مقدمہ اہم ترین اس کمزور مخلوق کا ہے جس کی وکالت کے لیے ہر شخص تیار رہتا ہے لیکن حق وکالت ادا کرنے کو خوف کا پتھر اور بالکل جامد پتھر سمجھ کر ترک کردیا جاتا ہے۔ تعلیم، صحت، مکان، کپڑا، روٹی بہت بڑے اور ضروری حقوق ہیں۔ رعایا حسرت کی نگاہوں سے کسی چارہ گر کی تلاش میں ایک عرصے سے سرگرداں ہے۔ آزادی کو ستر برس سے زیادہ تلخ ایام بیت گئے۔ غریب کی سوئی ہوئی قسمت ابھی تک ضعف میں آنکھیں ملتی ہے۔ بیدار نہیں ہوتی۔گہرے اور شاطر خیالات کو سیاست اور اختیارات کے لباس میں اتنا دلکش بتاتے ہیں کہ سادہ مزاج لوگ ان کو ہر درد اور ہر دور کا مسیحا سمجھ کرزندہ باد اور بس زندہ باد کرتے رہتے ہیں۔ یہ شاطر لوگ غریب قرض مند قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر، ان سے ان کے مقدر کی چابی لے کر قوم کے خزانوں کے تالے کھولنے کا وہ سیاہ دھندہ کرتے ہیں جس سے ان کی تجوریوں کا وزن بڑھتا ہے۔ پھر نیا کرشمہ کہ قرض کا کشکول لیے، نادار قوم کی ہمدردی میں الٹی سیدھی سکیمیں بنام ترقی شروع کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی قرض خور، ادھار خور اور بے وفا مشہور ہو گئے ہیں۔ کسی بھی بیرونی ایئرپورٹ پر کاغذات جانچتے ہوئے اہلکاروں کے غصے اور استہزاء میں عجب رنگ جھلکتا ہے۔ حیرت در حیرت کہ قومی اثاثے والی بڑی عمارتیں اب گروی رکھ دی گئی ہیں۔ قرض بنام قوم و ملک اور ملکی اثاثے غیروں کے ہاتھ گروی، قوم کی نبض پر ہاتھ رکھے سیاسی منڈی کے تاجر ایسی دوا بیچتے ہیں کہ بیماری بڑھتی جائے اور نئی بیماریاں جنم لیں۔ قحط پڑ گیا ہے، ایسے شاہی مزاج وسیع الاوطان باشندوں کے مالیاتی ماضی کی تحقیق بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے غریب، لاچار، حد غربت سے نیچے گرے عوام پر شائستہ قزاقوں نے کس پھرتی سے ڈاکہ ڈالا ہے۔ تبدیلی کیسی آئی؟ تبدیلی سے کسے فائدہ ہوا، عوام کی مصیبت بڑھی یا کم ہوئی؟ کوئی جواب ہو تو اطمینان نصیب ہو۔ البتہ تبادلے در تبادلے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ڈی سی پھٹ پڑا کہ گورنر صاحب جو بڑے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں، ان میں اس مسکین ڈی سی او کا تبادلہ بھی ہے۔ایک معاصر اخبار نویس نے توازن کر کے بتایا کہ گڈگورننس کو سفارش اور پسندیدگی کی چھڑی سے ہانکا جارہا ہے۔ حکمرانی کیا ہے؟ اور حکمران کیسے ہوں؟ کچھ علم درکار ہورہا ہے، تجربے کی قوت بھی حکمرانی کی ساکھ کو مضبوط کرتی ہے۔ حکمران خوشامد پسند نہ ہو، حکمران اپنے موقف میں مضبوط ہو اور حکمران کا دل عام انسانوں کی طرح دھڑکتا ہو۔ حضرت عمرؓ سے کسی نے پوچھا کہ رعایا کا خیال کیسے رکھا جائے؟ جواب تھا کہ اپنے ہم عمر لوگوں سے بھائیوں جیسا سلوک کرو کہ ان کی عزت نفس اور ان کی ضروریات بڑے خانہ دل میں دستور بن کر رہیں۔ ابھی چند روز پہلے سارے نیتا سر جوڑے مذہبی معاملات پر سدھ بدھ رکھے بیٹھے تھے کہ خزانہ کیسے بھریں تو آسان حل یہ نظر آیا کہ مسلمان بالعموم اور پاکستان کا مسلمان بالخصوص مذہبی عقیدت میں اتنا راسخ ہوتا ہے کہ جان مال کی پروا نہیں کرتا۔ حج پر پیسے بڑھا دو۔ پاکستان سے اکثر ایسے بزرگ لوگ حج پر جاتے ہیں جو اپنی زندگی کے معروف فرائض سے فارغ ہوتے ہیں۔ پھر آنہ آنہ، ٹکہ ٹکہ جوڑتے ہیں کہ حج پر جائیں گے۔ غریب کا جذبہ بھی بہت قوی ہوتا ہے۔ وہ ظاہر میں تہی دست لیکن دل کی کائنات میں بہت محنتی ہوتے ہیں۔ حج تو خیر حج ہے، ان کی عمومی نیت، اپنے آقائے دو جہان رسول مقبول ﷺ کی بارگاہ ناز میں نیاز مندانہ حاضری بھی ہوئی ہے۔ ان کی نجات اور آخرت میں فوز و فلاح کا تصور، جنت کا حصول اسی بارگاہ شفاعت و کرم سے وابستہ ہوتا ہے۔ نئے رنگ، نئے دعوے اور نئے نعرے سے برسراقتدار آنے والے نئے پرائے اقتداری شوقین حکمرانوں نے حج کی ادائیگی اتنی گراں کردی ہے کہ عقل چکرا رہی ہے اور جذبات پر برف کی چادر اگتی ہے۔ وزیر اوقاف و حج بے چارے ایک وزیر محض ہیں۔ کابینہ کے اجلاس میں ان کا تقویٰ بالکل ہی دامن متقی کی طرح سمٹ جاتا ہے۔ ابھی وہ سیاسی بیان سیکھ رہے ہیں۔ پہلے تو پٹھان کے غصے نے انہیں واک آئوٹ پر مجبور کیا، جو نشہ وزارت نے زور کیا تو تاویل کا پھندہ زبان سے جوڑا اور ٹیلیفون سننے کا بہانہ پیش کردیا۔ دنیا داروں کی جھرمٹ میں خود تقوے کو مضبوط دفاعی تقویٰ درکار ہوتا ہے۔ یہ ادارے اور اپنی مرضی سوار کرنے کی حکومتی جبلت ہر دور میں اپنے پنجے گاڑے عوام کے مفادات کی بوٹیاں نوچنے کی مشق ستم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک نصاب، پروگرام، لائحہ عمل بتا رہی ہے کہ ریاست مدینہ آج کے دور میں کس شکل کی ہو۔ خود سربراہان ادارہ کی تنخواہیں اور مراعات اپنی دلآویز اور نعمت بار ہیں کہ جس نے ان کا ہر روز، روز عید اور ہر شب، شب برات ہوتی ہے اور مشیر اتنے آسودہ حال ہوئے جا رہے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کا نام لیتے ہوئے ان کو اپنے قول و عمل کے تضاد کا آئینہ نظر آتا ہے۔ریاست فلاحِ عوام کے لیے ہوتی ہے، بھرا خزانہ منہ چڑایا کرتا ہے اگر مذہب کی آزادی میسر نہ ہو۔ بھرا خزانہ لعنت ہوتی ہے اگر غریبوں کے چولہوں میں آگ نہ سلگے اور بھرا خزانہ وبال بنتا ہے حکمرانوں پر اگر بے کس اور ضعیف عوام کے خون کے قطروں کو نچوڑ کر وزیر، مشیر نئی چمکتی، فراٹے بھرتی گاڑیاں خریدیں اور خدا کی لعنت برستی ہے ان لوگوں پر جو ثروت مندوں کو مالی رعایت، معاشرتی مراعات کی شیریں طشتری پیش کرتے ہیں اور غریبوں کے منہ سے لقمے چھیننے کا عمل قانون کے نام پر مسلسل جاری رکھتے ہیں۔ جناب وزیراعظم اب آپ کی کابینہ پی اے سی کے چیئرمین سے استعفیٰ کا مطالبہ کیوں کرتی ہے؟ عنقریب ریمانڈ کے گھیرے کا اسیر فرد جرم کو اپنی فرد حیات میں شامل ہوتا دیکھے گا۔ ہم آواز پہ آواز دیئے جا رہے ہیں کہ این آر او نے لباس بدلا ہے اور یوٹرن کے خوگر اس بدلے ہوئے لباس کو اپنی خفیہ حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ یوٹرن کا دائرہ ان کے ہاں بہت وسیع ہے۔ کل شاید یوٹرن دینی اقدار پر بھی اپنا اثر دکھانا شروع کردے۔ مولانا طارق جمیل ہر متحارب اور متصادم حلقے میں مصلح مانے جاتے ہیں۔ کبھی وہ حج کی مہنگائی پر بھی کوئی حکمت آمیز بیان دیں اور غافل فیصلہ کاروں کو جگائیں تو ان کی سیئات، حسنات میں بدل جائیں۔ وہ پردہ و حجاب کی تعریف کرتے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ ثقافت کے نام پر ٹی وی چینلز پر حیا کی چادر کو تار تار کرنے والے احکامات بھی ریاست مدینہ کے قیام میں ایک شیطانی مزاحمت ہے۔ عوام کو خوش رنگ الفاظ کا خمار چڑھانا فنکاری ہے لیکن جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہتا مومن صالح ہونے کی علامت ہے۔ البتہ ؎ خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں مگراندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں