کاف مین نے فوراً اپنے ہاتھ اٹھا دیے۔ اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر بھی تھا کیونکہ سونیا اب اس کے سامنے تھی ۔ کاف مین اسی لیے حیران ہوا تھا ، اس کی حیرت کی وجہ یہ تھی کہ سونیا کے جسم پر طالبان کا لباس تھا ۔ ’’ کمرے میں چلو !‘‘ میں نے اسے دوسرا حکم دیا ۔ اس نے کن انکھیوں سے میری طرف دیکھا ۔ میرے جسم پر بھی طالبان کا لباس تھا ۔ ’’ تم کو یہ حرکت مہنگی پڑے گی ۔ ‘‘ وہ بولا ۔’’ میں تمہارے امیر سے اس کی شکایت کروں گا ۔‘‘میری طرح وہ بھی پشتو میں بولا تھا ۔ ’’ کمرے میں چلو !‘‘ میں نے اپنا حکم سخت لہجے میں دہرایا ۔ کاف مین مڑگیا اور بولا ۔’’ اس حرکت کا کیا مطلب ہے ۔‘‘ اسے کمرے کے وسط میں لے جا کر میں نے کہا ۔ ’’ مطلب بہت جلد سمجھ میں آجائے گا ۔ سونیا ! اس کی تلاشی لو ۔‘‘ سونیا نے کاف مین کی تلاشی لی ۔ ’’ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمارے لیے نقصان دہ ہو ۔‘‘سونیا بے خیالی میں اردو بول گئی ۔ کاف مین چونکا ۔’’ تم طالبان نہیں ہو؟‘‘ اب میں نے بھی سونیا سے اردو میں کہا ۔ ’’ بیرونی دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے ہم نے ! تیزی سے جائو ، دروازہ بند کردو اور وہیں رکو ۔ دروازے میں آئی گلاس ہے ، تم وہیں رکو ۔ بانو کو یہاں آنا تو چاہیے ۔ اگر طالبان میں سے کوئی آئے تو ہر گز دروازہ نہ کھولنا ، فوراً آکر مجھے بتانا ۔‘‘ ’’ حماقت ہوئی ہے ہم سے ۔ ‘‘ سونیا تیزی سے باہر جاتی ہوئی بولی ۔ ’’ ہمیں دروازہ بند کرکے ہی آنا چاہئے تھا ۔ ‘‘ وہ باہر نکل گئی ۔ ’’ تم طالبان نہیں ہو!‘‘ کاف مین بولا۔ ’’ ہم طالبان کے دشمن ہیں ۔‘‘ میں نے انگریزی میں کہا اور اس کے سامنے آگئی ۔ ریوالور کا رخ اس کی طرف رکھا ۔ ’’ اب تم اپنے ہاتھ نیچے کرسکتے ہو ۔ ‘‘ کاف مین اب تک ہاتھ اٹھائے رہا تھا ۔ اس نے ہاتھ گرادیے اور مجھے گھورتے ہوئے بولا ۔ ’’ کس سے تعلق ہے تمہارا ؟‘‘ ’’ ضروری نہیں ہے کہ میں تمھیں جواب دوں ۔ ‘‘ میں نے خشک لہجے میں کہا ۔ ’’ مجھ سے کیا چاہتی ہو؟‘‘ کاف مین بولا ۔ ’’ تم ان درندوں کے لیے اندھا کردینے والی گیس بنانے کے لیے کام کررہے ہو ۔‘‘ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔ ’’ اور اس سے پہلے کہ تم گیس بنانے.....‘‘ ’’ میں کوئی گیس نہیں بنا رہا ہوں ۔‘‘ کاف مین نے میری بات کاٹی ۔ ’’ اچھا !‘‘ میں دھیرے سے ہنسی ۔ ’’ تمہاری ڈائری تو یہی بتارہی ہے !‘‘ کاف مین میرامنہ تکنے لگا ‘ پھر بولا ۔ ’’ کہاں ہے میری ڈائری ؟‘‘ ’’ وہ ابھی تمہاری لیبارٹری سے لے لی جائے گی ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ لیکن اگر آج تم نے وہ کسی خاص جگہ چھپادی ہے تو اس سے ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔اس کے تمام صفحات کی تصویریں میرے موبائل میں ہی نہیں ہمارے دوسرے کئی ساتھیوں کے موبائل میں موجود ہیں ۔ میں تمھیں اس کے اندراجات کے کئی جملے سنادیتی ہوں ۔ ‘‘ میں نے اسے کئی جملے سنائے ۔کاف مین میرا منہ تکتا رہ گیا ۔ مجھے اس سے یہ باتیں کرنے کی ضرورت اس لیے تھی کہ مجھے بانو کا انتظار تھا ۔ میں بے چین تھی کہ انہیں یہاں پہنچنے میں دیر کیوں ہورہی ہے ۔ ’’ تم کرمنل ہو؟‘‘ کاف مین نے مجھ سے سوال کیا ۔ میں نے اسے گھورا ۔’’ یہ کیوں سمجھ لیا تم نے ؟‘‘ ’’ مجھے معلوم ہے کہ پاکستانی پولیس کو مطلوب کچھ جرائم پیشہ ‘طالبان سے آملے ہیں ۔ قانون سے بچنے کے لیے انہیں یہی پناہ گاہ مل سکی۔‘‘ کہیں دور سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں چونک گئی لیکن میں نے کاف مین سے نظریں نہیں ہٹائیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ آوازیں کاف مین نے بھی سنی ہوں گی ۔ وہ میرے چہرے سے میرے تاثرات سمجھنے کی کوشش کررہا ہوگا ۔ گولیاں چلنے کی آوازیں قریب آتی جارہی تھیں ۔قیاس کیا جاسکتا تھا کہ وہ لوگ تعاقب کرتے ہوئے گولیاں چلا رہے تھے اور تعاقب بانو ہی کا کررہے ہوں گے ۔ ’’ یہ آخر.....‘‘ کاف مین نے کچھ کہنا چاہا ۔ ’’ خاموش رہو ۔ ‘‘ میں نے اسے ڈانٹ دیا ۔ میں ہیجان میں مبتلاء ہوگئی تھی ۔ اگر بانو کو کچھ ہوگیا تو ؟ یہ سوال میرے لیے بہت اہم تھا لیکن دل میں یہ بات بھی تھی کہ بانو کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ گولیاں چلنے کی آوازیں بہت قریب آئیں اور پھر رک گئیں ۔ میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ کیا طالبان کامیاب ہوگئے ؟ لیکن ایسا نہیں تھا ۔ ایک منٹ بعد ہی بانو کمرے میں داخل ہوئیں ۔ وہ بہ دستور مردانہ بھیس میں تھیں ۔ جسم پر لباس طالبان ہی کا تھا ۔ ان سے ذرا ہی پیچھے سونیا بھی تھی ۔ بانو کے ایک ہاتھ میں گن اور دوسرے ہاتھ میں وہی شیشہ تھا جس کے باعث ہم ایک طالب کی برسائی ہوئی گولیوں سے محفوظ رہے تھے ۔ ’’ گڈ!‘‘ بانو نے کاف مین کو میرے ریوالور کی زد پر دیکھ کر کہا ۔ ’’ آپ بالکل ٹھیک ہیں نا؟ ‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا ۔ ’’ اسی کی وجہ سے ۔‘‘ بانو نے شیشے کی طرف اشادہ کیا ۔ ’’ یہ میں ایک ہاتھ سے اپنی پشت پر رکھے رہی تھی ۔ ‘‘ ’’ گولیاں چلنا کیوں بند ہوگئیں ؟‘‘ بانو کی بجائے سونیا نے جواب دیا۔ ’’میں آئی گلاس سے آنکھ لگائے رہی تھی۔ میں نے جیسے ہی بانو کو دیکھا، دروازہ کھول دیا۔ یہ اندر آئیں تو فوراً دروازہ بند کردیا اور چیخ کر کہا کہ اب اگر گولیاںچلائو گے تو تمھارا آدمی بھی مارا جائے گا۔ کاف مین ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ ’’ہاں۔ ‘‘بانو نے کہا۔’’ اسی وجہ سے فائرنگ رکی ہے، لیکن بہت جلد وہ کوئی دوسرا قدم اٹھاسکتے ہیں۔ ‘‘پھر انھوں نے جلدی سے پوچھا۔’’ لیبارٹری کا شیشہ بند کردیا؟‘‘ ’’اوہ، شیشہ! ‘‘میرے منہ سے نکلا۔ ’’آپ کاف مین کو سنبھالیں، میں جاکر بند کرتی ہوں۔‘‘ بانو نے اپنی گن کاف مین کی طرف سیدھی کرلی۔ میں دوڑتی ہوئی لیبارٹری میں گئی۔ ایک طالب کھڑکی پر چڑھنے والا تھا، میں نے اسے گولی مار دی۔ وہ الٹ کر دوسری طرف گرگیا۔ میں نے فرش پر بیٹھ کر کھڑکی بند کی اور اس کی چٹخنی لگادی۔ اگر میں نے یہ کام بیٹھ کر نہ کیا ہوتا تو وہ گولیاں مجھے لگتیں جو کھڑکی کی لکڑی توڑتی ہوئی لیبارٹری میں آئی تھیں۔ اس وقت میں نے چیخ کر وہی الفاظ کہے جو سونیا ان سے کہہ چکی تھی۔ گولیاں چلنی بند ہوگئیں۔ کیا وہ تینوں کاف مین کو اغوا کرسکیں؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ کریں!