‘ معلوم ہوتی ہے